اللہ ربُّ العزت نے اِسلامی دنوں میں سے چند دنوں اور راتوں کو فضیلت بخشی ہے۔ یہ دن اور راتیں دوسرے دن اور راتوں سے منفرد مقام رکھتے ہیں۔ یہ دن اور رات ہمیں جھنجھوڑتے ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ”وہی ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا“ ہونے کا احساس دلاتے ہوئے اِس منصب کے مطابق کردار ادا کرنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔ عبادت کے انہی مخصوص اوقات میں سے ایک شب برات بھی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ خیر کو چار راتوں میں خوب بڑھاتے ہیں: (1) عیدالاضحی کی رات، (2) عیدالفطر کی رات، (3) شعبان کی پندرہویں رات، (4) نویں ذی الحجہ کی رات۔ ان تمام راتوں میں صبح کی اذان تک خیر و برکت کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ (ابن ماجہ)۔
شب برات ان ہی عظمت و فضیلت والی راتوں میں سے ایک رات ہے۔ لفظ ’شب‘ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں رات اور ’برات‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں بری کردینا، آزاد کردینا، نجات دینا۔ اس رات کو شبِ برات سے اس وجہ سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اس رات خطاوں اور گناہوں سے توبہ و استغفار اور عبادت کرنے سے اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی رحمت سے دوزخ کے عذاب سے بری و آزاد کردیتا ہے۔
اِس رات کی عظمت و فضیلت سے متعلق 10 صحابہ کرامؓ سے احادیث منقول ہیں۔ بزرگان دین سے اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانا، عبادت کا خصوصی اہتمام کرنا ثابت ہے۔ یہ فضیلت والی رات ہے۔ اس میں عبادت کرنا باعثِ اجر و ثواب اور اس کی خصوصی اہمیت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’شعبان کی پندرہویں شب کو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی آرام گاہ پر موجود نہ پایا تو تلاش میں نکلی۔ دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع کے قبرستان میں ہیں۔ پھر مجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے، اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتا ہے۔ (ترمذی)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے مسلمانو! شعبان کی پندرھویں رات کو عباد ت کے لیے جاگتے رہو اور اس کامل یقین سے ذکر و فکر میں مشغول رہو کہ یہ ایک مبارک را ت ہے اور اس رات میں مغفرت چاہنے والوں کے جملہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔“ (مسند بزار)
حضرت ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ”جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں‘پس تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں اور کافروں کو ڈھیل دیتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے بغض کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کو ترک کر دیں۔“ (صحیح الجامع الصغیر) حضرت معاذ ابن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنی ساری ہی مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے، سوائے شرک کرنے والے اور کینہ رکھنے والے کے۔ (طبرانی، بیہقی) اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ”اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات آدمیوں کے وہ یہ ہیں: (1) مشرک (2) والدین کا نافرمان (3) کینہ پرور (4) شرابی (5) قاتل (6) شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا (7) چغل خور۔ ان سات افراد کی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی۔
مغفرت نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شرک سے توبہ نہیں کرتا تومعافی نہیں ہے، کینہ اپنے دل سے نہیں نکالتا تومعافی نہیں ہے، تکبر نہیں چھوڑتا تو معافی نہیں ہے، والدین کی نافرمانی نہیں چھوڑتا تو معافی نہیں ہے، شراب نہیں چھوڑتا تومعافی نہیں ہے۔ اگر یہ چھوڑ دے تو معافی ملنے کی اُمید ہے۔ ادھر یہ توبہ کرتا ہے اُدھر اللہ تعالیٰ سب گناہوں کو دھوکے پاک کردیتا ہے۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا منادی اس رات میں آواز لگاتا ہے: الا من مستغفر لی فاغفرلہ؟ سنو! کیا کوئی ہے جو اپنے گناہوں کی مغفرت مانگنے والا ہواور میں اس کی مغفرت کروں:الا مبتلی فاعافیہ؟ ہے کوئی مصیبتوں میں مبتلا جس کی مصیبت کو میں عافیت میں تبدیل کروں؟ یہ ساری رات اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا رہتا ہے۔
اللہ ربُّ العزت کی رحمت و بخشش کے دروازے یوں تو ہر وقت ہر کسی کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ ’اللہ کی رحمت سے نااُمید مت ہو‘ کی فضاوں میں رحمتِ الٰہی کا دریا ہمہ وقت موجزن رہتا ہے۔ اس کی رحمت کا سائبان ہر وقت اپنے بندوں پر سایہ فگن رہتا ہے اور مخلوق کو اپنے سایہ عاطفت میں لیے رکھنا اسی ہستی کی شانِ کریمانہ ہے۔ اس غفّار، رحمن و رحیم پروردگار نے اپنی اس ناتواں مخلوق پر مزید کرم فرمانے اور اپنے گناہ گار بندوں کی لغزشوں اور خطاوں کی بخشش و مغفرت اور مقربین بارگاہ کو اپنے انعامات سے مزید نوازنے کے لیے بعض نسبتوں کی وجہ سے کچھ ساعتوں کو خصوصی برکت و فضیلت عطا فرمائی، جن میں اس کی رحمت و مغفرت اور عطاوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے اور جنہیں وہ خاص قبولیت کے شرف سے نوازتا ہے۔ ان خاص لمحوں، خاص ایام اور خاص مہینوں میں جن کو یہ فضیلت حاصل ہے ربّ کائنات کی رحمت کی برسات معمول سے بڑھ جاتی ہے۔ ان خصوصی ساعتوں میں ماہ شعبان کی پندرھویں شب یعنی شب برات بھی ہے۔ جو کہ رحمتوں، برکتوں اور بخشش سے بھرپور رات ہے۔
اِس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں۔ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے۔ ہرمسلمان کو چاہیے کہ براہِ راست اپنے پروردگار کے ساتھ رابطہ اور رشتہ قائم کرے۔ تنہائی اور خلوت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو۔ وہ ہو اور اس کا اللہ ہو اور اس تنہائی میں عبادت بھی کرے، سجدے بھی کرے، تلاوت بھی کرے، دعائیں بھی مانگے۔ جتنا آدمی خلوت و تنہائی میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کرے گا اُتنا ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مضبوط تعلق پیدا ہوگا ، اُتنا ہی اجر و ثواب ملے گا، اُتنی دُعائیں اِن شاءاللہ قبول ہوں گی۔
اس رات میں جتنا بھی موقع مل جائے گوشہ تنہائی میں اپنے اللہ سے رابطہ قائم کریں۔ نفل نماز پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں، ذکر کریں، تسبیحات پڑھیں، اپنی ذات اور پوری اُمت کے لیے دعائیں کریں۔ اللہ ربُّ العزت تمام مسلمانوں کو اس کی توفیق دیں۔ آمین! (مولانا محمد عمران بھٹی)