فلسطینی مزاحمتی تنظیموں اور اسرائیل کے مابین قیدیوں کے تبادلے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک جانب سے حماس اور دیگر تنظیموں کی قید میں موجود اسرائیل یا اس سے متعلق دیگر باشندوں کو ریڈ کراس کے حوالے کیاجا رہاہے تو دوسری جانب سینکڑوں کی تعداد میں فلسطینی شہری بھی آزادی پار ہے ہیں۔ غزہ اور مقبوضہ فلسطین کے دیگر علاقوں میں جشن کا سماں ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے سنگم پر واقع غزہ کے نیم صحرائی اور ساحلی خطے میں بسنے والے سخت کوش اور مضبوط اعصاب والے باشندوں نے اس وقت دنیا کو واقعی حیرت میں ڈال رکھاہے۔ قیدیوں کے تبادلے کے جو مناظر کیمرے کی آنکھ سے دنیا دیکھ رہی ہے، وہ اس قدرپُر اثر ہیں کہ پندرہ ماہ تک فلسطینی بچوں، عورتوں اور نہتے شہریوں پر آتش و آہن برسانے والے عالمی مجرم نیتن یا ہو کے اوسان خطا ہوگئے ہیں اور اطلاعات یہ ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے مطالبہ کیا جارہاہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے ایسے مناظر اسکرین پر نہ دکھائے جائیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ غاصب افواج کو ایک مرتبہ پھر حرکت میں لانے کا جواز تلاش کیاجارہاہے۔
خوشی کے ان مناظر کے درمیان حماس کے ترجمان ابوعبیدہ کی جانب سے القسام بریگیڈ کے سربراہ ابو خالد محمد الضیف اور ان کے نائب عیسی مروان سمیت اہم کمانڈروں کی شہادت کا اعلان کیا گیاہے۔ محمد الضیف کی شہادت بلاشبہ اہلِ غزہ اور ان سے محبت رکھنے والے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک سانحہ ہے لیکن حریت کی راہ کے مسافروں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس مردِ قلندر نے اپنی جدوجہد کے ذریعے خود داری، مزاحمت، انسانی شرافت اور عزم و ہمت کی ایک ایسی داستان رقم کردی ہے جو عظمتِ رفتہ کی یادگار بن کر تادیر تروتازہ رہے گی اور مسلم نوجوانوں کو غلامی سے نجات کا سبق یاد دلاتی رہے گی۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے تو محمد الضیف کی شہادت پر اس کے پاس مسرت کے شادیانے بجانے کا وقت نہیں کیوں کہ ایڑی چوٹی کا زور لگانے، دنیا بھر کی لعنت و ملامت اٹھانے، تہذیبِ مغرب کے منقش چہر ے پر موجود نقاب کو اتاردینے اور مستحکم معیشت کوکھوکھلا کروادینے کے باوجود وہ اپنے قیدیوں کو قوت کے بل پر رہا نہیں کرواسکا۔ اسرائیل کو امریکا کی پشت پناہی کے ساتھ ہی قیدیوں کے تبادلے اس اسٹیج پر گھٹنوں کے بل آنا ہی پڑا۔ قیدیوں کے تبادلے کے موقع پر اسرائیلی فوج سے چھینی گئی بندوق کی موجودی اس بات کا اشارہ ہے کہ حریت پسندوں نے یہ فتح جنگ کے ذریعے حاصل کی ہے اور اگر اسرائیل نے عہد شکنی کرتے ہوئے دوبارہ جنگ مسلط کی تو مجاہدین اگلی جنگ کے لیے بھی نہ صرف تیار ہیں بلکہ وہ اسرائیل کا اسلحہ اسی کے خلاف استعمال کرنے پرقدرت بھی رکھتے ہیں۔
یہ مناظر صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ امریکا کیلئے بھی ایک چیلنج ہیں کیوں کہ امریکی حکمران طبقہ اس جنگ میں اسرائیل کا کھل کر ساتھ دیتا رہاہے۔ امریکا نے اسرائیل کوہر قسم کا اسلحہ فراہم کیا۔ اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر اس کی مسلسل حمایت اور پشت پناہی کی۔ عرب ممالک کو دھمکاتا رہااور ایران کو عبرت ناک انجام سے ڈراتا رہا۔ جنگ کے پندرہ ماہ میں کوئی دن ایسا نہیں آیا جب امریکا یا مغربی ممالک نے اسرائیل کی علانیہ یا پوشیدہ حمایت اور پشت پناہی پر نظر ثانی کی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیاہو۔ غزہ کے غریب و نادار لوگوں پر اس قدر بارود برسایا گیا جو کہ افغانستان کی بیس برس جنگ میں نہ آزمایا گیاہوگا۔ اس تمام سفاکی اور شیطنت کا واحد مقصد یہ تھا کہ اہلِ غزہ اپنے نظریے سے باز آجائیں اور عالمی طاقتوں کی شرائط کے سامنے سر جھکا دیں لیکن آفرین ہے ان سخت جان و سخت کوش لوگوں پر جنھوں نے نظریے کو جان و مال پر ترجیح دی اور پندرہ ماہ تک ہر قسم کے مصائب، تکالیف اور درد کو برداشت کرکے ثابت کردیاکہ اہلِ ایمان نظریے اور عقیدے کو قربان نہیں کرسکتے۔ جنگ کے دردناک مناظر کے بعداہلِ غزہ کی خوشی دراصل اپنے نظریے، عزم وثبات اور قربانیوں کی جیت پر حاصل ہونے والی مسرت کااظہار ہے جو کسی بھی صورت ظالم و غاصب اسرائیل اور اس کی سفاک اور شرفِ انسانی سے محروم افواج کو میسر نہیں ہوسکتی۔ اسرائیل کو اس جنگ میں گہرے زخم آئے ہیں۔
غاصب فوج کا حوصلہ پست دکھائی دے رہاہے۔ جنگ کے اختتام پر اسرائیل میں سیاسی طورپر زبر دست افراتفری کی کیفیت رونما ہوسکتی ہے۔ عرب ممالک کو جنگوں میں شکست دینے کے بعد پہلی مرتبہ یہ منظر دکھائی دے رہاہے کہ اردن، مصراور عرب لیگ امریکا اور اسرائیل کے مشترکہ دباؤ کو مسترد کرکے فلسطینیوں کے حق میں متحد دکھائی دیے ہیں اور انھوںنے اہلِ غزہ کے جبری انخلا کو یکسر مسترد کردیاہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اہلِ غزہ کے جبری انخلا کا منصوبہ اونٹ کی کمر پر وہ آخری تنکا ہے جو عرب ممالک کو کھیل میں اپنی پوزیشن تبدیل کرنے پر مجبور کردے گا۔
عرب ممالک کی جانب سے امریکی دباؤ کو یکسر مسترد کردینا امتِ مسلمہ کے لیے بھی شاید حیرت انگیز ہو کیوں کہ اسے گزشتہ ستر برسوں سے یہ ممالک مغربی طاقتوں کے سامنے حالتِ رکوع ہی میں دکھائی دیے ہیںلیکن امرِ واقع یہ ہے کہ فلسطینیوں کی مزاحمت نے بارہا عرب ملکوں کو اجتماعی خطرے کے مقابلے میں متحد ہونے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ آج مسلم امہ میں اسرائیل کی ہزیمت اور ذلت پر جو خوشیاں منائی جارہی ہیں دراصل یہ ان شہدا اور غازیوں کی جدو جہد کا ثمر ہے جنھوں نے کسی بھی حالت میں صہیونیوں کے جبر کے سامنے سر نہیں جھکایا اور اس نظریے پر قائم رہے کہ فلسطین کی سرزمین پرو ہ کسی غاصب کا قبضہ قبول نہیں کریں گے۔ فلسطینیوں کی آزادی کا سورج ابھی طلوع نہیں ہوا لیکن فتح کے کھلے ہوئے پھولوں سے شہدا کے لہو کی اٹھتی مہک آنے والی صبح کی نوید بن چکی ہے۔ ابو خالد محمد الضیف اور ان کے رفقا کی جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی شہدا کو دیکھ کر کہا تھا :
دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکبِ غُنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتاہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خونِ شہدا کی لالی
رنگ گردُوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی اُفق تابی ہے
