صدر مملکت آصف علی زرداری، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈاراور دیگر اعلیٰ حکام کا دورہ ٔ چین دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں استحکام اور مزید ترقی کا باعث ثابت ہورہاہے۔ دونوں ملکوں کی اعلیٰ سطحی قیادت کے مابین متعدد امور پر اتفاقِ رائے ہوا ہے اور اس سلسلے میں جاری اعلامیے سے ظاہر ہوتاہے کہ مشترکہ اقتصادی ترقی، عالمی تنازعات اور دہشت گردی جیسے معاملات پر دونوں ریاستوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
اس امر پر بھی اتفاق کیاگیاہے دونوں ریاستوں کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کو ناکام بنادیاجائے گا۔ افغانستان پر زور دیاگیا کہ وہ دہشت گردگروہوں پر قابو پائے اور انھیں اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دے، پاکستان نے چین کو اپنا سب سے اہم اتحادی قرار دیا اور ون چائنا پالیسی کی حمایت کا اعادہ کیا، چین کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پاکستانی موقف کی تائید کی گئی۔ دونوں ملکوں کی قیادت نے غزہ میںجنگ بندی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ میں قیام ِامن کی کوششوں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
چین اور پاکستان کے درمیان مشترکہ اقتصادی ترقی اور دہشت گردی کے مسئلے سمیت عالمی تنازعات پر ہم آہنگی کا اظہار دراصل دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئی نوعیت کا عمرانی سمجھوتا ہے جس میں سیاسی و جغرافیائی حرکیات، اقتصادی و تزویراتی مفادات اور دونوں اقوام کے درمیان معاشرتی روابط پر اتفاق اوراضافہ شامل ہے۔ یہ سمجھوتا دراصل مغربی اقوام کے مشترکہ اتحاد کے مقابلے میں اقوامِ مشرق کی باہمی قربتوں اور یک جہتی کو ظاہر کرتاہے۔ روس، چین، ترکیہ، سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات اور دفاعی نوعیت کے معاہدے امریکا اور مغربی اقوام کی عالمی اجارہ داری کیلئے چیلنج بن سکتے ہیں۔ چین کچھ عرصے سے امریکا کی عالمی اجارہ دارکی حیثیت کو چیلنج کررہا ہے۔ عالمی ترقی و خوشحالی، عالمی امن اور اقتصادی ترقی
کے تحفظ اور تہذیبی ہم آہنگی اور مکالمے کے فروغ نیز انفرادی ترقی کے مقابلے میں مشترکہ خوشحالی جیسے منصوبے پیش کرکے چین خود کو ایک متبادل عالمی قوت کے طورپر پیش کرچکاہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی حیرت انگیز پیشرفت نے درست معنوں میں مغربی بالادستی کو متزلزل کردیاہے۔
ان حالات میں پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات میں مزید پیشرفت اور ٹیکنالوجی سمیت متعدد ترقیاتی شعبوں میں مل جل کر کام پر اتفاق دراصل دونوں ہی ملکوں کیلئے اہمیت کا حامل ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان طے پائے معاہدوں کا بنیادی مقصد دونوں ملکوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے اور اس ضمن میں افغانستان پر دہشت گرد گروہوں کیخلاف کارروائی اور انھیں اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دینے کا مطالبہ بہت اہم ہے۔ چینی قیادت کو اس امرکا بخوبی ادراک ہے کہ وہ عالمی سطح پر جو اقدامات کرچکی ہے ان کی بقا کیلئے علاقائی امن و سلامتی بہت اہم ہے اور پاک چین مخالف قوتیں اسی نازک حصے پر ضرب لگانے کی کوششیں کررہی ہیں جبکہ بدقسمتی سے افغانستان اس کھیل میں کرائے کے کھلاڑی کے طورپر استعمال ہورہاہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کے جن خطوں میں شور ش کے اثرات زیادہ دیکھے جار ہے ہیں، وہاں چین سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور کارکنوں کو خاص طورپر نشانہ بنانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ کراچی سمیت متعدد مقامات پر چینی ماہرین پر حملے کیے گئے جو بلوچستان میں ترقیاتی کاموں میں شریک تھے۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق زیادہ تر حملہ آوروں یا ان کے پشت پناہوں کا تعلق افغانستان سے ثابت ہوا ہے۔ افغان حکومت کو بارہا اس ضمن میں تنبیہ کی جاچکی ہے لیکن معلوم ہوتاہے وہاں کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی لہٰذا قیامِ امن کو یقینی بنانے اور پاکستان میں جاری اقتصادی منصوبوں کو تحفظ فراہم کرنے، نیز پاکستانی عوام کی سلامتی کیلئے ملک میں متعدد مقامات پر دہشت گردوں کیخلاف طاقت کا استعمال جاری ہے۔ یہ کوششیں اس عزم کا اظہار ہیں کہ پاکستان اپنی سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا اور اپنے دفاع کیلئے ہر ممکن جدوجہد کی جائے گی۔
سیکورٹی اداروں کی کاوشوں کی بدولت جہاں دہشت گردوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہاہے وہاں پاکستان میںاقتصادی سرگرمیوں اور تجارتی مواقع میں اضافے کے امکانات بھی بڑھتے جارہے ہیں، دہشت گردوں کا بس نہیں چل رہا کہ وہ کسی طرح پاکستان کی ترقی اور استحکام کیلئے کی جانے والی کوششوں کو سبوتاژ کردیں۔ دوسری طرف حکومت سیاسی فتنے پر قابو پانے کیلئے بھی کوشاں ہے۔ اسی حکمتِ عملی کے تحت اسلام آباد، راولپنڈی اور دیگر چند شہروں میں مقیم افغان باشندوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے، ادھر افغا ن حکومت نے پاکستان اورایران سے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا اقدام روکنے کا مطالبہ کیاہے لیکن حالات و اقعات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ امریکا کی جانب سے امدادی پروگرام کے خاتمے اور افغان پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے گریز کے بعد پاکستا ن اور ایران کے لیے شاید افغان پناہ گزینوں کوان کے وطن واپس بھیجنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔
دہشت گردی کیخلا ف پاک فوج کی جدو جہد کے نتائج ہیں کہ اس وقت ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے مواقع دکھائی دے رہے ہیں اور خاص طورپر چین کی جانب سے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں میں دلچسپی اور آمادگی کااظہار کیا گیا ہے۔ چین کی جانب سے پاکستان کے اس موقف کی حمایت بھی کی گئی ہے کہ افغانستان کو دہشت گرد گروہوں کی حمایت ختم کرنی چاہیے اور پاکستان سمیت کسی ملک کے خلا ف اپنی سرزمین کے استعمال کو روکنا چاہیے۔ دونوں ملکوں کے اس مشترکہ موقف کے بعد بھی اگر افغان حکومت اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہ کرے تو اسے اپنی غلط پالیسیوں کے نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔ مشرقِ وسطیٰ میںقیامِ امن اور غزہ میں جنگ بندی کے معاملے پر پاکستان اور چین کے درمیان اتفاقِ رائے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ ان تمام ممالک کا مشترکہ موقف غزہ سے فلسطینیوں کے جبری انخلا کے ناپاک منصوبے کو ناکام بنانے میں کردار ادا کرے گا۔ چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں پیش رفت سے ایک نئے تزویراتی اور دفاعی اتحاد کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں۔