Husband Wife

نسخہ عجیب

Photo : FreePik

عائشہ تنویر

لڑکا لا ابالی ہے، چلبلا ہے، تنک مزاج ہے یا غصیلا ہے، بزرگ ایک ہی حل تجویز کرتے ہیں کہ شادی کر دو لڑکا ٹھیک ہو جائے گا!

مگر آج کل بزرگوں کی کون سنتا ہے؟

ذرا کہہ کر دیکھیں کہ شادی کر دو، لڑکا ٹھیک ہو جائے، ایسے سب لٹھ لے کر آپ کے پیچھے آئیں گے کہ توبہ ہی بھلی۔
لیکن ہم تو کہتے ہیں کہ بزرگ ٹھیک ہی کہہ گئے ہیں۔

ہمارے پڑوس کے بالے میاں کو ہی دیکھ لیں۔ مزاج یوں تنکتا ہوا تھا کہ گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھی اماں کوئلے دہکائے پھرتی تھیں کہ ٹھنڈی روٹی بالے میاں کے حلق سے نہیں اترتی۔ بازار سے گھر والوں کے لیے روٹی لانے کا بول دو تو بھی ہلنا محال ہوتا تھا۔ ناچار اماں کہتی کہ بھئی جیسے بھی بناؤ روٹیاں گھر ہی میں بنا لو۔ بالے میاں نہ بازار کی روٹی کھائیں گے نہ لائیں گے۔

جس دن شامت ماری بھاوج نے چاول بنا لیے، اسی دن روٹی کی فرمائش کر دیتے اور جس دن بھاوج اٹھارہ، بیس روٹیاں ڈال کر ابھی سکھ کا سانس بھی نہ لے پاتیں کہ ساس امی کا حکم آ جاتا کہ تھوڑے چاول ابال لو، بالے میاں نے آج روٹی نہیں کھانی۔

نازک مزاج اتنے کہ کپڑے ایک گھنٹہ بھی پہن لیتے تو اتار کر دھلنے کے لیے پھینک دیتے۔ ساگ، حلیم، پائے، کڑھی، نہاری کھانے سے بہت شغف تھا۔ حلیم کے ساتھ پیاز تازہ فرائی کی ہوئی ہی چلتی تھی کہ بازاری پیاز بالے میاں کے حلق سے نیچے نہیں اترتی تھی۔

لیکن پھر یوں ہوا کہ بالے میاں کے سہرے کے پھول کھل گئے۔

اور اب سنا ہے کہ رات کی بچی روٹی بھی دوپہر میں نہ صرف خود کھا لیتے ہیں بلکہ اپنی اماں کو بھی ٹھنڈی روٹی کھانے کے فائدے گنواتے رہتے ہیں۔ ساگ، پائے گو اب بھی شوق سے کھاتے ہیں لیکن لجا کر فرماتے ہیں کہ بیگم صاحبہ کو بنانے نہیں آتے، بہن ہی ایک پیالہ بنا کر بھجوا دے تو کام چل جائے گا۔ اب روز روز تھوڑا ہی کھانا ہے ہمیں۔ کپڑے دو دن بھی پہن لیں تو جھاڑ چھٹک کر دوبارہ کھونٹی پر لٹکا دیتے ہیں کہ ابھی میلے نہیں ہوئے۔ اماں تو شاید تھکتی نہیں تھیں، اب بیگم تو اتنے کپڑے دھو لیں تو تھک جاویں گی۔ خود ہل کر پانی نہ پینے والے بیگم صاحبہ کو دودھ لے جا کر پیش کرتے ہیں، اور تو اور شادی سے پہلے راتوں کو دیر سے گھر آیا کرتے تھے کہ آخر یار دوستوں کے ساتھ بھی وقت بِتانا ہوتا ہے مردوں کو۔ نوکری بھی مارے باندھے کرتے تھے کہ اتنی محنت ہم سے نہیں ہوتی مگر اب تو سنا ہے پارٹ ٹائم جاب بھی ڈھونڈ رہے ہیں اور جاب سے آنے کے بعد کا سارا وقت بیگم صاحبہ کے ساتھ ہی گزارتے ہیں۔ چاہے گھر میں رہیں یا چاہیں تو گھوم پھر آئیں۔ اب تو ہماری اُن سے خاندان کے ہر فنکشن میں ملاقات ہو جاتی ہے۔

اور ہاں نامحرموں کی طرف تو دیکھتے بھی نہیں، بس بیگم صاحبہ کے ساتھ ہی بیٹھتے ہیں اور بہت اثر انگیز لہجے میں فرماتے ہیں کہ فیملی کے ساتھ وقت گزارنا بہت ضروری ہے۔ اسلام میں بیوی بچوں کے بہت حقوق ہیں اور حصولِ رزق حلال تو عبادت ہے سو میں تو بس دن رات ثواب کما رہا ہوں۔

بات کرتے جاتے ہیں اور بیگم کو دیکھتے جاتے ہیں۔ جہاں بیگم صاحبہ کی تیوری چڑھ جائے، وہیں گھبرا کر بات بدل جاتے ہیں۔ کوئی ماضی کا طنطنہ یاد دلا دے تو ہنس کر فرماتے ہیں کہ وہ بھی کیا وقت تھا۔ اماں نے تو ہماری تربیت پر محنت ہی نہ کی تھی، لاڈ پیار میں بگاڑ ڈالا تھا، یہ تو بیگم صاحبہ نے بہت کچھ سکھا دیا ہے ہمیں۔

اب آپ جو بھی کہو، بھئی ہم تو مان گئے اس نسخہ عجیب کو۔

اچھے گھروں کی لڑکیاں یوں ہی بگڑے خاوندوں کو تیر کی طرح سیدھا کر دیتی ہیں۔

٭٭٭