Pakistan Saudiarabia

پرچم (8)

سعودی عر ب
سر وہارا امبارکر

سعودی عرب 1932 میں قائم ہوا۔ نئے ملک کے لئے نیا جھنڈا بننا تھا۔ عرب جھنڈا ہاشمیوں کا بنایا ہوا تھا جبکہ ہاشمی اور سعودی خاندان کے درمیان “مشکلات” تھیں۔ اس لئے عرب جھنڈے کے قریب نہیں جایا جا سکتا تھا۔ سعود پچھلے سو سال سے سبز رنگ پر خطاطی میں کلمے کو استعمال کر رہے تھے۔ عبدالعزیز نے اپنے گھرانے کی علامت کے لئے اس میں تلوار کا اضافہ کر لیا تھا۔ اس کو نئے ملک کا جھنڈا بنا گیا۔ (اس میں حجاز کی سلطنت کا کوئی ریفرنس نہیں رکھا گیا)۔

اس میں ترمیم کی جاتی رہی۔ کبھی دو تلواریں ڈالی گئیں، کبھی سفید پٹی کا اضافہ کیا گیا۔ لیکن 1938 تک یہ موجودہ شکل میں آ چکا تھا۔ سرکاری طور پر اس میں آخری تبدیلی 1973 میں کی گئی جب تلوار کا خم نکال دیا گیا۔

سعودی جھنڈے کو ایسا بنایا جاتا ہے کہ کسی بھی طرف سے دیکھا جائے، کلمہ درست طور پر پڑھا جا سکے۔ تلوار کا رخ کلمے سے مطابق رکھتا ہے۔ اور یہ ان چند جھنڈوں میں سے ہے جسے نیچا نہیں کیا جاتا۔ اس کی لباس پر نمائش یا اشتہارات میں نمائش کم ہی کی جاتی ہے۔

عالمی فٹبال فیڈریشن نے 2002 کے ورلڈ کپ میں فٹبال لائسنس کرنی تھی جس میں ورلڈ کپ میں حصہ لینے والے تمام ممالک کے جھنڈے ہوں لیکن سعودی حکام نے شکایت کی کہ شہادت والے اس جھنڈے کو فٹبال پر بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایسے تنازعات سے بچنے کے لئے ایسے مواقع پر سعودی عرب کی قومی علامت کو استعمال کیا جاتا ہے جس میں کھجور کا درخت اور دو تلواریں ہیں۔

جھنڈے کو لہرانے میں مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا کا سب سے اونچا جھنڈا لگانے کا ریکارڈ سات سال تک سعودی عرب کا رہا۔ یہ جدہ میں ہے۔ جھنڈا فٹبال کے چار گراؤنڈز کے برابر ہے جو 170 میٹر اونچے ڈنڈے پر لگا ہے۔ اس کا وزن 570 کلوگرام ہے جو کہ پانچ چھوٹے ہاتھیوں جتنا ہے۔ جب اسے 2014 میں نصب کیا گیا تھا تو اس نے تاجکستان میں دوشانبے میں لگے جھنڈے کا ریکارڈ توڑا تھا جس نے آذربائیجان کا ریکارڈ توڑا تھا جس نے شمالی کوریا کا توڑا تھا اور جس نے ترکمانستان کا ریکارڈ توڑا تھا۔

قاہرہ میں 2021 میں مصری جھنڈا 202 میٹر کی بلندی پر لگایا گیا تو سعودی ریکارڈ ٹوٹ گیا۔

کالونیل دور کے خاتمے کے بعد کئی نئے ممالک وجود میں آئے لیکن کلمے کو جھنڈے پر لکھنا مقبول نہیں ہوا۔ عرب دنیا میں سبز رنگ کا جھنڈا بھی عام نہیں ہوا۔ اس لئے سعودی جھنڈا باقی عرب جھنڈوں سے الگ نظر آتا ہے۔

جان لیجیے!

٭… گوروں کے سر پر کالوں کے مقابلے میں زیادہ بال ہوتے ہیں۔
٭… امریکن ایک سال میں اوسطاً 20ملین ٹن اچار چٹ کرجاتے ہیں۔
٭… چھینک کی رفتار 600میل فی گھنٹہ سے زیادہ ہوتی ہے۔
٭… 31فی صد ملازمین دوپہر کا کھانا نہیں کھاتے۔
٭… ایک اوسط بالغ انسان کے جسم میں چربی کے اندازاً 45ملین خلیات ہوتے ہیں۔
٭… بادل رات کے مقابلے میں دن کے وقت زیادہ بلند اڑتے ہیں۔
٭… گولف کی گیند کے مرکز میں شہد بھرا ہوتا ہے۔
٭… ایک انڈے کے چھلکے کی سطح پر اندازاً 17000 باریک سوراخ ہوتے ہیں۔
٭… کابلی مکھی یا بھنبھیری پچھلے 600 ملین سال سے نہیں بدلی ہے۔
٭… ہالینڈ کے لوگ دنیا بھر میں سب سے زیادہ کینڈیز (مٹھائیاں) کھاتے ہیں۔ ہر شخص ایک سال میں اوسطاً 65پونڈ سوئٹس کھالیتا ہے۔
٭… سیال کی ایک بوند میں 50 ملین بیکٹیریا سماسکتے ہیں۔
٭… ایک مربع میل سمندری پانی میں 150 ملین ٹن معدنیات ہوتی ہیں۔
(عزیر سعود۔ کراچی)