Lesson

بڑا سبق

Photo : FreePik

جویریہ بشیر۔منچن آباد

دورانِ حفظ میں اپنے ننھیال میں تھی۔ وہاں تعلیم و تربیت پر بہت دھیان دیا جاتا تھا بلکہ اُن دنوں نانی جان کی طرف سے اتنی سختی ہوتی تھی کہ بچوں کا اسلام پڑھنے کے لیے بھی بمشکل وقت ملتا۔

ہمارے ساتھ ہمارے بڑوں کا بالکل وہ معاملہ تھا کہ بچوں کو کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے!
اکثر مجھ سے پوچھا جاتا کہ کون سا پارہ ہے؟ اور یہ سوال بہت جلد ہی دوبارہ پوچھ لیا جاتا اِس لیے تھوڑا سا اپنا سبق آگے بتادیتی کہ یہاں ہے۔

کرتے کرتے ہم اپنے اصلی سبق سے ایک پارہ آگے بتا چکے تھے۔ بچپن تھا اور بڑوں کا دباؤ بھی زیادہ تھا تو یہ غلطی ہوئی، لیکن بکرے کی ماں آخر کب تک خیر مناتی؟ سو ایک دن نانا ابو کی ملاقات استاد محترم سے ہوگئی تو میرابھانڈا پھوٹ گیا۔

نانا ابو نے گھر آکر ڈانٹنے کی بجائے صرف اتنا کہا کہ بیٹے! ہمیں بہت افسوس ہوا ہے کہ آپ نے جھوٹ بولا؟ہماری تربیت میں کہاں کمی رہ گئی کہ آپ نے جھوٹ جیسااتنا بڑا گناہ کیا !‘‘ د

کھ اُن کے چہرے سے عیاں تھا اور میں شرم سے سر جھکائے بیٹھی تھی۔

دوسرے دن استاد محترم نے بلایا اور کہا: ’’آپ نے گھر میں جھوٹ بولا تھا؟‘‘

اور میں شرمندگی کے مارے نظریں نہیں اٹھا پارہی تھی اور پھر میں اتنا روئی اتنا روئی کہ ساتھی طالبات پریشان ہوگئیں۔
میرے لیے میرا یہ جھوٹ ایک سبق بن گیا اور الحمدللہ تب سے جھوٹ سے نفرت ہوگئی، کیوں کہ اس واقعے سے مجھے اتنا بڑا سبق ملا کہ سیکڑوں کتابوں اور مواعظ سے بھی نہ ملتا۔ سو بہنو! اگر بچہ کوئی غلطی کرے تو بجائے اس کو نظرانداز کرنے کے اس کو اس بات کا احساس دلائیں کہ آپ نے غلط کیا ہے اور ہمیں اِس بات سے دکھ ہوا ہے،۔ ان شاء اللہ تعالیٰ بچہ تا عمر اُس بات سے بچتا رہے گا۔

٭

ملاحظہ: ویسے بڑوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ہر بچہ ایک جیسی صلاحیت کا نہیں ہوتا، سو جس بات کے بچے مکلف ہی نہیں، اُن باتوںپر بے جا دباؤ ڈالا جائے تو ڈانٹ، پٹائی کے خدشے سے بچے نہ چاہتے ہوئے بھی غلط بیانی کرجاتے ہیں۔ اس سے بچنا چاہیے! (مدیر)
٭٭٭