شیخ حسینہ کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد حالیہ دنوں میں پاکستان اور بنگلادیش کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے اور سفارتی سطح پر بہت سی پیش رفت ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات میں تیزی سے قربت بڑھ رہی ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں کی دیواریں منہدم ہونا شروع ہوگئی ہیں اور ملکی تجارت میں ایک بہترین اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ حال ہی میں 1971میں بنگلادیش کے قیام کے بعد پہلی بار پاکستان کا بنگلادیش کے ساتھ سمندری رابطہ بحال ہوا جب ایک پاکستانی مال بردار جہاز کراچی سے بنگلادیش کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع چٹاگانگ کی بندرگاہ پر پہنچا۔ اس سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان بحری تجارت سنگاپور یا کولمبو کے ذریعے ہوا کرتی تھی۔
اب بنگلادیش نے پاکستانی طلبہ کو ڈھاکا یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی بنگلادیشی شہریوں اور طلبہ کیلئے ویزا حاصل کرنے کے عمل کو خاصا آسان بنا دیا ہے اور بنگلادیشی طلبہ کو پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں داخلے کیلئے بہترین سہولتوں کا اعلان کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ ڈھاکا یونیورسٹی نے بنگلادیش کی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ بنگلادیش میں حکومتوں کے خلاف احتجاج کی آواز بھی اسی یونیورسٹی سے اٹھی ہے۔ اس سال جولائی، اگست میں شیخ حسینہ کے خلاف تحریک کا آغاز بھی ڈھاکا یونیورسٹی سے ہوا۔
مودی سرکار بنگلادیش میں بری طرح ناکامی کے بعد شب وروز مختلف قسم کے پروپیگنڈا پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہے جس میں اس نے بنگلادیش کی عبوری حکومت پر اقلیتوں خصوصاً ہندوؤں پر حملے کروانے اور اسلامی انتہاپسندوں کی حمایت کرنے کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنی انتخابی مہم میں بھارتی ہندو ووٹرز کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ بنگلادیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے18نومبر کو بھارتی انگریزی اخبار ”دی ہندو” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہندوؤں پر حملے سے متعلق سوالات کو پروپیگنڈا قرار دیا۔ محمد یونس نے کہا کہ ”ٹرمپ کے پاس بنگلادیش اور اس کی اقلیتوں کے بارے میں مناسب معلومات نہیں ہیں لیکن جب ٹرمپ کو حقیقت کا علم ہوگا تو وہ بھی حیران رہ جائیں گے۔ میں یہ نہیں مانتا کہ امریکا میں نئے صدر کے آنے سے سب کچھ بدل جائے گا۔ اگر امریکا میں اقتدار میں تبدیلی ہوئی ہے تو بنگلادیش میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں آپ کو تھوڑا انتظار کرنا چاہیے۔ ہماری معیشت درست راستے پر ہے اور امریکا اس میں بہت دلچسپی لے گا۔” بعد ازاں تحقیقات کے بعد یہ پروپیگنڈا بھی بے نقاب ہوگیا کہ دراصل مندر کے ساتھ عوامی لیگ کا دفتر تھا جہاں سے مظاہرین کے ہجوم پر پتھراؤکیا گیا جس کے جواب میں مشتعل ہجوم نے جوابی طورپر پتھر برسائے جس کو مندر پر حملہ قرار دے کر جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا۔
پاکستان میں بنگلادیش کی نئی حکومت کا مؤقف مثبت طورپر لیا جا رہا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ شیخ حسینہ کا اقتدار سے باہر ہونا پاکستان کیلئے ایک اچھا موقع ہے۔ انڈیا شیخ حسینہ کے اقتدار سے باہر ہونے پر خوش نہیں ہے۔ انڈین لابی امریکا میں بنگلادیش کے خلاف فعال ہوگئی ہے۔ یہ لابی ٹرمپ انتظامیہ کو بنگلادیش پر پابندیاں عائد کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بنگلادیش سے برآمد ہونے والے زیادہ تر گارمنٹس امریکا کو بھیجے جاتے ہیں۔ ٹرمپ نے ٹیرف عائد کرنے کی وکالت کی ہے۔ اگر ٹرمپ ٹیرف لگاتے ہیں تو بنگلادیش کو بہت نقصان ہوگا”۔
بنگلادیش اور پاکستان کے درمیان سمندری روابط کا آغاز ایک خوشگوار معاشی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ یہ پہلاموقع ہے کہ ایک پاکستانی کارگو جہاز براہ راست چٹاگانگ پہنچا ہے۔ اس سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان جتنی بھی تجارت ہوتی تھی وہ سنگاپور اور سری لنکا کے ذریعے کی جاتی تھی۔ اس سے انڈیا میں ہلچل اور ماتم کا سماں ہے۔ بنگلادیش کی قیادت اب بہت کھلے ذہن کی حامل ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ انڈیا کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے خلاف ہیں لیکن انہوں نے اپنے مواقع کھلے رکھے ہیں اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کیوں نہ بڑھائے جائیں۔ اب اگلا قدم یہ ہوگا کہ تجارتی اور صنعتی دنیا کی تنظیمیں بھی ایک دوسرے کے دورے کریں گی اور ممکن ہے کہ اگلے سال تک دونوں ممالک کے درمیان خارجہ سیکرٹریز کی سطح پر بات چیت شروع ہو جائے۔
ادھر پہلی مرتبہ 14جنوری 2025کو بنگلادیش کے آرمڈ فورسز ڈویژن کے پرنسپل اسٹاف آفیسر لیفٹننٹ جنرل ایس ایم قمر الاسلام نے جی ایچ کیو راولپنڈی میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے دوران خطے کے بدلتے سکیورٹی حرکیات پر مفصل بات چیت کی اور دونوں ممالک کے درمیان مزید فوجی تعاون کی راہیں نکالنے پر غور کیا اور مضبوط دفاعی تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے دونوں برادر ممالک کے درمیان شراکت داری اور تعاون بیرونی اثرات سے بالاتر ہونے کی یقین دہانی کروائی۔
دوسری طرف سری لنکا نے بہادری کے ساتھ انڈیا کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اپنی خودمختاری کو قائم رکھتے ہوئے پاکستان اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو اک نئی جہت دی ہے۔ یاد رہے کہ سری لنکا جو برسوں سے انڈیا کی پراکسی ”تامل دہشت گردوں” کی بناء پر خانہ جنگی جیسی مشکلات میں مبتلا تھا، پاکستانی کمانڈوز کی خصوصی مدد سے سری لنکا کو اس مصیبت سے مکمل نجات ملی ہے جس کی بنا پر ہر شعبے میں دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی خوشگوار اور دوستانہ ہیں اور اب بنگلادیش میں آنے والی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے انڈیا پر یہ خوف طاری ہے کہ نیپال، بھوٹان، مالدیپ اور میانمار کے چین اور پاکستان سے بڑھتے ہوئے تعلقات مہابھارت کا خواب چکنا چور کرنے کیلئے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا پھر سے افغان طالبان اور ایران کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ان حالات سے اپنے ہمسایہ ملک چین کے ساتھ سر جوڑ کر مکمل طور پر استفادہ کرنے کیلئے کوشاں ہے؟
