تحریر: قاری محمد سلمان عثمانی
شعبان وہ قابل قدر مہینہ ہے جس کی نسبت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف فرمائی اور اس میں خیرو برکت کی دعا فرمائی، چونکہ شعبان کا مہینہ رمضان کا مقدمہ ہے، جیسا کہ شوال کا مہینہ رمضان کا تتمہ ،اسی وجہ سے اس مہینے کو خاص فضیلت حاصل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’شعبان کے چاند کا شماررکھو، رمضان کے لیے‘‘(سنن ترمذی)یعنی جب ماہ شعبان کی تاریخ صحیح ہو گی تورمضان میں غلطی نہیں ہوگی، چنانچہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ کسی ماہ (کے چاند) کا اتنا خیال نہ فرماتے تھے‘‘(سنن ابودائود)خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے، اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شعبان میرا مہینہ ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ماہ رجب کے آغاز پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے ’’اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمارے لیے برکت پیدا فرما اور (خیر و عافیت کے ساتھ) ہمیں رمضان تک پہنچا‘‘(ابن عساکر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شعبان کی عظمت اور بزرگی دوسرے مہینوں پر اسی طرح ہے جس طرح مجھے تمام انبیاء علیہم السلام پر عظمت اور فضیلت حاصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:شعبان کا مہینہ آئے تو اپنے نفس کو رمضان کے لیے پاک کرلو۔فرمایا کہ تمام مہینوں میں شعبان کی فضیلت ایسی ہے،جیسے میری فضیلت تم لوگوں پر۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے شعبان میرامہینہ ہے،رجب اللہ کا اوررمضان میری امت کامہینہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:شعبان گناہوںکومٹانے والا اوررمضان المبارک پاک کرنے والا مہینہ ہے۔چنانچہ ماہ شعبان کی فضیلت کااندازہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے لگایا جاسکتا ہے،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’تمام مہینوں میں شعبان کی فضیلت ایسی ہے،جیسی میری فضیلت تمام لوگوںپر ہے‘‘حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:شعبان کوشعبان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ماہ رمضان کے لیے اس سے خیرکثیر پھوٹ کرنکلتی ہے۔
شعبان محبوب رب جلیل کامہینہ ہے،اس میںفضیلتیںتوہوںگی۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کی ایک شب کو’’شب برأت‘‘ قرار دیا اور گناہوںسے چھٹکارے کی رات کے ساتھ اس شب کو نزول عطائے رب بھی بنا دیا۔رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نصف شعبان (15 شعبان المعظم) کی رات اپنی تمام مخلوق کی طرف توجہ خاص فرماتا ہے،مگراس شب رحمت باری تعالیٰ ان لوگوں کی طرف متوجہ نہ ہو گی جوشرک کرتے ہوں گے۔بے رحم اورشرابی ہوںگے۔والدین کے نافرمان ہوں گے،سوائے ان لوگوںکے سب پر بخشش و عطاء عام ہوگی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزے (کبھی) مسلسل رکھنے شروع کرتے، یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ اب ناغہ نہیں کریں گے اور (کبھی) بغیر روزے کے مسلسل دن گزارتے، یہاں تک کہ ہمیں خیال ہونے لگتا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلا روزہ ہی رہیں گے۔ نیز فرماتی ہیں کہ میں نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا پورا روزہ رکھتے نہیں دیکھا،اسی طرح کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (مشکوٰۃ:178)
احادیث کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ نفلی روزوں کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی لگا بندھا دستور ومعمول نہیں تھا، کبھی مسلسل روزے رکھتے تو کبھی ناغہ کرتے،تاکہ امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں زحمت، مشقت اور تنگی نہ ہو، وسعت وسہولت کا راستہ کھلا رہے، ہر ایک اپنی ہمت، صحت اور نجی حالات کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرسکے، اسی لیے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایامِ بیض (13.14.15 تاریخوں) کے روزے رکھتے، کبھی مہینے کے شروع میں ہی تین روزے رکھتے، کسی مہینے میں ہفتہ، اتوار اور پیر کے روزے رکھتے تو دوسرے مہینے میں منگل، بدھ اور جمعرات کے روزے رکھتے، کبھی جمعہ کے روزے کا اہتمام کرتے، اسی طرح عاشورہ اور شوال کے چھ روزے رکھنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
ہر دانش مند مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مبارک مہینے میں غافل نہ رہے بلکہ ماہ رمضان کی تیاری شروع کردے،گزشتہ اعمال سے توبہ کرکے گناہوں سے پاک ہوجائے،اسی ماہ میں اللہ کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرے تاکہ دل کی خرابیاں دور ہوجائیں اور دل کی بیماری کا علاج ہوجائے۔اس سلسلہ میں تاخیر ولیت ولعل سے کام نہ لے،یہ نہ کہے کہ کل کرلوں گااس لیے کہ دن تو صرف تین ہیں،ایک کل جو گزر گیا،ایک آج جوعمل کادن ہے اور ایک آنے والاکل جس کے آنے کی امید ہے یقین سے کہانہیں جاسکتاکہ وہ اس کے لیے آئے گایانہیں۔اسی طرح مہینے تین ہیں،رجب توگزر گیاوہ لوٹ کر نہیں آئے گا،ماہ رمضان کا انتظار ہے معلوم نہیں کہ اس مہینے تک زندہ رہے یانہ رہے۔بس شعبا ن ہی ان دونوں کے درمیان ہے اس لیے اس میں طاعت وبندگی کوغنیمت سمجھنا چاہیے۔