Promise

اور میں اپنے وعدے پر پورا اتروں گا ! (۷)

جبیں چیمہ

لیلیٰ بت بنی سب کے چہرے تک رہی تھی،تبھی دروازے پر کھٹکا ہوا۔
اس نے سہم کر دروازے کی طرف دیکھا۔

دروازے پر اس کا خاوند ناصر کھڑا تھا۔ اس نے مارے خوف کے آنکھیں بند کرلیں۔
تھوڑی دیر کے بعد اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں تو ناصر اس کے پاس کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ چہرہ اندر کی تپش سے سرخ ہو رہا تھا۔ اس کے چہرے پر آنسو کی لڑیاں تھیں۔

’’آؤ بابا اور ابراہیم کو رخصت کریں۔ جنت انھیں آوازیں دے رہی ہے اور رحمت کے فرشتے انھیں گھیرے ہوئے ہیں۔‘‘
ناصر نے اس کا ہاتھ پکڑ کے اسے کھڑا کیا۔

لیلیٰ بے اختیار اس کے ساتھ لگ کر سسکنے لگی۔
’’نہیں لیلیٰ! شہیدوں کو رویا نہیں کرتے، چلو انھیں رخصت کرتے ہیں۔‘‘

ناصر نے اس کا سر تھپکا۔
’’کیوں خالہ!‘‘ وہ لیلیٰ کی امی کی طرف مڑا۔

’’بے شک بیٹا! یہ دنیا تو مومن کے لیے قید خانہ ہے۔‘‘
لیلیٰ کی امی مضبوط لہجے میں بولیں۔

’’شکر کرو ابا کی آزمائش ختم ہوئی، اب وہ اپنی مرضی کی زندگی گزاریں گے، جو چاہیں گے پائیں گے، یہاں اُن کے لیے کیا رکھا تھا؟‘‘
لیلیٰ کے دل کو اچانک قرار آگیا۔

واقعی یہاں اُن سب کے لیے کیا رکھا تھا۔ آزمائشیں ہی آزمائشیں تھیں۔ ان کے سینے میں حلیمہ کو لے کر کتنا بڑا گھاؤ تھا۔
اس نے جھرجھری سی لی۔

’’ابا کی زندگی پر نظر ڈالو لیلی!‘‘ ناصر پھر بولا۔ ’’آئے دن اُن کے مدرسے پر بمباری ہوتی تھی۔ تمھارے ابا لاشیں اٹھا اٹھا کے تھک گئے تھے۔ تم ہی بتاؤ کیا تم نے اپنی ساری زندگی میں اپنے ابا کو کبھی کھل کر ہنستے دیکھا؟ نہیں ناں۔ تو آؤ پھر ان دونوں کو رخصت کریں کہ جنت کی ابدی راحتیں ان کی منتظر ہیں۔ فرشتے ان کے اعزاز میں عید کی دعوت کا انتظام کرتے پھرتے ہیں اور یہ عید اُن کے لیے کتنی شاندار ہونے والی ہے ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ذرا دیکھو وہ سرخ رُو ہوکر ہر آزمائش میں پورے اتر کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے ہیں۔ آؤ کہ فرشتوں کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اُن کے منتظر ہیں۔‘‘

’’مگر ابراہیم تو ابھی بہت چھوٹا تھا۔ اس نے تو ابھی دنیا میں کچھ بھی نہیں دیکھا تھا۔‘‘

ابراہیم کا سوچ کر لیلیٰ کا صبر کا پیمانہ پھر چھلک اٹھا۔

’’تمھارا کیا خیال ہے کہ اللہ غافل ہے؟ کیا وہ یونہی چھوڑ دیے جائیں گے۔ نہیں بالکل نہیں، بس یہ چند دن کی ہماری آزمائش اور چند دن کی کفر کو ڈھیل ہے۔ اس کے بعد ظالموں سے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا۔ بے شک وہ رب بڑا سریع الحساب ہے۔‘‘
لیلیٰ کے آنسو ناصر کو تکلیف دے رہے تھے۔

’’مگر عید کے دن وہ نئے کپڑے پہن کے عید کی نماز پڑھنے گیا تھا۔ میں نے تو ابھی اس کو جی بھر کے دیکھا بھی نہیں تھا۔‘‘
’’ارے کمال ہے، اتنے عظیم ابا کی اتنی کمزور بیٹی!‘‘

قاسم اسے تھامے باہر لے آیا۔
’’تم کیسے اتنی کمزور ہوسکتی ہو اور پھر تم ابا اور ابراہیم کی فوز العظیم پر رو رہی ہو۔ ابھی ابھی تو ان کا نتیجہ سامنے آیا ہے۔ ابھی ابھی تو ان کے لیے جنت کے دروازے کھلے ہیں۔ کیا خالق نے کسی اور چیز کو بھی فوز العظیم کہا ہے؟ یہ لوگ دنیا کے اِس امتحان میں کامیاب ہوگئے۔‘‘

قاسم اسے اور امی کو لے کر باہر آیا تو لیلیٰ کے سینے میں دہکتی آگ پر جیسے کسی نے پانی ڈال دیا۔
اس نے ابراہیم کے ماتھے کو بوسہ دیتے ہوئے کہا:

’’میرے بچے! تمھیں جنت میں جانے کی جتنی جلدی تھی ناں، تمھارے رب کو بھی تمھیں اپنے پاس بلانے کی اتنی ہی جلدی تھی۔ جاؤ میں نے تمھیں تمھارے مالک کو سونپا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم لوگوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ جاؤ ان کے ساتھ عیدیں مناؤ مگر انھیں ہمارا سلام عرض کردینا۔‘‘

جنازہ اٹھنے لگا تو دونوں بیٹیاں ابا کو دیکھ کر دیکھ کر ایک بار پھر رو دیں۔

’’ابا !آپ نے کیوں ابراہیم کے لیے اپنے آپ کو ڈھال بنایا۔ کم از کم آپ کو تو کچھ نہ ہوتا۔ ابا ابھی تو ہم اچھی طرح ملے بھی نہیں۔ میں نے کتنی ہی باتیں آپ کو بتانی تھیں۔ کتنی باتیں اَن کہی رہ گئیں۔‘‘ لیلیٰ ابا کا بازو پکڑ کر رو رہی تھی۔
’’لیلیٰ! ابا کی شہادت یونہی لکھی تھی۔ شہادت پر اگر مگر کیسا اور پھر اس قفس میں رکھا ہی کیا تھا۔‘‘

قاسم بولا پھر اپنی امی سے کہا کہ ان کے اوپر چادر ڈالیں، اور اب انھیں اجازت دیں۔‘‘
تب وہ اپنے خاوند کے چہرے پر جھکیں۔ چند لمحے انھیں غور سے دیکھتی رہیںپھر بولیں: ’’آپ کو شہادت کا اعلیٰ رتبہ مبارک ہو۔ میں آپ کی راہ پر ثابت قدم رہوں گی اور جلد آکر ملوں گی۔‘‘

خون سے تر کپڑوں میں خون سے تر نیچے بچھی ہوئی چادروں سمیت لوگ انھیں لے گئے تھے۔انہی خون آلود کپڑوں میں زخم زخم جسموں کے ساتھ تدفین ہوگئی۔
٭…٭

تدفین کے بعد شہدا کے خاندان کے لوگ ایک ہی گھر میں اکٹھے ہوگئے تھے، جس کے پاس جو کچھ تھا اس نے دستر خوان پر لاکر رکھ دیا تھا۔ سب ایک دوسرے سے عید مل رہے تھے، ایک دوسرے کو حوصلہ اور مبارک باد دے رہے تھے۔

اگلے چند دنوں کے بعد لیلیٰ اور ناصر اور غادہ اردن واپس چلے گئے۔
لیلیٰ اور ناصر واپس آئے توسارا خاندان ان کے گھر امڈ آیا۔

ناصر کی بہنیں، بھائی چچا ماموں ان کے بچے اگرچہ غم سے نڈھال تھے مگر وہ لیلیٰ اور ناصر کو مبارک باد بھی دے رہے تھے کہ وہ شہید کے وارث ہیں۔

ناصر واپس دفتر پہنچا تو اس نے اپنا اخبار دیکھا۔ جس میں عیدالفطر کے موقع پر اللہ کی دھتکاری ہوئی قوم نے اندھا دھند بمباری کرکے نہتے فلسطینیوں کو خون میں نہلادیا تھا۔

بہت سارے لوگوں نے دیواروں پر چاکنگ کی ہوئی تھی۔
What is terrorism?
Attacking unarmed
palestinians during ramadan
Every single year
لیلیٰ نے غادہ کو اسکول میں داخل کروا دیا تھا مگر گھر آکے وہ ہمیشہ ناخوش رہتی۔
وہ اپنے بھائی کو یاد کرتی جس کے ساتھ وہ سارا دن کھیلتی تھی۔

ناصر ایک دن دفتر سے واپس آیا تو اس نے لیلیٰ کو بتایا کہ وہ چند دنوں کے لیے افغانستان جا رہا ہے۔ جہادِ افغانستان کوشروع ہوئے پندرہ سال گزرچکے تھے۔ ساری دنیا کی فوجیں اسلامی ملکوں کے ہوائی اڈے ان کی فضائی حدود،ان کی سمندری حدود،ہرچیز ان کی مرضی سے صلیبی فوجوں کے استعمال میں تھیں۔ صلیبی جھنڈے کے نیچے تمام مسلمان ملکوں کے سربراہ ایک چھوٹے سے بے یار و مدد گار ملک کے خلاف چڑھ دوڑی تھی اور یہ جنگ ایک دو دن کی نہیں، یہ مسلسل پندرہ سال سے جاری صلیبی جنگ کے کمانڈر کے مطابق اُن ’’دہشت گردوں‘‘کے خلاف تھی جنھیں چند سال پہلے روس کے جہاد کے موقع پر وہ خود مجاہدین کہتا تھا۔ (جاری ہے)