Letter To Editor

بزمِ خواتین

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

bشمارہ ۱۰۶۲میں قرآن و حدیث سے ہتھیار ہر دم تیار رکھنے اور اسلحے کے غلط استعمال سے اجتناب کا سبق ملا۔ ’خواتین کے دینی مسائل‘ میں غلاموں اور لونڈیوں کا مقام پڑھ کر دین اسلام پر بے حد فخر محسوس ہوا۔ ’دورخ‘ مثبت اور منفی رویوں کا الگ الگ اطلاق رشتوں کی قدر و قیمت کو کیسے گھٹاتا اور بڑھاتا ہے، اس خوب صورت تحریر نے واضح کردیا۔ ’دیوث‘ عبرت انگیز تحریر، نجانے آج کل کے مرد ’آزادی‘ کے نام پر اپنے گھر کی عزتوں پر لوگوں کی میلی کچیلی نظریں کیسے سہ جاتے ہیں! ’روح سے وعدہ‘ دکھی تحریر ہے۔ یہ خوب صورت رشتے انسان کی زندگی میں گویا ’آکسیجن‘ کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ’تاج باغ کی بیلا گلی‘ کے حد درجہ خوش اخلاق اور محبتیں نچھاور کرنے والے لوگوں پر بہت رشک آیا۔ ایسے لوگوں کا ملن یادگار اور اُن کے ساتھ گزرا وقت سدا یاد رہتا ہے۔ شمارہ ۱۰۶۳ میں ’ایک نیک روح‘ نے دل اداس کردیا۔ اللہ جی ان کی مغفرت فرمائیں اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائیں، آمین۔ ’بچے ہمارے عہد کے!‘ حقیقتِ حال کو بیان کرتی تحریر۔ ’بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل‘ بہت مفید معلومات اس قسط سے حاصل ہوئیں۔ بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔’ہائے میری الماری‘ پر بس ہم تو یہی کہیں گے کہ انسان کی ذاتی زندگی کا کچھ نہ کچھ لحاظ ضرور رکھنا چاہیے۔ (اقرأ فرید۔ پنڈی گھیب، ضلع اٹک)

ج:اس بار آپ کی والدہ محترمہ کے تبصرے ساتھ نہیں آئے۔ طبیعت تو ٹھیک ہے ان کی؟ اللہ تعالیٰ صحت مند رکھے، آمین!

bشمارہ ۱۰۵۹میں ’خواتین کے دینی مسائل‘ پڑھ کر علم میں اضافہ کیا۔ حفصہ فیضی کی ’بات ہے ذرا سی‘ پڑھی بس مناسب ہی تھی۔ مظہر حسین کی ’بیوی اک دیوانی سی‘ پڑھی تو پتا چلا کہ صرف بیوی ہی نہیں شوہر بھی دیوانہ ہے۔ آپ کی تحریر ’رات، آسمان اور گاؤں‘ پڑھی۔ مجھے بھی آسمان بہت پسند ہے۔ جولائی میں ہم اپنے کزن کی شادی میں آپ کے کراچی آئے تھے۔ ہمیں تو دن کو سورج بھی ایسے لگتا جیسے بھکر میں تیز آندھی مٹی والی کے بعد سورج ہوتا ہے مٹیالا سا۔ صبیحہ عماد کی ’بخار کہانی‘ مجھے اپنی عید والی کہانی لگی۔ عید والے دن میں نے بھی سردرد کے ساتھ گزارا۔شمارے میں بزم خواتین کی کمی محسوس ہوئی۔ (ام محمد حنظلہ۔ بھکر)

ج:کمی محسوس کروانے کے لیے ہی کبھی کبھی ہم خود ہی غائب کردیتے ہیں بزم خواتین اور آئینہ گفتار کے سلسلے!

bآئینہ گفتار میں آپ نے ’گھریلو تضادات‘ پر لکھا اور واہ بھئی کیا ہی خوب لکھا۔ کمال کردیا آپ نے مگر ہمارے ہاں الحمدللہ ہماری ساری بھتیجیاں ہم سب سے بہت پر خلوص محبت کرتی ہیں اور ہماری بھابی محترمہ بھی بہت بہت بہت اچھی ہیں۔ ہماری والدہ صاحبہ کی جگہ ہیں، جو اب حیات نہیں۔ ہماری والدہ کے لیے اور تمام مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کردیجیے گا۔ اہلیہ عزیر نے کچھ نیا نہیں لکھا۔ ’سیکھ لیں‘ البتہ زبردست لگی۔ عمارہ حسین نے ’بدلاؤ‘ میں بہت سارے سبق دیے مگر پھر بھی کہانی میں کسی چیز کی کمی لگی۔ خیر اچھی تھی۔ اللہ سب کو ایسی آپاؤں سے بچائے، آمین۔ قانتہ رابعہ بی کی کہانی ’دیپ جلے‘ بہت زبردست تھی لیکن دو پیراگراف سمجھ میں نہیں آئے۔ براہِ مہربانی کوئی سمجھا دے۔ ’انوکھا سفر‘ تحریر بھی بہت خوب صورت تھی۔ مولانا فیصل صاحب بہت شاندار سفرنامہ لکھ رہے ہیں ماشاء اللہ۔ ’بزمِ خواتین‘ میں عمارہ اقبال صاحبہ نے تینوں ناولوں پر بہت خوب تبصرہ کیا۔ (اہلیہ ہاشم۔ ناظم آباد)

ج:بہت شکریہ! ویسے کون سے پیراگراف سمجھ میں نہیں آئے؟ دوبارہ پڑھیے ان شاء اللہ سمجھ میں آجائیں گے۔

bبےحد شکر گزار ہیں کہ آپ نے ہماری چھوٹی سی تحریر کو اپنے قیمتی رسالے میں جگہ دی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بہت خوش رکھے، لیکن اس میں ہمارا پورا نام نہیں لکھا تھا صرف عمران قائد آباد لکھا تھا سو جو خوشی ملی تھی وہ ماند پڑ گئی اور ہمارے ہمارے بچوں نے ہمارا خوب مذاق اڑایا۔ ہم نے بھی ہنس کے برداشت کرلیا کہ چلو کوئی بات نہیں چھوٹی چھوٹی غلطیاں سب سے ہوجاتی ہیں اگر آپ سے ہوگئی تو کوئی بات نہیں ہم نے آپ کو معاف کیا۔ (اہلیہ مولانا عمران۔ قائد آباد، کراچی)

ج:شکر ہے کہ آپ نے معاف کردیا، ورنہ ہمارا کیا بنتا! البتہ بچوں کو معاف نہیں کیجیے گا، ہلکی پھلکی سزا ضرور دیجیے گا۔ بھلا اماں کا مذاق بھی کوئی اڑاتا ہے!

bشمارہ ۱۰۶۵سامنے دھرا ہے۔ حسبِ معمول آخیر سے آغاز کیا۔ ’طوطا رشتے‘ کہانی کا رنگ لیے منطقی انداز میں ختم ہوتی تحریر بہت کچھ سجھا گئی۔ بزمِ خواتین کے آئینے میں خود کو بھی سجا دیکھتے ہیں تو بار بار آئینہ دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔ اپنا ہی خط دس بارہ مرتبہ تو پڑھ ہی لیتے ہیں اور ہر مرتبہ اَش اَش کرتے ہیں۔ خصوصاً مدیر بھیا کے جواب پر۔ ’خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں‘ عنوان ہی اتنا شاعرانہ تھا کہ پڑھتے پڑھتے ہم کھو سے گئے اور دل چاہا کہ ہمیں بھی اللہ دین کی محبت اور دین سے محبت کرنے والوں کی محبت عطا کرے، آمین! ’بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل‘ بہت اچھا ہے۔ اللہ کے گھر کی جتنی بھی تحریریں خواتین اور بچوں کا اسلام میں پڑھتے ہیں، بہت سحر انگیز ہوتی ہیں۔ دل تڑپ تڑپ جاتا ہے۔ ’بلاوا‘ بہت جکڑ لینے والی آزاد نظم بار بار پڑھی۔ ’دائمی حسرت‘ سونیا بلال بہت محبت سے اصلاح کرتی ہیں۔ سب سے آخر میں آئینہ گفتار پڑھا۔ مزاح سے بھر پور، ہلکی پھلکی تحریر بہت بھاری بھاری مطلب سمجھاتی اور گہرے سبق سکھا جاتی ہے۔ پچھلے کئی ہفتوں سے ہر شمارہ ہی لاجواب اور شاہکارآرہا ہے، الگ الگ تبصرہ مصروفیت کی وجہ سے نہیں کرپاتے۔ (ام خدیجہ۔ منڈی بہاؤالدین)

ج:اللہ تعالیٰ مثبت مصروفیات میں مصروف رکھے۔ بس پڑھنا نہ چھوڑیے گا اور بشرط فرصت کبھی کبھی تبصرہ بھی کیجیے گا۔
bشمارہ ۱۰۶۴ ہاتھ میں ہے۔ دل تو سرورق کی خوب صورتی پر ہی فدا ہوگیا ہے۔ سرورق پر موجود ام عبداللہ کی ’فخر دو عالم کا بستر کیسا تھا؟‘ اور ام محمد سلمان کی تحریر ’حصار مت توڑو‘ کے عنوانات دیکھ کر دل ان کو پڑھنے کو للچایا تو جلدی جلدی شمارے کی ورق گردانی شروع کی۔ ’حصار مت توڑو‘ موجودہ دور کی عکاسی کرتی ایک بہت ہی عمدہ اور عبرت اثرکہانی تھی۔ اور ’فخر دو عالم کا بستر کیسا تھا؟‘ بھی آج کی آسائشات کی نفی کرتی ایک بہت ہی بہترین تحریر تھی۔ ’تفریح پر اشکال اور اس کا جواب‘ بہت خوب تھی۔ اولاً ہمیں اشکال بہت معقول لگا لیکن جواب پڑھا تو قائل ہوگئے۔ جس طرح درس نظامی پڑھتے ہوئے پہلے دیگر ائمہ کے دلائل ذکر کیے جاتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ اس سے بہتر کیا ہوگا، لیکن آخر میں امام اعظمؒ کے اور ان کے دلائل اول الذکر تمام دلائل پر سبقت لے جاتے ہیں۔ باجی عامرہ احسان کی تحریر ’ٹھیس نہ لگ جائے‘ دل کی تاروں کو چھوتی تحریر تھی لیکن نجانے کیوں باجی عامرہ احسان کی تحریر سمجھنے میں ہمیں تھوڑی مشکل ہوتی ہے شاید اِس لیے کہ اُن کا الفاظ کا چناؤ اتنا علیٰ ہے کہ ہم نے وہ الفاظ پہلے نہیں سنے پڑھے ہوتے۔ (بنت ذوالفقار۔ رحیم یار خان)

ج:پہلے نہیں سنے پڑھے تو کیا ہوا، باجی کی تحریر سے ہی ان الفاظ کا مفہوم اور استعمال آپ کا لاشعور اخذ کرلے گا اور بہت جلد یہ الفاظ آپ کی زبان پر ہوں گے۔

bشمارہ ۱۰۶۳کے آئینہ گفتار نے آغوشِ مادر کی اہمیت سے آشنا کیا۔ ’بچے ہمارے عہد کے‘ محترمہ جویریہ شعیب کی دلچسپ اور سوچوں کے دریچے وا کرتی تحریر بھاگئی۔ ’ایک نیک روح‘ پروفیسر صاحب کی دل گداز تحریر، ویسے زوجین کو ایک دوسرے کی زندگی میں بھی ان کی تعریف اور قدردانی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔ ’ہائے میری الماری‘ کیا خوب تحریر ہے۔ خوب صورت اسباق سے بھری حقیقت پر مبنی یہ تحریر ’سسرال نمبر‘ کا نچوڑ پیش کر رہی ہے۔ ’خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں‘ یہ تحریر خوشبو بکھیرتی محسوس ہوئی۔ بہت مزہ آیا محترم لکھاریات کی بابت پڑھ کر۔ ساتھ ہی ایک انکشاف نے ہمیں حیران کردیا کہ صغریٰ آپا بقلم ننھی کے پس پردہ محترمہ ساجدہ غلام محمد ہیں۔ اُس پر جتنی حیرت ہو کم ہے۔ ’ایک المیہ‘ پڑھ کر دل بے طرح اداس ہوگیا۔ ’ہم پر حق ہے اُن کا‘ بنت نجم الدین کی ایک خوب صورت سوچ کے تحت لکھی تحریر۔ ’اداسی بھری مسکراہٹ‘ پڑھ کر ہم بھی اداسی سے مسکرادیے۔ شمارہ ۱۰۶۴سبحان اللہ! کیا خوب سرورق ہے، گویا سبز رنگ کی برسات ہو رہی ہے۔ ’حصار مت توڑو‘ بےحد خوب صورت تحریر۔ ’ٹھیس نہ لگ جائے‘ محترمہ عامرہ احسان صاحبہ کی دلچسپ اور فکر انگریز تحریر، جس نے سوچوں کے دریچے وا کردیے۔ (بنت درخواستی۔ خان پور)

ج:اس نوعیت کے تو کئی انکشافات ہیں جو قارئین کو حیران کرسکتے ہیں۔

b ’زخموں پر نمک نہیں چینی چھڑکیے!‘ اس آئینہ گفتار نے اچھا نسخہ دے دیا۔ ’خدا کا دیا گیا حق‘ اس معاشرے کے المیہ کی عکاسی کرتی ہے کہ گویا بیٹیاں اس باپ کی اولاد نہیں جو بیٹوں کو حصہ دینا یاد رکھتا ہے، بیٹیوں کو نہیں۔ ’دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں‘ اکبر الہٰ آبادی کی یہ نظم ہمیں بہت پسندہے۔ ’کھیر کی پیالی‘ کے اختتام نے ہنسادیا۔ ’جنوں کا نام خرد رکھ دیا‘ عامرہ احسان کی فکر کو دعوت دینے والی تحریر تھی کہ کہیںہم تو خود ساختہ سوالوں کے جوابات کی تگ و دو میں نہیں۔ ’ہم سٹھیائے ہوئے ہیں‘ مزاحیہ تحریر تھی۔ ’بزم خواتین‘ میں بہت رونق تھی کیونکہ ہمارا خط جو اس کا حصہ تھا۔ (ز،ع۔ ام رمیصاء۔ پشاور)

ج:تو گویا آج بھی یہ محفل آپ کو بہت بارونق لگے گی لیکن بہت پرانے شمارے پر تبصرہ تھا یہ تو!

٭٭٭