عوام کی معیشت میں استحکام کی منزل کب آئے گی؟

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی معاشی صورتحال، اپنی حکومت کے مبینہ سخت فیصلوں اور آگے بڑھنے کے لائحہ عمل پر روشنی ڈالی۔ وزیر اعظم کے خطاب میں جہاں معاشی ترقی کے حوالے سے امید کی کرن نظر آتی ہے، وہیں دہشت گردی کے دوبارہ سراٹھانے جیسے سنگین مسئلے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ وزیر اعظم کے مطابق ان کی حکومت نے گزشتہ دس ماہ کے دوران معیشت کو استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے سخت فیصلے کیے۔ حکام کے مطابق جون 2023 میں جب ملک ڈیفالٹ کے قریب تھا، تو حکومت نے فوری طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کیے اور بالآخر 7 ارب ڈالر کا معاہدہ ستمبر میں طے پایا۔ اس کے نتیجے میں ملکی معیشت عالمی ریٹنگ ایجنسیز کی نظر میں مثبت قرار پائی۔

یہ سب دعوے اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ عوام کیلئے حالات جوں کے توں ہیں بلکہ ہر آئے دن حالات مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں، ایسے میں عوام کو اس بات کا یقین کیسے آسکتا ہے کہ واقعی حکومت کی کارکردگی کے نتیجے میں معاشی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں ملکی معیشت میں استحکام اور ترقی کا معیار عوام کی روز مرہ کی معیشت کو قرار دیا جاتا ہے، عوام کی زندگی کے شب و روز سے بڑھ کر ملکی معیشت کی بہتری اور ابتری کا تعین کرنے کا آئینہ اور کوئی نہیں ہے۔معیشت میں بہتری، استحکام اور ترقی کے لاکھ دعوؤں کے باوجو د جب تلخ زمینی حقیقت یہ ہو کہ عوام کی غالب اکثریت ناں جویں کو ترستی ہو، روزگار و معاش کے مسائل ہوں اور غربت مسلسل بڑھ رہی ہو، تو کیسے باور کیا جائے کہ معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملکی معیشت اگر بہتر ہے تو اس کی جھلک عوامی زندگی میں کب نظر آئے گی؟ اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے ٹیکس میں 15 فیصد کمی کی خواہش کا اظہار کیا ہے، جس سے یہ بات بخوبی آشکار ہے کہ وزیر اعظم کو بھی احساس ہے کہ عوام مشکل سے گزر رہے ہیں، جو بجائے خود ملکی معیشت پر ایک حقیقت پسندانہ تبصرہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا ٹیکس نظام اب بھی غیر متوازن ہے۔ سب جانتے ہیں کہ تنخواہ دار طبقہ ہی اصل بوجھ برداشت کر رہا ہے، جبکہ بڑے کاروباری ادارے اور بااثر طبقات نسبتاً محفوظ ہیں۔ اگر حکومت واقعی معیشت کو مستحکم بنانا چاہتی ہے، تو اسے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ہوگا اور ان طبقات کو بھی شامل کرنا ہوگا جو اب تک اس سے باہر ہیں۔ یہ درست ہے کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ کاروبار کیلئے ماحول کو بہتر اور ہم آہنگ بنانا ہے، تاہم نجکاری کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ قومی اثاثے کسی مخصوص طبقے کے ہاتھوں میں نہ چلے جائیں۔
اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے ایک اہم نکتہ یہ اٹھایا کہ دوبارہ دہشت گردی کیوں شروع ہوئی؟ یہ سوال بہت ہی سنجیدہ نوعیت کا ہے، کیونکہ گزشتہ برسوں میں پاکستان اور اہل پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے شمار قربانیاں دیں۔ فوج، پولیس اور عوام کی قربانیوں کے نتیجے میں ملک میں امن قائم ہوا، دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی، مگر حالیہ مہینوں میں دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔ ملک کے طول و عرض میں بالخصوص بلوچستان اور کے پی کے کے مخصوص علاقوں میں آئے دن فورسز اور قومی املاک پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کو دوبارہ پنپنے کا موقع ملا ہے اور وہ آئے دن دراندازی کرتے ہوئے پاکستانی فورسز، قومی املاک اور عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر گروہ ایک بار پھر منظم ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اندرونی سیاسی عدم استحکام بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو متاثر کر رہا ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم کا یہ سوال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جو دہشت گرد ایک بار ختم ہو چکے تھے، وہ دوبارہ کیسے منظم ہو رہے ہیں؟ وزیر اعظم کے بیان سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کے پی کے کی پی ٹی آئی حکومت کو دوش دے رہے ہیں، تاہم اس سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ ملک کے اندر قومی سطح کے معاملات پر دو رائے کس قدر خطرناک ہوسکتی ہے۔ دہشت گردی اور سیکورٹی امور پر وفاق اور صوبوں کو یکساں پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
پالیسی سطح پر دو رائی کا نتیجہ آج کے پی کے میں دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے کی شکل میں سامنے آرہا ہے، جو بہت ہی سنگین معاملہ ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی اختلافات جو بھی ہوں، معیشت، سیکورٹی اور خارجہ تعلقات کے تئیں پوری قوم وفاق اور چاروں صوبوں میں پالیسی، سوچ اور اپروچ کے معاملے میں مکمل یکسانی اور ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان حالات میں بھی کہ جب دہشت گرد آئے دن صوبے کے مختلف علاقوں میں آزادانہ حملے کر رہے ہیں، صوبائی حکومت سیکورٹی کے اس حساس معاملے میں بھی وفاق کے ساتھ کو آرڈینیشن اور ہم آہنگی کیلئے عملاً تیار نہیں دکھائی دیتی اور وزیر اعلیٰ گنڈاپور وفاق کو بالائے طاق رکھ کر افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح کی دوئی آج دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے کی ایک اہم وجہ ہے، جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے بجا کہا کہ اگر دہشت گردی کا خاتمہ نہ ہوا تو ملک میں سرمایہ کاری نہیں آئے گی اور ترقی ممکن نہیں ہو گی۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی سرمایہ کار اس ملک میں سرمایہ لگانے کیلئے تیار نہیں ہوگا جہاں امن و امان کی صورتحال غیر یقینی ہو۔علاوہ ازیں بجلی اور گیس کی قیمتوں اور کاروباری لاگت میں اضافہ اور روپے کی غیر مستحکم قدر جیسے عوامل بھی سرمایہ کاری کیلئے منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان تمام مسائل کو فوری طور پر حل کرے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے خطاب سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت اپنی کامیابیوں کو اجاگر کر رہی ہے، مگر عوام اب بھی عملی اقدامات کے منتظر ہیں۔ مان لیا کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا، لیکن عام آدمی کی زندگی میں بہتری کے آثار ابھی پوری طرح نظر نہیں آ رہے۔ معیشت کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ٹیکس اصلاحات متوازن ہوں، مہنگائی پر مؤثر انداز میں کنٹرول کیا جائے، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مربوط حکمت عملی اپنائی جائے، جس پر وفاق اور چاروں صوبے متفق ہوں اور بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے مزید سہولیات فراہم کی جائیں۔ حکومت کو پروپیگنڈے کی بجائے عمل پر اب زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ عوام کی معیشت کو بہتر اور مستحکم کرنے کی منزل اب بھی بہت دور ہے!