اسرائیل حماس جنگ بندی۔ خلاصہ(رضی الدین سید)

حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے سے متعلق میڈیارپورٹوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ:
1۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس کے لیے اسرائیل اور امریکا پر عالمی اور عوامی دباؤ بہت بڑھتا جا رہا تھا بشمول اقوام متحدہ۔
2۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس کے لیے بائیڈن اور ٹرمپ بھی بہت بے چین تھے۔
3۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس میں صدر بائیڈن اپنی عام رفتار سے پیش قدمی کر رہے تھے جبکہ ٹرمپ فوری نتیجہ نکالنا چاہتے تھے۔
4۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس میں صدر ٹرمپ چاہتے تھے کہ ان کی حلف برداری سے پہلے پہلے ہی معاہدہ طے پا جائے۔
5۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس میں حماس اپنے مطالبوں پر پوری استقامت کے ساتھ ڈٹی رہی، اگرچہ اس کی پوزیشن بہت کمزور تھی۔
6۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس میں کبھی لگتا تھا کہ معاملات مکمل طور پر طے پا گئے ہیں اور کبھی محسوس ہوتا تھا جیسے یہ معاہدہ کبھی انجام تک نہیں پہنچ سکے گا۔ درمیان میں جانبین کی جانب سے یکایک ایسی شرائط آ جاتی تھیں کہ معاہدہ طے پاتے پاتے بھی دور ہو جاتا تھا۔
7۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس کی شقوں پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ حماس نے اپنے تمام مطالبات اسرائیل اور امریکا سے بخوبی منوا لیے ہیں۔
8۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس سے اسرائیل کا رعب اور دھاک دنیا بھر میں نہ صرف تار تار ہوئے بلکہ پورا مغرب بھی اس کا مخالف بن گیا۔ صہیون مخالفت اب وہاں دوبارہ عروج پر ہے۔ اس کی واحد وجہ اسرائیلی مظالم اور فلسطینیوں کی پائیدار استقامت رہی۔
9۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس کے تحت حماس، فلسطین اور اسلام نے عالمی سربلندی حاصل کی۔
یاد رکھنا چاہیے کہ نتن یاہو پر ملک میں کرپشن اور بدعنوانی وغیرہ کے سنگین الزامات عائد ہیں اور ایک کمیشن کے تحت اس پر مقدمے چل رہے ہیں۔ اسی لیے عالمی تجزیہ کار اس تمام عرصے کے دوران مسلسل تجزیہ کرتے رہے کہ مقدمے اور سزا کے خوف ہی سے نیتن یاہو جنگ کو طویل سے طویل تر کرتا جا رہا ہے۔ حقائق یہی ہیں جو غیر ملکی میڈیا، بی بی سی، اور دیگر تجزیہ کاروں کی زبان سے سامنے آئے ہیں اور جن کے نمائندوں نے وہاں حماس، اسرائیل اور قطر کے نمائندوں سے براہ راست معلومات حاصل کی ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرے گا، معاہدے کے مزید فوائد سامنے آتے رہیں گے۔ تب بالکل دو ٹوک طور پر دنیا کے سامنے آئے گا کہ حق و باطل کی اس جنگ میں اصل میں جیتا کون؟ اور ہارا کون؟
تجزیہ تو یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ قرون اولیٰ میں بھی بعض مرتبہ مسلمان شکست سے دوچار ہوئے اور کبھی شکست سے بال بال بھی بچے، مگر بازی تو بہرحال الٹ ہی دی۔ تب ہم نے دنیا کی ایک نئی تاریخ لکھی تھی۔ وہ جس سے دنیا پہلے آشنا نہیں تھی۔ حماس کے پاس کوئی راستہ بچا بھی نہیں تھا۔ فلسطین کے لوگ 1948ہی سے پٹتے اور مرتے چلے آ رہے تھے اور ایک کے بعد ان کی دوسری بستی قبضے میں لی جاتی رہی تھی۔ تو بیلنس شیٹ بیچارے یہ خالی ہاتھ والے کیا بناتے؟ بیلنس شیٹ تو اب واشنگٹن اور تل ابیب جیسی طاقتوں کو بنانی پڑے گی۔ سو اگر آئندہ بھی اس نے ایسی نسل کشی کی تو وہ وقت اسرائیل کی اپنی شکست و ریخت کا ہوگا۔
جنگ نے اسرائیل کو کیا دیا؟ یہ سوال وہاں اٹھ کھڑا ہوا تھا کیونکہ نہ غزہ حماس کے قبضے سے نکل سکا اور نہ اسرائیل عام فلسطینیوں کے حوصلے پست کر سکا۔ کہتے ہیں کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا اور کہتے ہیں کہ زلزلے کے بعد آفٹر شاکس آیا کرتے ہیں۔ تو صہیونیوں کو اس جنگ کے بعد کے آفٹر شاکس اب محسوس ہوں گے۔ میزانیہ تو اب صیہونیوں ہی کو بنانا پڑے گا۔ جو فقیر اور لامکاں ہوں، وہ میزانیہ کیا بنائیں گے؟ اقبال نے انہی بے حیثیت مسلمانوں کے بارے میں کہا تھا کہ لڑادے ممولے کو شہباز سے! ہماری تو تاریخ ہی فقر سے امارت پیدا کرنے کی رہی ہے۔ فتح و شکست کی نیت سے تو مومن لڑتا ہی نہیں ہے
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
وہ تو صرف جذبہ شہادت کے تحت لڑتا ہے۔ اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں! چار چھ ماہ بعد ہی اس جنگ کے مابعد پہلو ہویدا ہوں گے۔ یہ قربانیاں، یہ اولوالعزمی، یہ صابروا، یہ رابطوا، یہ استقلال اور یہ لازوال شہادتیںخدا کی قسم دنیا کو بہت کچھ دے کے جائیں گی۔ جنگ کے دوران ہی راقم نے اصرار کے ساتھ کہا تھا کہ نتن یاہو ہی اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن ثابت ہوگا جو بالآخر اسے تباہ کرکے ہی چھوڑے گا۔ اسرائیل کی حیثیت اب ایک عالمی مطلوب مجرم کی ہوگئی ہے جس کے تئیں برطانیہ نے بھی اقوام متحدہ کو یقین دلایا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم اگر یوکے آیا تو وہ اسے ضرور گرفتار کرے گا۔
غزہ کا بالکل کھنڈر ہو جانا، 46000سے زائد فلسطینیوں کا اسرائیل کے ہاتھوں شہید ہوجانا اور بھوک، سردی، معمولی خیموں میں زندگی، ادویہ اور خوراک پر مکمل طویل پابندی اور اہل غزہ کی ناقابل یقین بلند ہمتی، یہ وہ چند موٹے موٹے عناصر ہیں جنہوں نے نتن یاہو اور صہیونیت کو تقریباً متفقہ طور پر عالمی درندہ ثابت کیا ہے۔ اسی وجہ سے یہ بات اتنی یقینی نظر نہیں آتی کہ مستقبل میں نتن یاہو ایک بار پھر جنگ کا خطرہ مول لے گا۔ یوں بھی بنیادی طور پر دشمن تو اس کے سامنے پھر بھی وہی ناقابل شکست حماس ہوگی۔ اسی لئے اگر آج تین چار ممالک ہی اسرائیل کے خلاف مضبوطی سے کھڑے ہیں تو مزید نسل کشی اور مزید ہولوکاسٹ ہونے پر کئی اور مغربی ممالک بھی اس کے خلاف صف آرا ہوسکتے ہیں جن میں امریکا خود بھی شامل ہے۔
یہ حقیقت بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ خود اسرائیلی باشندے باوجود فلسطینیوں کو کچل دینے کی شدید خواہش کے پھیلتی چلی جاتی جنگ سے بہت عاجز آچکے تھے اور نتن یاہو پر انہوں نے اس قدر دبائو بڑھا یا تھا کہ وہ خود بھی ششدر رہ گیا تھا، وہ صرف بیرونی دنیا ہی سے دبائو میں نہیں تھا بلکہ اندرونی طور پر بھی شدید دبائو کی زد میں تھا، چنانچہ خواہی نخواہی اسے اس جاری جنگ کو بالآخر بند کرنا ہی تھا۔ جنگ پھر جنگ ہے جس کے شدید انسانی اثرات ہوتے ہیں۔ ایران، لبنان، اور حماس، تینوں جانب سے دن رات، سائرن کی آوازیں اور راکٹوں کا خوف، شہریوں کو بیٹھے بٹھائے ہی نفسیاتی طور پر کمزور کردیتا ہے۔ پھر اگر جنگ پھیلتی ہی چلی جائے تو ان کے شدید اثرات کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
دہشت گرد ریاست دنیا بھر میں جہاں اخلاقی طور پر عیاں ہوئی ہے وہیں اس کی افسانوی دھاک اور رعب بھی ہوا میں تحلیل ہوئے ہیں جو اپنی جگہ پر یہ ایک الگ کامیابی ہے۔ جنگ بندی کے بعد اسرائیل کی بعض بڑی بڑی شخصیات کے استعفے بھی اندرونی ہلچل اور کمزوریوں کو عیاں کر رہے ہیں۔ جنگ کے دوبارہ شروع ہونے کا مطلب اب حماس کے ہاتھوں اسرائیل کے ہر سطح کے فوجیوں کا مزید قیدی بننا بھی ہے جس سے اسرائیلی شہری اپنی ہی حکومت سے مزید غم و غصے سے بھر جائیں گے۔
یوں دیکھا جائے تو نظر آرہا ہے کہ اسرائیلیوں اور یہودیوں کے سارے زعم، اکڑ اور نسل کشی کو اگر کہیں دم توڑنا ہے تو وہ تاریخی واقعہ بھی انہی مسلمانوں کے آگے وقوع پذیر ہونا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے چنگیز اور ہلاکو خان بھی آخرکار مسلمانوں ہی کے آگے ڈھیر ہوئے تھے۔ کعبے کو تب صنم خانوں ہی سے پاسباں ملے تھے۔ صہیونیوں کو قیامت سے پہلے بھی اور مستقبل قریب میں بھی، مسلمانوں کے ہاتھوں ہی اپنے انجام کو پہنچنا ہے۔ اسرائیل کے بارے میں نسبتاً درست اندازے لگانے کی خاطر اسرائیلی اور امریکی جائزہ جات کا مطالعہ ناگزیر ہے کیونکہ اندرونی معاملات و کیفیات کی تفصیلی جھلکیاں وہیں سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یقین رکھیں دنیا اور اسلام کی اب ایک نئی تعریف اور نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے اور وہ صبح ہم ہی دیکھیں گے۔