کراچی میں چینی سرمایہ کاری۔ امکانات و توقعات (ابراہیم خلیل)

صدر مملکت آصف علی زرداری کے حالیہ دورہ چین کے موقع پر دونوں ممالک کے صدور کی ملاقات کے بعد مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کی تقریب منعقد ہوئی۔

اس دورے کے ساتھ ہی جو بات ابھر کر سامنے آئی وہ یہ کہ چینی کمپنیاں سندھ میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ ٹھٹھہ سیمنٹ کمپنی کی پیداوار میں اضافے کے لیے قابل تجدید توانائی، کوئلے کے پلانٹ کے منصوبے پر کام کیا جائے گا۔ اس دورے میں صدر مملکت کے ہمراہ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ بھی تھے۔ یقینا انہوں نے سندھ کی ترقی اور خاص طور پر کراچی کو دوبارہ اس کا کھویا ہوا مقام دلانے کے لیے چین سے سرمایہ کاری لانے کے لیے کافی تگ ودو کی ہوگی۔
اگر قیام پاکستان سے قبل موجودہ پاکستان کی معاشی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اگرچہ یہ بات درست ہے کہ کراچی برصغیر کے دیگر علاقوں کی طرح نہ ہی قدیم ہے اور نہ ہی تاریخی عمارتیں موجود ہیں لیکن عبداللہ شاہ غازی کی کراچی کی آمد کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس کی تاریخ 1300 سال قدیم بنتی ہے لیکن اگر صنعتی ترقی اور معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے بات کی جائے تو کراچی کے عروج کا دور انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہوچکا تھا۔ پورے برصغیر میں معاشی سرگرمیاں کسی بھی شہر میں ابھی اتنی شروع نہیں ہوئی تھیں کہ کراچی کی بندرگاہ نے انگریزوں کا رخ اپنی جانب موڑ لیا کیونکہ وہ اس خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور حکمرانی کرنے کی خاطر اور انگلینڈ سے رابطے کے لیے کسی بحری اڈے کی تلاش میں تھے اور وہ انہیں کراچی کی بندرگاہ کی صورت میں مل گیا۔ فروری 1839ء میں انگریز یہاں آئے اور اس شہر کو فوجی چھاؤنی کے طور پر ترقی دینے کا آغاز کیا۔ شہر میں صنعتی اور رہائشی علاقے الگ الگ بسائے گئے۔ 1878ء میں کراچی کو ریلوے کے ذریعے پورے ہندوستان سے ملا دیا گیا۔ کراچی بندرگاہ سے سامان تجارت، خام مال، زرعی پیداوار خاص طور پر کپاس لے جاکر مانچسٹر اور برمنگھم کی فیکٹریوں کو آباد کرتے رہے۔ ملک کے بیشتر علاقوں سے افراد کراچی آتے رہے۔
قیام پاکستان کے بعد یہ شہر بہت بڑا صنعتی اور معاشی تجارتی اور امپورٹ ایکسپورٹ کے مرکز کے طور پر جانا جانے لگا۔ اس شہر کی ترقی دیکھ کر یہ مثال اس پر صادق آنے لگی کہ دن دونی اور رات چوگنی ترقی ہوتی رہی۔ کارخانے لگتے رہے۔ غیرملکی سیاح بڑی تعداد میں آتے رہے۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے روس کے تعاون سے یہاں پاکستان کی سب سے بڑی اسٹیل مل لگائی۔ اب تین عشرے بیت گئے کہ کراچی کی ترقی اور صنعتی سرگرمیاں سب ماند پڑ گئیں۔ اب یہ سننے اور اخبار میں پڑھنے کو ملا ہے کہ چینی کمپنیاں سندھ میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ اس سے قبل چینی کمپنیوں نے کراچی میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے میگا میڈیکل سٹی کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے کراچی میں بڑی سماجی اور معاشی تبدیلی ممکن ہے جبکہ سندھ میں سرمایہ کاری کے مثبت اثرات کراچی میں مرتب ہوں گے۔ چینی کمپنیوں کے ہیڈ آفس کے علاوہ دیگر امور کے لیے یقینی طور پر کراچی کے شہریوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع میسر آئیں گے۔
یہ شہر جسے غریب پرور شہر کہا جاتا ہے، یہاں کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے۔ ان کے لیے روزگار کے مواقع نظر نہیں آ رہے۔ اس سلسلے میں یقینی طور پر وزیراعلیٰ سندھ اور ان کی کابینہ کی کوشش ہے کہ اس شہر سے جتنے صنعتی یونٹس دیگر ملکوں میں منتقل کیے گئے یا کسی وجہ سے بند کر دیے گئے، ان سب کو فعال بنایا جائے اور دوبارہ سے معاشی اور صنعتی سرگرمیوں کا آغاز کیا جائے۔
چینی سرمایہ کاروں نے میڈیکل سے متعلق جس منصوبے کا اعلان کیا ہے اس منصوبے کے تحت میڈیکل آلات کی تیاری، عالمی معیار کا میڈیکل کالج، صحت کی دیکھ بھال سے متعلق دیگر کاروباری ادارے قائم کیے جائیں گے۔ کراچی میں سرکاری سطح پر کئی میڈیکل کالجز موجود ہیں اور پرائیویٹ سطح پر بھی کراچی سمیت ملک بھر میں کئی میڈیکل کالجز ہیں۔ لیکن حیران کن حد تک ان کی فیس کروڑوں روپے میں ہے جبکہ سرکاری میڈیکل کالجز میں کراچی کے رہائشی طلبہ زبردست مسابقت اور دیگر کئی وجوہات کی بنا پر کم تعداد میں داخلہ حاصل کر پاتے ہیں لہٰذا چینی سرمایہ کاری کی مدد سے کئی میڈیکل کالجز، ڈینٹل کالجز، فزیوتھراپی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینے والے ادارے اور میڈیکل اسٹاف اور پیرا میڈیکل کی تعلیم کے لیے ادارے قائم ہونے چاہئیں۔
کراچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں سے سب سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ اس شہر کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے حکومتی اقدامات نظر نہیں آتے۔ خاص طور پر موسم گرما میں یہ شہر لو، گرم تھپیڑوں کی زد میں آ جاتا ہے۔ آج کل ٹیکنالوجی کی بدولت ماہرین ایسے طریقے وضع کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جن سے گرم ترین شہر کو معتدل موسم والا شہر بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے صوبائی حکومت اور بلدیاتی حکام کو جدید تکنیکی طریقوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔
اس کے علاوہ گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ سے بچنے کے لیے بھی مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ باقی سڑکوں کے نظام کے بارے میں آگاہی دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر شخص اس بارے میں آگاہ ہے۔ مزید یہ کہ صوبائی حکومت کو اسٹیل مل کو دوبارہ فعال بنانے کے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ اگر یہ مکمل طور پر بحال ہوگئی تو کم از کم دو لاکھ افراد کے لیے روزگار کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ کراچی کی صنعتی بحالی کی طرف ایک اہم ترین قدم ہوگا۔ کیونکہ پورے ملک کی نسبت کراچی میں بے روزگاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ انہیں روزگار فراہم کرنے کے لیے صوبائی حکومت کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔
مزید برآں چینی سرمایہ کاری کے تحت کراچی میں انفراسٹرکچر کے کئی منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں، جن میں جدید ٹرانسپورٹ سسٹم، سڑکوں کی بہتری، اور پانی کی فراہمی جیسے بنیادی سہولیات شامل ہیں۔ اگر ان منصوبوں پر عملدرآمد کیا جائے تو نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ کی معیشت ترقی کرے گی اور ملک کو مجموعی طور پر فائدہ ہوگا۔