ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی تجارتی و معاشی جنگ چھیڑ دی ہے۔ماہرین کے مطابق اس کے پیچھے کٹر یہودی مالداروں کا ٹولہ ہے۔
امریکا کو 85 بڑے ادارے چلارہے ہیں۔ ان 85 اداروں میں سے 54 کٹر یہودیوں کے پاس ہیں۔ ’ناسا‘ ایک ادارہ ہے جس کا سربراہ یہودی ہے۔ ’ورلڈ بینک‘ایک ادارہ ہے اس ادارے کا سربراہ بھی یہودی ہے۔ ’وال سٹریٹ‘ ایک ادارہ ہے۔ اس ادارے کے ہاتھ میں دنیا کی 80 فیصد دولت ہے۔ اس کا سربراہ جارج سورس نام کا ایک یہودی ہے۔ اس وقت دنیا میں 400 لوگ ہیں جنہیں ارب کھرب پتی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے 145 کٹر یہودی ہیں۔ یہ لوگ امریکا کے بزنس پر چھائے ہوئے ہیں۔ بڑی بڑی کارپوریشنوں، کمپنیوں اور فرموں کے مالک ہیں۔ میڈیا اس وقت پورے کا پورا یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔ وائٹ ہاوس شروع دن سے ہی یہودیوںکی سازشوں کا گڑھ رہا ہے۔ ان ا داروں کے 54 یہودی مالکان ہروقت وائٹ ہاوس میں سازشوں کا جال بنتے رہتے ہیں۔
امریکا کی تاریخ میں ’بل کلنٹن‘ اور ’جارج بش‘ جو مصدقہ طور پر ’فری میسن‘ ہیں۔ ان کا دور یہودیوں کے لےے انتہائی اہم رہا ہے۔ ’بل کلنٹن‘ کے دور حکومت میں یہودیوں کو وائٹ ہاوس میں گھسے رہنے اور اقتدار کواپنے حق میں استعمال کرنے کا جس قدر موقع ملا اتنا ان لوگوں کو تاریخ میں پہلے کبھی نہ ملا تھا۔ ’بل کلنٹن‘ کے دور میں یہ لوگ امریکی انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور میڈیا میں انتہائی اثرو نفوذ کے مالک تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا 3 فیصد امریکی یہودی، ستانوے فیصد امریکیوں کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ اس دور میں کہا جاتا تھا اگر آپ نے امریکی صدر سے ملنا ہے تو آپ کو اس کی اجازت ’تل ابیب‘ سے لینا پڑے گی۔ کلنٹن کے دور میں کابینہ اور کئی سرکاری ادارے یہودیوں کی تحویل میں تھے۔
مختصراً ہم بیان کیے دیتے ہیں :
کلنٹن کی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ، وزیر دفاع ولیم کوہن، نائب وزیر خارجہ اسٹینلے ارتھ، وزیر خزانہ لارسن سمرز، نائب وزیر خزانہ اسٹورن آنزن ٹیسٹ، وزیر زراعت ڈین ککرسین اور نائب وزیر زراعت رچرڈ اومنگر یہودی تھے۔ اقوام متحدہ میں امریکا کے سفیر رچرڈ ہال بروک، نیشنل سیکیورٹی کا سربراہ سینڈل برگر، چیف آف سوشل سکیورٹی کینتھ ایفل، ٹریڈ کا نمایندہ چارلس برشیفیکی، ڈائریکٹر سی آئی اے ڈیوڈ کوہل، جنوبی امریکا کے امور کا انچارج جیفری ڈیوڈر، آئی بی کا ڈائریکٹر ہال آئزنر، اسسٹنٹ اٹارنی جنرل جوٹیل کیلن، ڈپٹی اٹارنی جنرل والٹر ڈسلینجر، کمیونیکیشن ڈائریکٹر رابی امونیل راہم، نیشنل ہیلتھ کیئرایڈوائزر تھامس ریپٹن، اسسٹنٹ سیکرٹری آف ویئرنز لبریش گوبر، ڈپٹی سیکرٹری ایجوکیشں ایلن ہاس، سمال بزنس ایڈ منسٹریشن کا انچارج فریڈ ہال بروک۔
، مشرق وسطیٰ کے لیے امریکا کا ایلچی مارٹن انڈک، ڈینس راکس، ڈپٹی ایلچی آرسن ملر، کامن فوڈ اور ڈرک ایڈمنسٹریشن کا انچارج اسٹیوکیسلر، نائب صدر کا چیف آف اسٹاف ران کلین، نائب صدر کے لیے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر سیون فیورتھ، امریکی مفادات کے شعبے کا انچارج مائیکل کوزک، سیکیورٹیز اورایکسچینج کا سربراہ آرتھر لیوٹ، فیڈرل ٹریڈ کمیشن کا سربراہ رابرٹ پٹوفسکی، ڈائریکٹر مینجمنٹ آف بجٹ ایلس ریولن، ڈائریکٹر آف منٹ یوجن لڈوگ، نیشنل ہیلتھ ایڈوائزر ارامیگزائزر، کابینہ کا سیکرٹری اسٹیفن سلور مین، اکنامک پالیسی کا ایڈوائزر سٹیلے پوسکن، سی آئی اے کا ڈائریکٹر اپارچونٹی نوز اسلاٹیکس، ایف بی آئی کا ڈائریکٹر کیفی کوچ مائیک برام وچ، ایف بی آئی کا قانونی مشیر ہاورٹ شاپیرو، ڈرگ پالیسی کا کوآرڈینیٹر رابرٹ ونر، ڈائریکٹر فیمیلز ران پلاک، رابطہ آفیسر کیرن ایمر، جسٹس ڈیپارٹمنٹ کا ترجمان میرٹ برانڈن برگ اور ماحولیات کی انچارج کیلر برانوسر یہ تمام لوگ کٹر یہودی تھے۔
ان افسروں کے علاوہ کلنٹن نے اپنے دور میں جینز برگ اور بیرئیر نام کے دو متعصب یہودی رئیسوں کو سپریم کورٹ کا جج بھی لگایا تھا۔ کلنٹن اور خاتونِ اوّل ہیلری کلنٹن کا ذاتی اسٹاف بھی یہودی تھا۔ کلنٹن اور ہیلری کی نجی اور سرکاری مصروفیات کا تمام تر شیڈول یہی لوگ بناتے تھے۔ ہیلری کلنٹن کا خصوصی ایڈوائزر اسٹونی بلونتھل ملاقاتوں کے اہتمام پر مامور ڈائریکٹر پیٹریشیا سولز، خصوصی وکیل لینی بسرور، وائٹ ہاوس کے وکیل جین شیربرنی، اسپیشل اسسٹنٹ ٹو پیرس جان پوشیشیا، نیشنل سیکیورٹی کونسل میں جنوبی ایشیاکا انچارج بروس رائیڈل، نیشنل سیکیورٹی کونسل میں عراق سے متعلق اُمور کا انچارج کین پلاک، ڈپٹی اسسٹنٹ ٹو پریذیڈنٹ وکٹوریہ راڈ، بیڈ اکنامک پلیسٹی پاک ڈائمنڈ، ڈائریکٹر آف میڈیا افیئرز جیفری ایلر، اسسٹنٹ سیکرٹری آف ہیلتھ جوڈ تھ فیڈر، پیرس کانفرنس ایڈوائزر مینڈی گرین رالڈ، ڈائریکٹر ٹیسٹ ڈیپارٹمنٹ سموئیل لیوز، ڈپٹی چیف آف سٹاف ٹو پیرس ایوی لیبر مین، وائٹ ہاوس اسٹاف ڈائریکٹر این لیوس، چیف وائٹ ہاوس سیر سانل رابرٹ ناش۔
ہم جنس پرستوں کے طبقہ کا نمایندہ افسر ڈیوڈ مکسز، ڈائریکٹر آف کمیونیکیشن ٹارا سانیشائن ، ڈیپٹی لیجسٹو آفیئرز ڈوگلس ساسنسک، ڈپٹی فار اکنامک پالیسی جین پرلنگ، وائٹ ہاوس کا ترجمان بیری ٹوو، ڈپٹی پریس سیکرٹری ڈونالڈ سٹین برگ، ہیڈ اکنامک ایڈوائزرز لارا ٹائی سن اور ڈائریکٹر پیس کورز ایلی سیگل، یہ سب لوگ بنیاد پرست یہودی تھے۔ان یہودیوں نے کلنٹن کو بُری طرح گھیر رکھا تھا۔ مونیکا کیس بھی ان لوگوں ہی کے سازشی دماغ کا شاہکار تھا۔ یہ لوگ بلیک میلنگ کے اس ہتھکنڈے کے ذریعے یہودیوں کے لیے مزید مراعات اور فوائد حاصل کرنا چاہتے تھے۔
وائٹ ہاﺅس میں امریکی صدور کے اردگرد 32 یہودیوں کا ٹولہ ہمیشہ منڈلاتا رہتا ہے۔ یہ ٹولہ معاشی لحاظ سے انتہائی مستحکم ہے۔ ان کی مکمل گرفت ہے۔ سودخوروں کے حرص وہوس کی حالت یہ ہے۔ اگر کوئی مسلمان ملک ذرا بھی چوں چرا کرتا ہے تو اسے کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر خاک وخون میں تڑپا دیا جاتا ہے۔ کبھی نائن الیون جیسے خود ساختہ ڈرامے کے ذریعے۔ کبھی بڑے پیمانے پر تباہ کرنے والے ہتھیاروں کا بہانہ بناکر۔ کبھی دہشت گردوں کی آماجگاہ کے بہانے۔ کبھی جمہوریت کا خون کرکے۔ کبھی آمریت کو شہ دے کر۔ کبھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اسلحہ تقسیم کروا کر۔ کبھی اس کے عوام کو بغاوت پر اُکساکر۔ کبھی مسلم ممالک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا کرکے ان سب میں صہیونی قوتیں ہی ملوث ہیں۔ جہاں بھی نظر اُٹھائیں گے ہر جگہ یہی ”کافر صنم“ نظر آئے گا۔
اب ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی جو تجارتی و معاشی جنگ چھیڑ دی ہے، اس کے پیچھے بھی کٹر یہودیوں کا ٹولہ ہی معلوم ہوتا ہے۔