اداریہ: بھارت اپنی ناکامیوں کا غصہ پاکستان پر نہ نکالے

بھارت کی انتہا پسند مودی حکومت ایک بار پھر اپنی ناکام پالیسیوں اور خطے میں بڑھتی ہوئی تنہائی کا غصہ پاکستان پر نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم، وہاں کے عوام کے حقِ خودارادیت کو دبانے کی ناکام کاوشیں اور خطے میں اپنے اثر و رسوخ کے خاتمے نے بھارت کو شدید مایوسی میں مبتلا کر رکھا ہے۔

نیپال، مالدیپ، سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک بھارت کے اثر سے باہر نکل رہے ہیں، جبکہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔ ان تمام ناکامیوں کا بدلہ بھارت پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگا کر اور خطے میں اشتعال انگیز بیانات دے کر لینا چاہتا ہے، جس کا ثبوت بھارتی فوجی قیادت کے حالیہ غیر ذمہ دارانہ بیانات ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی قیادت کے حق میں لگنے والے نعروں اور پوسٹرز کو بھی پاکستان کی سازش قرار دے کر اپنے عوام اور عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیری عوام ہر ظلم کے باوجود بھارتی تسلط کو مسترد کر چکے ہیں۔

پاکستان کے خلاف بھارتی سازشیں صرف بیانات تک محدود نہیں ہیں بلکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کے ذریعے بدامنی پھیلانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ پاکستان کی عسکری قیادت نے کور کمانڈرز کانفرنس میں واضح کر دیا ہے کہ ملک کے کسی بھی حصے میں دہشت گردی یا انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور دشمن عناصر کو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ یہ امر واضح ہے کہ بھارت افغان سرزمین کو استعمال کر کے پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے، جس پر پاکستان کئی بار افغان عبوری حکومت سے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے، مگر افغان حکومت اپنی ہی دھن میں مگن ہے، اسے پاکستان کے تحفظات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ افغان حکومت کو اس مسئلے پر سنجیدگی اختیار کرنا ہوگی اور پاکستان کے خلاف استعمال ہونے والی اپنی زمین پر قابو پانا ہوگا۔ یہ ان کی بھول ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ پینگ بڑھا کر پاکستان کو نقصان پہنچائیں گے یا نیچا دکھائیں گے۔ یہ ان کی خام خیالی بھی ہے اور ایک اسلامی حکومت ہونے کے ان کے دعوؤں کے بھی منافی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ غیر واضح وجوہات کی بنا پر پاکستان سے پالی گئی دشمنی میں افغان رہنما اس قدر جنونی ہوچکے ہیں کہ انہیں پاکستان سے اپنے دیرینہ روابط اور دینی رشتے کا بھی کوئی پاس و لحاظ ہے اور نہ ہی اپنے ملک اور خطے کی خوشحالی اور امن و ترقی کے تقاضوں کی کوئی پروا ہے۔

بھارت نے پاکستان میں رواں ماہ زیر انعقاد آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کو سبوتاژ کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی، تاکہ پاکستان کو غیر محفوظ ملک باور کرکے دنیا کو اس سے دور رکھ سکے، مگر وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہ ہو سکا۔ یہ تمام اقدامات بھارت کی اسی مایوسی اور بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتے ہیں جو اسے خطے میں سفارتی ناکامیوں اور تنہائی کی وجہ سے درپیش ہے۔ پاکستان کو ان حالات میں اپنی حکمت عملی مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ سفارتی محاذ پر بھارت کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنا ہوگا تاکہ دنیا اس کے اصل عزائم کو سمجھے۔ ساتھ ہی ملک کے اندر سیکورٹی اقدامات مزید سخت کرنا ہوں گے تاکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا جیسے علاقوں میں کسی بھی قسم کی بھارتی مداخلت کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔ پاکستان کی ترقی اور استحکام دشمن کو سب سے زیادہ پریشان کرتا ہے، اس لیے معاشی اور سماجی ترقی کے منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرنا ہوگا تاکہ بھارت کے پروپیگنڈا کا جواب عملی اقدامات سے دیا جا سکے۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بھی محتاط حکمت عملی اپنانی ہوگی اور چین، روس اور ایران جیسے علاقائی اتحادیوں کو ساتھ ملا کر بھارتی چالوں کو ناکام بنانے کیلئے سفارتی دباؤ بڑھانا ہوگا۔ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان تمام سازشوں کے باوجود پاکستان نے اپنی خودمختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ بھارتی قیادت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ الزام تراشیوں سے وہ پاکستان کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتی۔

پاکستان کے عوام اور عسکری قیادت مکمل یکجہتی کے ساتھ ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور بھارتی جارحیت کا ہر ممکن جواب دیا جائے گا۔ بھارت کو اپنی ناکام پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے اور خطے میں استحکام کے لیے تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے، بصورتِ دیگر اس کی جارحیت اور انتہا پسندانہ پالیسیاں خود اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گی۔ عسکری قیادت کا عزم واضح کرتا ہے کہ پاکستان کسی بھی لمحے اپنے دفاع اور قومی خود مختاری کے تحفظ کے تقاضوں اور ذمے داریوں سے غافل نہیں ہے۔

غزہ پر قبضے کی ٹرمپ کی خام خیالی
امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے غزہ پر طویل عرصے تک قبضہ رکھنے کے بیان نے بین الاقوامی برادری، خاص طور پر مسلم دنیا میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ یہ بیان نہ صرف غیر سنجیدہ اور غیرسفارتی ہے بلکہ عالمی قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف بھی ہے۔ وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے کہا کہ وہ غزہ کو طویل المدتی طور پر اسرائیل کے کنٹرول میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بیان درحقیقت استعماری سوچ کا عکاس ہے۔ ٹرمپ کا یہ طرزِ عمل محض ایک خود پسندانہ خیال ہی نہیں بلکہ فلسطینیوں کے تاریخی اور قانونی حقوق کو پامال کرنے کی ایک مذموم کوشش بھی ہے۔غزہ فلسطینی عوام کی سرزمین اور ابدی ملکیت ہے، انہیں وہاں سے بے دخل کرنے کی کوئی بھی کوشش ناقابلِ قبول ہے۔ ٹرمپ کے اس غیر سنجیدہ بیان پر مسلم دنیا نے سخت ردِعمل دیا ہے، خاص طور پر سعودی عرب نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات استوار نہیں کیے جائیں گے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ ٹرمپ فلسطینی عوام کو ان کے ہی علاقے سے بے دخل کرنے کی بات کر رہے ہیں اور اس کیلئے مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک بالخصوص اردن اور مصر پر دباؤ ڈال رہے ہیں لیکن مسلم دنیا اور عالمی برادری کو اس بات کو واضح کر دینا ہوگا کہ فلسطینیوں کے حقوق پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ ٹرمپ کے اس غیر سنجیدہ بیان کے بعد مسلم دنیا کو فوری طور پر واضح اور دو ٹوک موقف کے ساتھ سامنے آنا چاہیے اور ٹرمپ کے عزائم کو پورے اتحاد سے مسترد کردینا چاہیے۔