سیاسی ہلچل میں تیزی(عرفان احمد عمرانی)

موسم سرما کے جاتے جاتے ملک کی سیاست کا درجہ حرارت بھی گرم ہونے لگا ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات راستے میں ہی بھٹک گئے، سیاسی ہلچل تیز ہو گئی، حکومت نے جو ڈیشنل کمیشن نہیں بنایا تو پی ٹی آئی مشتعل ہو گئی اور مذاکراتی کمیٹی ہی تحلیل کر دی۔

28جنوری بغیر کسی اجلاس کے گزر گئی۔ فروری کے اوائل میں کوئی بیٹھک نظر نہیں آرہی، البتہ بتایا جا رہا ہے کہ بیک ڈور کوششیں جاری ہیں۔ حکومت سے مذاکرات کے سلسلے میں پی ٹی آئی کے اندر شدید اختلافات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پانی پی ٹی آئی نے کے پی کی کے حکومت کے اپنے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا امین گنڈاپور کو پارٹی کی صدارت سے ہٹا دیا، اب ان کی وزارت اعلیٰ سے بھی چھٹی ہو جانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بیرسٹر گوہر مذاکرات چاہتے ہیں جبکہ دیگر کچھ مرکزی رہنما بات چیت ہرگز نہیں چاہتے۔ تحریک چلانے کے لیے مولانا فضل الرحمن کو ایک بار پھر اپنا ”امام” بنانے کے لیے پی ٹی آئی تیار ہے۔ انہیں گرینڈ اپوزیشن الائنس میں شمولیت کی بھی دعوت دی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ مولانا ”امامت” شروع کرنے سے پہلے ”صف بندی” کا ضرور جائزہ لیں گے۔ وہ زیرک سیاست دان ہیں، پی ٹی آئی کے لیے اپنی سیاست قربان نہیں کرنا چاہیں گے۔ ویسے بھی آگے رمضان آ رہا ہے، وقت اور موسم بھی کسی سیاسی تحریک کے لیے سازگار نہیں۔
پی ٹی آئی نے حکومت سے مذاکرات ختم تو کر دیے مگر بظاہر اس کے پاس میدان مین آنے کی تیاری بھی نہیں ہے۔ اسے اپنی صف بندی کرنے اور ملک گیر تحریک شروع کرنے کی مہم جوئی کے لیے وقت درکار ہوگا۔ اس مہم جوئی سے برآمد ہونے والا نتیجہ مذاکرات کے لیے واپس میز پر لانے کے بارے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ یہ سیاسی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے بیشتر رہنما بلکہ شاید اس کے بانی بھی مذاکرات کی افادیت کے قائل ہیں، کیونکہ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ڈائیلاگ کے بغیر بانی پی ٹی آئی کی رہائی ممکن نہیں۔ لیکن ڈائیلاگ کے لیے بہتر پوزیشن میں آنے کے لیے بھی کچھ پلٹ جھپٹ ضروری ہے۔ اسی کے لیے پی ٹی آئی نے پنجاب کے راستے بند کرنے کی بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے، 8فروری کو مینار پاکستان لاہور میں جلسے کا اعلان کیا ہے۔
تحریک انصاف کا 8فروری کو یوم سیاہ اور ملک گیر احتجاجی تحریک اسکی بد روایت کے عین مطابق ہے کہ جب بھی کوئی غیر ملکی اہم شخصیت پاکستان آ رہی ہوتی ہے ایسے موقع پر پی ٹی آئی کا افراتفری اور عدم استحکام لازماً پیدا کرنے کا منصوبہ ہوتا ہے۔ 8فروری کے دو روز بعد برادر ملک ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان پاکستان کے تین روزہ دورے پر آرہے ہیں۔ اس سے اگلے ہفتے میں ملک میں چیمپینز ٹرافی کرکٹ ٹورنامنٹ بھی شروع ہونا ہے۔ تحریک انصاف نے حکومت اور حزب اختلاف کے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لئے ڈیڈ لائن سے پہلے ہی اس عمل سے دستکش ہو نے کا اعلان یکطرفہ طور پر کیا تھا تاکہ وہ پورے انہماک سے ملک میں امن عامہ اور استحکام کے لیے مسائل پیدا کرسکے۔ تحریک انصاف نے جنوری کا مہینہ مذاکرات کا ”شغل” لگا کر گزاراتاکہ اس دوران وہ خبروں اور سرخیوں میں رہ سکے۔ اسے توقع تھی کہ واشنگٹن میں اقتدار کے ہاتھوں کی تبدیلی کے سا تھ ہی پاکستان کی انتظامیہ پر ایسا دبائو آئے گا کہ وہ تحریک انصاف کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہوجائے گی یہ امید کبھی پوری نہیں ہوگی۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول ایک بار پھر حکومت کے خلاف کھل کر سامنے آگئے اور اسلام آباد کے فیصلوں پر نالاں ہیں، کہتے ہیں کہ ہم سے مشورے کے بغیر فیصلے کیا جاتے ہیں کراچی کے تاجر رہنما کی بات نے بلاول کو مشتعل کر دیا، کہا کہ کسی کو کوئی مسئلہ ہے تو مجھ سے بات کریں، مزید کہا کہ ہم دودھ کے دھلے نہیں مگر اپنے آپ کو پھر بھی اچھا قرار دے دیا، انہوں نے کراچی سے بھتہ کے خاتمے کا دعویٰ کیا جبکہ حقیقت اب بھی اس کے برعکس ہے تاجروں صنعت کاروں کو پرچیاں بھی مل رہی ہیں، کراچی کے ایک تاجر رہنما نے مذاق میں وزیر حسن اقبال کو سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد شاہ لینے اور پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز دینے کی بات کی تھی، انہیں یہ مذاق مہنگا پڑ گیا، حالانکہ انہوں نے اگلے روز ٹی وی پر آ کر مذاق کی وضاحت بھی کر دی اور ساتھ ہی مریم نواز پر بھی اعتراض کیا کہ انہوں نے پنجاب میں کون سے جھنڈے گاڑھ رکھے ہیں۔ اس کے باوجود بلاول زیادہ ہی برا منا گئے، اور شہباز حکومت کو آڑے ہاتھوں لے لیا، پیپلز پارٹی پنجاب سے پہلے ہی خفا ہے، دولت مشترکہ اجلاس نہ ہو نے سمیت دیگر معاملات پر ن لیگ سے ناراض ہے۔ گورنر پنجاب بھی مریم نواز کے خلاف محاذ بنا کر آئے روز بیان بازی میں مصروف ہیں، البتہ پی پی کے صوبائی رہنما خاموش ہیں۔ اس کے ارکان پنجاب اسمبلی میں کبھی کوئی احتجاج کرتا نظر نہیں آ رہا، کیونکہ انہیں صوبائی حکومت کی طرف سے ترقیاتی فنڈز بھی مل رہے ہیں، گورنر کی کوئی دال نہیں گل ر رہی تو وہ سیخ پا ہیں اور بلاول کو بھڑکانے کا کام کر رہے ہیں۔ یہ بات پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔