ہندوستان اور بنگلا دیش کی تو تو میں میں بڑھتی جارہی ہے، حسینہ واجد ہندوستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں، بنگلا دیشی حکومت کے مطالبے کے باوجود ہندوستان نے میڈم حسینہ کی میزبانی بلکہ سرپرستی جاری رکھی ہوئی ہے، جس سے اشتعال میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اگر میڈم حسینہ ہندوستان میں رہیں لیکن گم نامی کی زندگی کزاریں تو ان کے لیے فائدہ ہو سکتاتھا لیکن یہ ان کے جارحانہ موڈ اور مزاج کے خلاف ہے، ہندوستان کے مسٹر مودی اپنی مہمان ِخاص کے خیر خواہ ہوتے تو انھیں صبر و تحمل اختیار کرنے اور اچھے وقت کے انتظار کا مشورہ دے سکتے تھے لیکن مودی کا بھڑکیلا موڈ انھیں بے چین رکھتا ہے اور ہمیشہ تخریب کی راہیں سمجھاتا ہے، ان کی بے چین طبیعت بنگلا دیش میں آیا انقلاب ہضم نہیں کر پارہی، میڈم بھی کچھ کر دکھانے کا موڈ بنائے بیٹھی ہیں اور چاہتی ہیں بنگلا دیش میں موجود ان کے نام لیوا کچھ ہل چل کریں، کوئی ہلہ گلہ ہو، تاکہ میڈم کی فوری واپسی نہ سہی لیکن ان کے مخالفین میں ٹوٹ پھوٹ کی بنیاد پڑ سکے، چنانچہ میڈم نے آن لائن خطاب کا پروگرام بنایا، ان کے خلاف انقلاب لانے والوں نے پہلے متنبہ کیا لیکن جب میڈم باز نہیں آئیں تو انھوں نے میڈم کے تاریخی آبائی گھر کو جلا دیا۔
٭٭٭
ہندوستان کو بنگلا دیش کی بابت کئی طرح کے دکھ ہیں، ایک تو اس کی من پسند حکومت ختم ہو گئی، اس کے چہیتے دبک کر بیٹھ گئے ہیں، چلیں یہاں تک بھی ہوتا گزارا ہو جاتا لیکن پاکستان اور بنگلا دیش کی برسوں سے سوئی محبت نے جو انگرائی لی اور پاکستانی سپہ سالار کی سوچ نے اس محبت کی جو مہمیز لگائی، اس نے مودی کے ہندوستان کے پور پور میں آگ لگا دی ہے۔ پاکستان اور بنگلا دیش کے بیچ موجودہ محبت و مودت در اصل دونوں ملکوں کا اصل رنگ ڈھنگ ہے جس کی تلاش دونوں جانب کے سچے اور کھرے لوگ کر رہے تھے، قدرت نے انھیں موقع دیا ہے، اب ان کی خواہش اور کوشش ہے یہ محبت ایسی جلا حاصل کرے کہ ان کے مخالفین بھسم ہو جائیں اور دونوں ملک یک جاں دو قالب بن کر رہیں۔ ہندوستان یہ سوچ رہا ہے اس سے تو یہ متحدہ پاکستا ن ہی اچھا تھا جس میں دونوں ایک دوسرے سے شکوہ کرتے گلہ کرتے ناراض ہوتے اور منفی سوچ کی وجہ سے طاقت تقسیم در تقسیم ہوتے ہوتے کمزور سے کمزور ہو جاتے، یہ جو الٹی گنگا بہنے لگی ہے اس میں تو ہندوستانی ارادو ں کی ایسی تیسی ہو جائے گی۔
٭٭٭
کراچی والے کافی دنوں سے بارش کی آس لگائے بیٹھے ہیں، خشک سردی نے انھیں خاصا پریشان کر رکھا ہے، ان کی چاہت ہے کہ موسم میں تبدیلی ہونی چاہیے، فروری کا پہلا عشرہ اپنے اختتام تک پہنچ گیا، نئے نئے پھول کھلنے کا زمانہ ہے لیکن بارش کا دور دور تک پتا نہیں، کم از کم اتنی بارش ضرور ہو کہ دھول گرد تو بیٹھ جائے، دوسری جانب اپنی صوبائی اور شہری حکومتوں کی تاریخی کا کردگی پر نظر رکھنے والے یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ بھئی خشک موسم کی تکلیف اس سے بہتر ہے جس میں ہر طرف کیچڑ ہو، گٹر بھی اپنے اندر کا موا د باہر نکال دیں، مچھروں کی نئی تازہ دم فوج ہمارے لیے مسائل پید کرے، گند ایسا اور اتنا ہو کہ مکھیاں بھی اپنی بھنبھناہٹ کے ساتھ ہمارا سکون ختم کردیں۔ سچ تو یہی ہے کہ سارے موسم اچھے ہیں، ضروری ہیں اور چاہت بھی ہوتی ہے لیکن یہ مکھیوں مچھروں والا موسم برداشت نہیں ہو پاتا۔ اللہ تعالی ہماری حکومتوں کو مشکلات میں لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کا احساس بھی دے، ہمت اور توفیق بھی، ارادہ و کوشش بھی اور انھیں اس میں کامیاب بھی کرے۔
٭٭٭
غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف میں ٹرمپ مہم میں کافی گہما گہمی اور زبردست تیزی پائی جا رہی ہے، مثال کے طور پر ہزاروں افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں، اس سلسلے کا ایک اہم واقعہ وہ قرار دیا جا رہا ہے جس میں 110 افراد کو لے کر خصوصی امریکی طیارہ ہندوستان پہنچا، ان میں وہ لوگ جو بڑے کھرچے(خرچے) تگ و دو مشکلات اور بکھیڑوں سے امریکا پہنچے تھے، واپس اپنے دیس پہنچ گئے، جان بچ گئی اور بڑی عزت سے پہنچا دیا گیا لیکن ان کے خواب بکھر گئے۔ اب وہ نئے خواب بنتے ہیں یا اپنے دیس میں ہی محنت مزودری کرکے نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ ٹرمپ کی حکم دی گئی مہم کے مطابق گزشتہ روز 10 انتہائی خطر ناک (بقول امریکا)تارکین ِ وطن کو سی 17 کارگو طیارے میں گوانتا ناموبے منتقل کیا گیا، ابھی ان کی شناخت اور خطر ناکی کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا، البتہ یہ کہا گیا ہے کہ اِن افراد یا ان جیسے لوگوں کو ملک بدر کرنے سے پہلے خصوصی جائزے سے گزارا جائے گا اور ان کے رویے کو جانچا پرکھا جائے گا۔
٭٭٭
چمپئنز ٹرافی سے پہلے سہ فریقی سیریز میں پاکستان، جنوبی افریقا او ر نیوزی لینڈ کی ٹیمیں ایک دوسرے کے گیند اور بلے بازوں کی صلاحیت آزمائیں گی، پاکستانی ٹیم کی بابت کوئی پیشین گوئی، کوئی اندازہ خال خال ہی پورا ہوتا ہے، ورنہ عموما یہ ہوتا ہے جب پوری دنیا پاکستانی ٹیم کے گن گا رہی ہوتی ہے، گیند بازوں کی تعریفوں کے پل باندھے جارہے ہوں، بلے بازوں کی تکنیک اور مہارت بیان کی جارہی ہو تو ٹیم ٹھس ہو جاتی ہے اور جب پوری دنیا ٹیم کو ہلکا لینے لگ جاتی ہے، اچانک زخمی شیر بن کر ایک ایک کھلاڑی پلٹ کر حملہ آور ہوتا ہے اور ساری کسر ایک دو جھٹکوں میں نکال دیتا ہے۔ دیکھتے ہیں سہ فریقی سیریز میں ہمارے جیالے کیا کام دکھاتے ہیں اور چمپئنز ٹرافی میں کیا ماحول بناتے ہیں؟