اسرائیل اور حماس کے درمیان سات اکتوبر 2023ء کے بعد قیدی تبادلے کا دوسرا معاہدہ ہوچکا ہے۔
24 نومبر 2023ء کو غزہ جنگ کے دوران حماس اور اسرائیل کے درمیان قطر،مصر اور امریکا کی وساطت سے قیدی تبادلے کے لیے جنگ بندی معاہدہ ہوا تھا۔ اس چار روزہ جنگ بندی معاہدے میں مزید توسیع ہونے کا بعد یہ یکم دسمبر 2023ء کو ختم ہوا جس کے دوران حماس نے 105 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہائی دی تھی جن میں 81 اسرائیلی ،23 تھائی لینڈ اورایک فلپائنی باشندے شامل تھے۔ اس کے بدلے اسرائیل نے 240 فلسطینی قیدیوں کو جیلوں سے رہائی دی تھی۔ اس جنگ بندی معاہدے پر بعد ازاں تنقید بھی ہوتی رہی کہ حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے بہت کم فلسطینی قیدیوں کو رہا کروایا۔آخری اطلاعات کے مطابق حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروپس سات اکتوبر کو 252 اسرائیلی باشندے اغوا کرکے یرغمال بنانے میں کامیاب ہوئے تھے جبکہ چار اسرائیلی حماس کے پاس 2014ء سے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ حماس اب تک مجموعی طور پر 125 یرغمالیوں کو رہائی دے چکی ہے جبکہ 8 یرغمالیوں کو آپریشن کے دوران اسرائیلی فورسز رہا کروانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ آٹھ یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیلی فورسز لینے میں کامیاب ہوئی ہیں جبکہ تین یرغمالیوں کو اسرائیلی فورسز نے خود اس وقت غلطی سے گولی مار قتل کردیا تھا جب وہ ایک بمباری کے دوران آزاد ہوکر فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ اس وقت حماس کے پاس 96 یرغمالیوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں جن میں سے 34 یرغمالیوں کے مارے جانے کی رپورٹ آئی ہے۔

اسرائیل کا نہ صرف حماس کے ساتھ بلکہ ماضی میں عرب ممالک کے ساتھ بھی قیدی تبادلوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔
1948ء میں النکبہ جنگ کے دوران مصر،لبنان،اُردن اور شام نے اسرائیل کے متعدد افراد کو قیدی بنالیا تھا جن کی رہائی کے لئے اسرائیل نے اسی سال قیدی تبادلے کا معاہدہ کیا۔ اُردن نے 673، مصر 156، شام 48 اور لبنان نے 8 صہیونی فوجیوں کو قیدی بنائے رکھا تھا۔ یہ فلسطینی اراضی پر قابض صہیونی ریاست کی قید ہونے والے فوجیوں کی سب سے بڑی تعداد تھی، تاہم اس کے مقابلے میں اسرائیلی فورسز نے بھی ان ممالک کی اس سے بڑی تعداد میں فوجیوں کو قیدی بنالیا تھا جن کی رہائی کے لیے معاہدہ ہوا۔ اسرائیل نے مصر کے 1098، سعودی عرب کے 28، سوڈان کے 25، یمن کے 24، اُردن کے 17، لبنان کے 36، شام کے 57 اور فلسطین کے 5021 فوجی اہلکاروں کو حراست میں رکھا ہوا تھا۔ یہ صہیونی ریاست اور عرب ممالک کے درمیان پہلا اور بڑا قیدی تبادلے کا معاہدہ تھا۔اسرائیل نے ثالثوں کے تعاون سے ان ممالک کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے مختلف مواقع میں مکمل کئے۔
دسمبر 1954ء میں شامی فوجیوں نے پانچ اسرائیلی فوجی اہلکاروں کو اُس وقت حراست میں لے لیا جب وہ گولان کی پہاڑی میں کسی خفیہ مہم پر جانے کی کوشش کررہے تھے۔ ان میں سے ایک صہیونی فوجی نے بعد ازاں شامی جیل میں خودکشی کی، جس کی لاش اسرائیل کو ایک معاہدے کے تحت جنوری 1955ء میں دی گئی۔ باقی چار کے لیے بعد میں اسرائیل کو معاہدہ کرنا پڑا جن کے بدلے اسرائیل کو 41 شامی قیدی رہا کرنے پڑے۔ 1956ء کی جنگ کے دوران اسرائیل نے مصر کے 5500 سویلین اور فوجی باشندوں کو قیدی بنالیا جبکہ مصر کے ہاتھوں اس جنگ میں چار اسرائیلی فوجی قیدی بنے۔ 1957ء میں ہونے والے معاہدے کے دوران ان کا تبادلہ ہوگیا۔ دسمبر 1963ء میں ایک مرتبہ پھر شام اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ ہوا جس میں شام نے 11 اسرائیلی فوجیوں کے بدلے اپنے 15 فوجیوں کو رہائی دلوائی۔ 1967ء کی جنگ میں عرب ممالک کو اسرائیل کے سامنے اس وقت بڑی دقت اٹھانی پڑی جب اسرائیل کے ہاتھوں 5237 مصری ،899 اُردنی اور 572 شامی فوجیوں کو قیدی بنالیا۔ ان کے مقابلے میں چار عرب ممالک کے ہاتھوں صرف 29 اسرائیلی فوجی قیدی بنے۔ ان میں شام اور عراق کے پاس قیدی بننے والے صہیونیوں میں دو جنگی پائلٹ بھی تھے جن کے بدلے اسرائیل کو سینکڑوں کی تعداد میں ان ممالک کے قیدیوں کو رہا کروانا پڑا۔ تاہم اسرائیل کو شام میں پھانسی پانے والے ایک اسرائیلی جاسوس ایلی کوہین کی لاش واپس ملنے میں ناکامی ہوئی۔

فلسطینی مزاحمتی گروپوں کے ساتھ اسرائیل کا پہلا قیدی تبادلہ 23 جولائی 1968 ء کو ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب فلسطینی لبریشن فرنٹ کی لیلیٰ خالد اور اس کا گروپ روم سے اٹھنے والے اسرائیلی طیارے کو ہائی جیک کرکے الجزائر کے گئے۔ الجزائر میں اترنے والے اس طیارے میں ایک سو اسرائیلی سوار تھے۔ اس ہائی جیک کارروائی نے اسرائیل کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ بعد میں عالمی ریڈ کراس کی وساطت سے معاہدہ ہوا۔ طیارے اور اس میں سوار افراد کے بدلے اسرائیل کو فلسطین لبریشن فرنٹ کے انتہائی اہم 37 قیدیوں کو رہائی دینے پڑ گئی۔ اس کے ایک سال بعد لیلیٰ خالد نے دوسرا اسرائیلی طیارہ ہائی جیک کیا’ تاہم دھوکے سے اس گروپ کو برطانوی ائیر پور پر حراست میں لے لیا گیا جس میں لیلیٰ خالد بھی گرفتار ہوگئیں۔ اسی تنظیم کے ایک گروپ نے کچھ عرصہ بعد برطانوی طیارہ ہائی جیک کیا جس کے بدلے میں لیلیٰ خالد کو رہائی دلوائی گئی۔
مہنگی ترین آگ: حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔ پروفیسر عبد الواحد سجاد
نومبر 1983ء میں فلسطینیی تحریک الفتح کے ساتھ قید 6 اسرائیلی فوجیوں کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے 4700 فلسطینیوں اور لبنانیوں کو رہا کروایا۔ اس کے ایک برس بعد اسرائیل اپنے تین فوجیوں کے بدلے 291 شامی فوجیوں سمیت 85 لبنانی باشندوں کو رہائی دینے پر مجبور ہوا۔ اس کے کچھ عرصے بعد اسرائیل فلسطین لبریشن فرنٹ کے ساتھ تین صہیونی فوجیوں کی رہائی کا تبادلہ کرکے 1155 قیدیوں کو رہا کرنے پر مجبور ہوا۔جولائی 1996ء میں اسرائیل اپنے دو فوجیوں کی باقیات کے بدلے لبنان کے 132 فوجیوں کی لاشیں واپس کرنے پر مجبور ہوا۔ 1997ء میں اسرائیل کو اُردن کے ساتھ صہیونی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے ان ایجنٹوں کی رہائی کے لیے معاہدہ کرنا پڑا جنہوں نے حماس سربراہ خالد پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ اسرائیل کو اس معاہدے میں حماس کے بانی احمد یاسین کو رہا کرنا پڑا تھا جو 1987ء سے اسرائیلی جیل میں تھے۔ اکتوبر 2009ء میں القسام بریگیڈ نے جلعاد شالیط نامی اسرائیلی فوجی کی دو منٹ کی ویڈیو جاری کی جس میں فوجی وردی میں ملبوس جلعاد نے اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو عبرانی زبان میں مخاطب کرتے ہوئے اپنی رہائی کا مطالبہ کیا جس پر اسرائیل کو حماس کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑا۔ اسرائیل نے جرمنی اور مصر کی وساطت سے القسام کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے بدلے اسرائیل کو یہ ثبوت دیا گیا کہ جلعاط زندہ ہے۔ صرف اس کے بدلے اسرائیل کو اپنی جیلوں سے عمر قید کی سزائیں کاٹنے والی 19 فلسطینی خواتین کو رہائی دینے پڑی۔ بعد ازاں جلعاد شالیط کی رہائی کے لیے باقاعدہ معاہدہ 11اکتوبر 2011ء کو ہوا جس کے بدلے اسرائیل کو 1027 قیدیوں کو رہائی دینی پڑی جس میں بعد میں حماس کے سیاسی مکتب کے سربراہ بننے والے یحییٰ السنوار بھی شامل تھے جو حالیہ جنگ کے دوران جام شہادت نوش کرگئے ہیں۔