ازدواجی زندگی میں شکرگزاری کی اہمیت

ایک کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے قدردانی، شکرگزاری اور احترام کا کلچر بہت ضروری ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جو ہر میاں بیوی کو ایک دوسرے سے مطلوب ہوتی ہیں، یہ ثقافت صرف منفی سوچ سے چھٹکارا پا کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے اور یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ہم منفی پہلوں کے بجائے مثبت پہلوں پر توجہ مرکوز کریں، کیونکہ مثبت سوچ، ایک دوسرے کا احترام اور شکرگزاری کا جذبہ زہریلے خیالات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔

یہ بات قرآن اور حدیث دونوں میں بیان کی گئی ہے۔ سورہ النساء کی آیت نمبر 19 میں ہے: ”اور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔”
حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت سے بغض نہ رکھے۔ اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہے تو دوسری پسند ہو گی۔”
ازدواجی رشتہ وہ بنیاد ہے جس پر خاندان اور پورا معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ یہ رشتہ جتنا اہم ہے، اتنا ہی اس میں وفاداری اور احترام کی قدروں کو برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔ ایسے اسباب جو اس رشتہ کو خوبصورتی سے نبھانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، ان میں ایک اہم سبب ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرنا بھی ہے۔ شکریہ بظاہر ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن ازدواجی زندگی میں بہتر تبدیلی لانے کے لیے یہ ایک مضبوط محرک بن سکتا ہے، کیونکہ یہ دراصل کسی کی صلاحیتوں اور محنتوں کا اعتراف ہوتا ہے جو ہمارے منفی نقطہ نظر کو مثبت اور پرکشش نقطہ نظر میں بدل دیتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو انسان پورے دن میں بے شمار مواقع پر دوسروں کی قدر کرتے ہوئے شکریہ کہتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اپنی زندگی کے سب سے اہم تعلقات میں، ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنی شریک حیات کو شکریہ کہنا کتنا اہم ہوسکتا ہے۔
ازدواجی رشتہ سچائی، سمجھ بوجھ اور وقت کے ساتھ آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا متقاضی ہوتا ہے۔ محبت، جو عام طور پر رشتہ کے آغاز میں سنگ بنیاد ہوتی ہے، اگر باہمی احترام، قدردانی اور دونوں فریقوں کی مشترکہ کوشش نہ ہو تو وہ ماند پڑ سکتی ہے۔ یہ رشتہ وفاداری اور احترام کی قدروں کے بغیر آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی پھل پھول سکتا ہے۔ وفاداری کا مطلب ہے کہ دونوں میاں بیوی نے جو عہد ایک دوسرے سے کیا ہے، اس کی پاسداری کریں اور ہر حال میں ایک دوسرے کا سہارا بنیں، چاہے خوشی ہو یا غم جبکہ احترام وہ اہم عنصر ہے جو رشتہ کو ٹوٹنے سے بچاتا ہے کہ یہ ہر فریق کو دوسرے کے جذبات، خیالات اور مشترکہ زندگی میں اس کے حصے کی قدر کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔
ازدواجی رشتے کی حفاظت کے لیے میاں بیوی دونوں کو مشترکہ کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے یا بہانے تلاش کرنے کی بجائے دونوں کو سچے اور کھلے دل سے بات چیت کرنی چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتے اور اعتماد کی بنیاد پر تعلقات کی دوبارہ تعمیر کرنی چاہیے۔ میاں بیوی اپنے درمیان پائی جانے والی چپقلش کو خود ہی ختم کر سکتے ہیں لیکن عموماً دونوں کا غرور اس میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی اپنی ضد اور تکبر کو چھوڑ دے، تو رشتہ میں بہتری آ سکتی ہے۔ ایسے ناراض میاں بیوی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اپنے طرز عمل سے نہ صرف اپنی ازدواجی زندگی برباد کر رہے ہیں بلکہ دشمنی، بغض اور نفرت کے جذبات اپنی اولاد میں بھی منتقل کر رہے ہیں۔ پھر سوچیں، اگر بچہ نفرت کے ماحول میں پروان چڑھے گا تو اس سے محبت اور ہمدردی کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟ کیا وہ بھی کل وہی سب کچھ نہیں کریں گا جو انہوں نے اسے پریکٹیکلی سکھا رکھا ہے؟
وفاداری اور احترام کی قدروں کو زندہ کرنا شوہر اور بیوی کے درمیان کوئی انتخاب نہیں بلکہ یہ خاندان اور معاشرتی استحکام کے لیے ضروری ہے۔ وہ رشتہ جو محبت اور احترام پر مبنی ہو، نہ صرف زیادہ مستحکم ہوتا ہے بلکہ دونوں فریق کے لیے خوشی اور حمایت کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔ یہاں پردیس میں ہمیں اس وقت بڑا دکھ پہنچتا ہے جب ایک پردیسی فون کرکے یا بالمشافہ ملاقات کرکے کہتا ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہیں۔ ایک طرف پردیس میں آکر بیوی کی خوبصورت راتوں کو وحشت میں بدل دینا اور پھر مزید ظلم کرکے طلاق کے ذریعہ اس کی زندگی کا ایک طرح سے خاتمہ کر لینا ظلم کی انتہائی بھیانک شکل ہے جبکہ بیرون ملک جاکر کمانے کا مطالبہ بھی عموماً بیوی کی طرف سے نہیں ہوتا۔ کاش ہم اپنے غرور کو اپنے پیاروں اور دوستوں کے لیے محبت کے جذبات پر حاوی نہ ہونے دیں، کیونکہ تکبر محبت کو مار ڈالتا ہے، چاہے وہ محبت کتنی ہی شدید اور طاقتور کیوں نہ ہو۔