دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قومی وحدت ناگزیر

بلوچستان میں سیکورٹی فورسز نے کارروائیاں کرتے ہوئے 23 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا جبکہ مقابلے میں ایف سی کے 18 بہادر جوانوں نے جامِ شہادت بھی نوش کیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے کہا ہے کہ دشمن قوتوں کی ایما پر دہشت گردی کا مقصد بلوچستان کا پرامن ماحول خراب کرنا تھا، بزدلانہ فعل کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔ صدر اور وزیر اعظم نے دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ اپوزیشن رہنما عمر ایوب خان نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اپنی سیکورٹی فورسز کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ اپنے غیرملکی آقاؤں کے ایجنٹ بن کر دْہری پالیسیوں کی پیروی کرنے والوں سے آگاہ ہیں۔ دوست نما دشمن کچھ بھی کریں، ان کو شکست ضرور ملے گی۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ یہ لوگ جہاں کہیں بھی ہوں ان کا پیچھا کیا جائے گا۔
بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات نہ صرف ملک کی داخلی سلامتی کیلئے ایک بڑا چیلنج ہیں بلکہ اس طرح کے واقعات معاشی استحکام کے ساتھ عالمی سطح پر ملک کے تشخص اور امیج کو بھی شدید نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔ قلات میں رونما ہونے والے اس واقعے میں سیکورٹی فورسز نے بہادری سے 23 دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا، لیکن اس کارروائی میں 18 جوانوں کی شہادت نے اس جنگ کی سنگینی کو مزید واضح کر دیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد کس قدر منظم حملے کر رہے ہیں اور یہ بھی واضح ہے کہ ایسے منظم حملے کسی بیرونی طاقت کی حمایت اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ یہ واضح ہے کہ دشمن قوتیں پاکستان کے پرامن مستقبل کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں، لیکن ان کے مذموم عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے پوری قوم کو یکجان اور متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں پوری قوم کو یکسو اور متحد ہوئے بغیر فتح آسان نہیں اور یہ ایسی جنگ ہے جس میں کردار ادا کرنا صرف سیکورٹی فورسز نہیں، پوری قوم کا فرض ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ حکومت اور عوام تمام تر ذمے داری صرف اور صرف فورسز پر ڈال کر خود مطمئن بیٹھے رہیں۔ اس جنگ میں قوم اسی وقت سرخرو ہوسکتی ہے جب وہ حقیقی معنی میں ایک قوم بن کر پوری قوت کے ساتھ بروئے کار آئے اور قوم کا ہر طبقہ اور ہر فرد اپنی اپنی جگہ کردار ادا کرے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ملک میں بے امنی اور دہشت گردی کے تسلسل نے معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ پے در پے بے امنی کے واقعات کے نتیجے میں سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہو رہا ہے، غیرملکی سرمایہ کاری متاثر ہو رہی ہے اور عام شہری بھی عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ معیشت کے پھل پھولنے کیلئے پر امن ماحول بنیادی اہمیت رکھتا ہے، امن ہوگا تو کاروبار ہوگا اور کاروبار ہوگا تو معیشت ترقی کرے گی، خوف کے ماحول میں معیشت کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔ ملک میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں طویل جدوجہد کے بعد امن و امان کی صورتحال بہتر ہونا شروع ہوگئی تھی، جس کے باعث بیرونی سرمایہ کاری کے ساتھ مختلف کھیلوں کے بین الاقوامی ایونٹس بھی ہونا شروع ہوگئے تھے اور رواں ماہ تین ملکی کرکٹ سیریز کے ساتھ چیمپئنز ٹرافی جیسے عالمی کرکٹ ایونٹ بھی پاکستان میں ہونے جا رہا ہے۔ یہ محض کھیلوں کے ایونٹس نہیں، یہ کاروبار اور معیشت کے سرکل کا حصہ ہیں، ان ایونٹس کے کامیاب انعقاد سے جہاں عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت امیج اجاگر ہوسکتا ہے، وہاں اس سے بیرونی اور مقامی سرمایہ کاروں کے اعتماد بھی اضافہ ہوگا۔ اس لیے ایسیعالمی ایونٹس کو کامیاب کرنے کیلئے ملک میں امن و امان کو یقینی بنانا حد درجے ضروری ہے۔ اگر دہشت گردی کی حالیہ لہر کو قابو نہ کیا گیا تو نہ صرف کھیلوں کے عالمی ایونٹس متاثر ہوں گے بلکہ دنیا میں پاکستان کا تشخص بھی مزید خراب ہوگا۔ دہشت گردوں کیخلاف فورسز کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ صدر، وزیرِاعظم اور آرمی چیف کے بیانات نے واضح کر دیا ہے کہ ریاست کسی بھی صورت میں ان عناصر کو پنپنے نہیں دے گی جو غیر ملکی قوتوں کے آلہ کار بن کر ملک میں بدامنی پھیلانے کے درپے ہیں۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی ادارے اپنی چوکسی مزید بڑھائیں اور عوام بھی اس جنگ میں اداروں کا بھرپور ساتھ دیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوج یا دیگر سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ پوری قوم کی جنگ ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھنا ہوگا اور ہر اس سازش کو ناکام بنانا ہوگا جو ہمیں تقسیم کرنے کی کوشش کرے۔ میڈیا، سول سوسائٹی اور مذہبی و سیاسی قیادت کو بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے عوام میں دہشت گردی کیخلاف شعور بیدار کرنا ہوگا اور ایسی باتوں سے گریز کرنا ہوگا جس سے قومی یکجہتی اور اتحاد پارہ پارہ ہونے کا خدشہ ہو۔ قوم نے ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف ثابت قدمی اور بہادری کا مظاہرہ کیا ہے، ایک مرتبہ پھر ہمیں اسی حوصلے اور یکجہتی کا ثبوت دینا ہوگا۔ دشمن کو واضح پیغام دینا ہوگا کہ ہم متحد ہیں اور کسی بھی قیمت پر اپنے ملک کے امن، استحکام اور ترقی پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔
علاوہ ازیں دہشت گردی کیخلاف جاری جنگ کو مزید موثر بنانے کیلئے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا ہوگا۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کیخلاف مربوط حکمت عملی ہی کامیابی کی ضمانت بن سکتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نہ صرف اپنی کارروائیاں تیز کرنا ہوں گی بلکہ عوام کو بھی اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع دینا اور سماجی سطح پر دہشت گردوں کے بیانیے کو مسترد کرنا ہر شہری کا فرض ہے۔ پاکستان کو ایک پرامن اور مستحکم ملک بنانے کیلئے ہمیں قومی یکجہتی کو فروغ دینا ہوگا۔ سیاسی قیادت کو باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر دہشت گردی کیخلاف ایک مؤثر بیانیہ اختیار کرنا ہوگا تاکہ دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور یہاں کسی بھی قسم کی دہشت گردی کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم تمام تر اختلافات بھلا کر ایک صف میں کھڑے ہو جائیں اور دشمن کو واضح پیغام دیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم سب ایک ہیں۔ ہماری بہادر افواج نے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور ان قربانیوں کا تقاضا یہی ہے کہ قوم یکجا ہو کر دہشت گردی کے ناسور کے مکمل خاتمے کے لیے کوشاں رہے۔