Margarine

جیسے کو تیسا

اہلیہ راشد اقبال

’’ویسے حرا مکھن لگانے کا بھی ناں ایک الگ مزہ ہے! بندے کا رنگ دیکھا کرو، اپنے اصل رنگ کے بجائے ہر رنگ میں غوطے کھاتا نظر آتا ہے۔ مجھے تو بھئی بڑا ہی مزہ آتا ہے۔‘‘
سنبل نے لال لال سیب کا بڑا سا ٹکڑا منہ میں ٹھونستے ہوئے کہا۔

’’سنبل! ذرا ہوش میں آجاؤ۔ فضول بک بک کرکے سوائے کان کھانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتی ہو تم، تمھیں پتا بھی ہے مجھے یہ قمیص آج ہی پوری سی کر رشیدہ آنٹی کو واپس کرنی ہے، مگر تمھارے مکھن اور گھی کے چکر میں ناں ہاتھ سے پھسلے جا رہی ہے۔‘‘
’’ہی ہی ہی… دیکھا تم جیسی سمجھ دار اور بردبار سی حرا بھی گھی اور مکھن کے چکر میں پڑگئی، پھر وہ بھابی کی امی میری مکھن کی ٹکیہ میں گرنے سے کیسے بچ سکتی ہیں!‘‘

’’مگر تم، بےچاری تمھاری ہونے والی بھابی کی امی کو آخر مکھن کی ٹکیہ میں پیوست کرنے پر کیوں تُل گئی ہو، آخر انھوں نے بگاڑا کیا ہے تمھارا؟‘‘
حرا الجھے ہوئے لہجے میں اس سے پوچھنے لگی۔

’’ہونہہ…‘‘ سنبل نے جواب میں لمبا سانس کھینچا۔ ’’اب آئیں ناں تم اصل مدعے پر، مگر میں تمھیں آخر کیوں بتاؤں؟‘‘
سیب کا بیج منہ سے نکال کر سنبل نے اس کی طرف اچھالتے ہوئے نخرہ دکھایا۔

’’تمھارے پیٹ میں جو مروڑ ہو رہی ہے ناں، میں اس سے اچھی طرح واقف ہوں۔ بتائے بنا تم رہو گی نہیں، سو سیدھی طرح بتادو، اِدھر اُدھر کی ہانکنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’دراصل امی کہہ رہی تھیں، ثمرہ بھابی کے میکے میں بہت اچھے اچھے رشتے موجود ہیں، ذرا اُن کی آ ؤ بھگت کیا کرو، کوئی کھجور کا اٹکا تمھاری جھولی میں بھی گر سکتا ہے۔ اِس لیے ثمرہ بھابی کی امی کو کل جو میں نے مکھن لگایا تو مزہ ہی آگیا۔ انھوں نے تو فٹا فٹ مجھے اپنی بیٹی ہی بنالیا۔ ہر بات میں سنبل بیٹا، سنبل بیٹا پکارے جا رہی تھیں… ہاہاہا!‘‘

’’بس کردو سنبل! وہ تمھیں اپنی بیٹی کی نند ہونے کی وجہ سے اہمیت دے رہی ہوں گی اور تم بلاوجہ ہی ہوا ؤں میں اڑ رہی ہو۔‘‘
’’حرا! تم تو بدھو کی بدھو ہی رہنا، اُن کے بد ذائقہ کھانوں کی میں نے کتنی تعریف کی۔ کھچڑی جیسی بریانی پر میں واہ وا کررہی تھی۔ رائتہ پانی کی طرح بہ رہا تھا اور میں یہ کہہ کر مزے مزے سے کھا رہی تھی کہ آنٹی میرا تو ہاتھ ہی نہیں رک رہا۔‘‘

’’اف توبہ ہے سنبل! اچھا خاصا کھانا تھا،بلاوجہ کی برائی اچھی بات نہیں ہے۔‘‘
’’تم تو بس رہنے ہی دو، ہر چیز پر سمجھوتا کرنے والی لڑکیاں مجھے ویسے بھی بہت بری لگتی ہیں اور تم بھی انہی میں سے ایک ہو۔ سب بہت اچھا تھا، سب بہت اچھا ہے، بھئی خاک اچھا تھا۔ بے وقوف! وہ تو میں جو ’اچھا اچھا‘ کی رٹ لگا رہی تھی، ثمرہ بھابی کی امی کو متاثر کرنا تھا بس۔‘‘

’’حد ہوتی ہے سنبل!‘‘
حرا قمیص میں بٹن ٹانکتے ہوئے اس کی باتوں سے محظوظ ہورہی تھی۔

’’اور تم نے بھابی صاحبہ کا میک اپ دیکھا تھا۔ سانولے رنگ پر اتنا فیس پاؤڈر تھوپا ہوا تھا، لگ رہا تھا آٹے میں منہ دے کر آئی ہیں محترمہ! اس پر لال لپ اسٹک، اف عجیب کارٹون میک اپ تھا۔‘‘
’’سنبل! ایک بات تو بتاؤ، ثمرہ بھابی اور ان کے گھر والے تمھیں اتنے ہی ناپسند ہیں تو یہ شادی ہوکیسے رہی ہے؟ اپنے بھائی کا رشتہ کیوں کیا ہے وہاں؟‘‘

’’بھئی قسمت میں لکھا تھا، ہوگیا۔ امی کہہ رہی تھیں اُن کی ایک بیٹی لا کر، ہم اپنی بیٹیاں اُن کے گھر لگاسکتے ہیں۔ میں تو تمھیں بھی کہہ رہی ہوں، تم میری چچا زاد ہو، ذرا کچھ طور طریقے سیکھ لو لوگوں کو اپنا بنانے کے، کچھ مکھن گھی مجھ ہی سے ادھار لے لو، تمھارا بھی اچھی جگہ رشتہ ہوجائے گا۔

امی کہتی ہیں یہ جو لڑکوں کی مائیں ہوتی ہیں ناں! ان کو چاپلوس، سگھڑ، سلیقہ مند، سعادت مند، سمٹی لپٹی، آنکھیں جھکائی لڑکیاں خوب بھاتی ہیں، چالاک، تیز طرار، بد زبان، پھوہڑ لڑکیوں سے یہ کوسوں دور بھاگتی ہیں۔ بوندی لڑکیاں اُن کی فیورٹ ہوتی ہیں، کیونکہ انھیں کٹھ پتلی بہو چاہیے ہوتی ہے جو ہر حکم پر سر تسلیم خم کرلے اور یہ گھر کی ریاست پر تا عمر حکومت کرتی رہیں، لہٰذا اب ہم تو ان کی ڈیمانڈ پر پورا نہیں اتر سکتے تو اچھے رشتوں کے لیے یہ چاپلوسی والا راستہ برا نہیں ہے۔‘‘

’’کیا سوچ ہے بھئی تمھاری! نصیب اور قسمت پھر کہاں گئی، جو ملنا ہوتا ہے مل ہی جاتا ہے، یہ سب بے کار سی باتیں ہیں۔‘‘
’’تم تو ناں بس سلائیاں ہی کرتی رہو، میرے ساتھ رہ کر بھی کچھ نہ سیکھنا۔‘‘
سنبل منہ بناتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔

سنبل کے جانے کے بعد حرا سوچنے لگی کہ چاچی جان نے کیا ثمرہ بھابی میں بھی اپنی گنوائی یہی خصوصیات دیکھی ہیں…؟
٭…٭

حرا اور سنبل چچا زاد بہنیں تھیں۔ دونوں بھائی ایک ہی ساتھ ایک ہی گھر میں الگ الگ پورشن میں رہتے تھے۔ سنبل کے بھائی کی شادی ہونے والی تھی اور وہ مزے مزے سے نئے نویلے قصے حرا کو آکر سناتی رہتی تھی۔

سنبل، کرن اور احمد تین بہن بھائی تھے، جبکہ حرا اور ہانیہ دو بہنیں تھیں۔ پتا نہیں کیوں چاچی جان ہمیشہ اچھے رشتوں کے چکر ہی میں پڑی رہتی تھیں۔ احمد بھائی سب سے بڑے تھے، ان کی شادی ثمرہ بھابی سے ہونے والی تھی اور لگتا تھا چاچی جان کو گھر کی ساری لڑکیوں کو کھونٹے سے باندھنے کے علاوہ کسی اور بات کی فکر نہیں تھی۔ چلو کسی نہ کسی دائرے میں ان کی فکر کو صحیح سمجھا جائے مگر ان کی پالیسی ہرگز قابلِ ستائش نہیں تھی۔ ہر وقت لڑکیوں کو چاپلوسی کا درس دیتی رہتیں کہ بیٹوں کی ماؤں کے آگے پیچھے رہا کرو، تاکہ خوب اچھے رشتے گھر کا رخ کریں۔ یہی باتیں اکثر وہ حرا کی امی سے کرتی رہتیں کہ اپنی بیٹیوں کو طور طریقے سیکھاؤ تاکہ اچھے رشتے آسکیں۔

حرا کی امی طبیعتاً کچھ مختلف تھیں مگر تھیں تو بیٹیوں کی ماں سو اُن کی باتوں میں آ جاتیں کہ تمھاری چاچی جان صحیح کہہ رہی ہیں۔ اچھے رشتوں کے لیے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، ورنہ تو گھر بیٹھے صرف ہاتھ ہی ملے جاسکتے ہیں۔

حرا اور اس کی بہن جو کہ ابھی صرف پندرہ سال کی تھی اس عجیب منطق سے الجھ جاتیں۔ اس بات سے ان کی اپنی شخصیت مجروح ہوجاتی تھی کہ آخر وہ خود کیا ہیں؟ کیسے رہتی ہیں، کیسے سوچتی ہیں، کیسے زندگی گزارنا چاہتی ہیں؟ سب خلط ملط ہوجاتا۔
گھریلو سیاسی اصولوں نے کئی خاندانوں کو ان کی اصل فطرت، سوچ، رواداری، تہذیب سے بالکل ہٹادیا ہے۔ مصنوعی سوچ، مصنوعی رشتے، ہر چیز سے اخلاص اٹھتا جا رہا ہے۔

٭…٭
ثمرہ کی امی اور ثمرہ رات کی دعوت کی تھکان اتارنے میں مصروف تھیں۔ ساتھ ہی ساتھ مہمانوں پر تبصرے جاری تھے، جو اکثر خواتین کی گھر میں ہوئی دعوت کے بعد گفتگو کا حصہ ہوتے ہیں۔

’’امی! ویسے میری سہیلیاں کافی تعریف کر رہی تھیں میرے سوٹ اور میرے میک اپ کی۔ سب پوچھ رہی تھیں کہ کس پارلر سے تیار ہوئی ہو، انھیں تو یقین ہی نہیں آرہا تھا، جب میں نے بتایا بھئی گھر میں خود ہی میک اپ کیا ہے۔‘‘

’’ہاں کیوں نہیں! میری بچی کے چہرے پر نور ہی اتنا ہے، وہ بھی چمکتا ہوگا ناں! اور وہ تمھاری نند کیا نام ہے اس کا؟‘‘

امی نے اس کا نام یاد کرتے ہوئے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا۔

’’سنبل۔‘‘ ثمرہ نے یکدم جواب دیا۔

’’ہاں سنبل! وہ بھی کتنی تعریف کر رہی تھی تمھاری کہ بھابی کتنی پیاری لگ رہی ہیں، بھابی سے تو میک اپ سیکھنا پڑے گا!‘‘

’’ہاں امی مگر مجھے اُس کی باتیں کچھ مصنوعی سی لگتی ہیں جیسے چہرے کے تاثرات اور باتوں میں کوئی ربط نہ ہو۔ کہنا کچھ چاہتی ہو اور کہہ کچھ رہی ہو۔‘‘

’’ہمم تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ سچ بتاؤں مجھے تو ایک آنکھ نہیں بھائی، عجیب چاپلوس قسم کی لڑکی ہے، ہر بات میں اتنا تکلف برتتی ہے کہ سامنے والے کو گھبراہٹ شروع ہوجائے۔‘‘

’’جی ہاں، ماں بیٹی سب ایسے ہی ہیں، مصنوعی سے، چاپلوس قسم کے، بہت میٹھے، مگر اُن کے چہرے اُن کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہے ہوتے۔‘‘
’’ہاں تم نے دیکھا تھا ناں سنبل کو، آنٹی آنٹی کہتے اس کی زبان نہیں تھک رہی تھی، سارے مہمان حیران تھے کہ ثمرہ کو نندیں کتنی اچھی ملی ہیں، لیکن میں بھی خوب سمجھتی ہوں ایسی آؤ بھگت اور چاپلوسیوں کو، اب ہماری تو مجبوری ہے ابھی ان کی ہاں میں ہاں ملانا، تمھارے سسرال والے جو ٹھہرے۔‘‘

’’ویسے امی! آپ کو کیا لگتا ہے، یہ آؤ بھگت کیوں ہو رہی ہے وہ بھی لڑکے والے ہوکر؟‘‘ ثمرہ نے کہا۔
’’بھئی اور کیاہوگا، ہمارے گھر میں خوب صورت ہونہار، پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے لڑکے دیکھ لیے ہیں انھوں نے۔ تب ہی تو تمھاری ساس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنے منہ سے ہی اپنی بیٹیوں کے رشتوں کی بات کرلیں۔ کئی بار اشاروں میں بات کرچکی ہیں محترمہ۔ یہ سب اچھا بننے کا ڈرامہ ہوتا ہے، دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے، سعادت مند، اطاعت گزار، سگھڑ، بااخلاق بن کر دکھانا تاکہ سب کی نظروں میں سما سکیں، لیکن ہم نے بھی کیا یہ بال دھوپ میں سفید کیے ہیں جو اپنے ہونہار بچوں کے لیے ایسی تیز طرار اور چاپلوس قسم کی لڑکیوں کا انتخاب کریں۔ کرنے دو انھیں آؤ بھگت، ہمارا کیا جاتا ہے۔‘‘

’’ویسے امی! آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں، ایسے چاپلوسوں کو دودھ میں مکھی کی طرح اور مکھن میں بال کی طرح کیسے نکالا جاتا ہے میں خوب جانتی ہوں۔ انہی کے لگائے گئے مکھن سے انھیں نکال باہر نہ کیا تو میرا نام بھی ثمرہ نہیں… اور وہ حرا دیکھی تھی ان کی کزن۔ وہ بھی کتنی مغرور سی تھی۔ ہر بات میں جواب دینے کے بجائے صرف مسکرا دیتی ہے لگتا ہے گونگی ہے اور دوسری بے تحاشا چاپلوس۔‘‘

’’ارے بھئی رہنے دو، تمھیں بس اپنا الو سیدھا رکھنا ہے، باقی جائیں بھاڑ میں۔‘‘
دونوں اماں بیٹیاں خوب دل کھول کر سسرالیوں کا مذاق اڑا چکی تھیں۔

٭…٭
جیسی سوچ والوں کو ویسی ہی سوچ والے مل چکے تھے۔ لوگ دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر دراصل وہ خود کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں۔

نیت کا کھوٹ نصیبوں میں کھوٹ پیدا کرنے کی مہارت رکھتا ہے، لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں۔ سنبل اور حرا کی امی جس نیت سے امید لگائے بیٹھی تھیں خالی ہاتھ ہی رہ گئیں۔ ان کے خالی ہاتھ گھر کے سکون کو ختم کرنے کے لیے خالی ڈھول پر بجنے لگے۔
ہماری غلط سوچوں کے تار، غلط تاروں سے جوڑے ہوتے ہیں، اسی لیے گھروں میں اندھیرے چھائے رہتے ہیں۔

غلط نیت سے ملنا، غلط تاثرات پیدا کرنا، غلط گمان رکھنا، بلاوجہ کی تواضع، بناوٹ، تکلف سے خود کو مشکل میں ڈالنا، اپنی شخصیت کو خود مجروح کرنا، خود کو دنیاوی دکھاوے کے لیے لوگوں کے سامنے سنوار کر پیش کرنا کہ واہ وا ہوسکے، سب دھوکا ہی تو ہے۔ کسی بھی سچے اور کھرے انسان کو من گھڑت کہانیوں، جذبوں، رویوں اور لہجوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سچی اور اچھی نیت تو صبح کی کرن کی طرح ہوتی ہے جو ہر سمت خود بہ خود پھیلتی جاتی ہے۔ اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ روشنی ہے، لوگ خود ہی مان لیتے ہیں کہ وہ روشن صبح ہے!

ہاں تاریکی ضرور چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ مجھے روشنی کی ضرورت ہے اور وہ ایسے ہی حیلے بہانے تلاش کرتی نظر آتی ہے۔
٭٭٭

سنت کا پرچار کرو!
اثرؔ جونپوری

چاہتے ہو گر گلشنِ مولیٰ، نفس کا جنگل پار کرو
جنت کے گر طالب ہو تم، سنت کا پرچار کرو

سبحان اللہ پڑھ پڑھ کر تم نخل لگاؤ جنت میں
خرچ کرو اللہ کے گھر میں، خلد میں گھر تیار کرو

سائل بن کر ناز اٹھاؤ پاؤ دنیا میں عزت
علم کے حاصل کرنے میں تم جیتے جی مت عار کرو

حسن کی بالادستی اہلِ عشق کی پستی زندہ باد
جیت اسی میں مضمر ہے تم تسلیم اپنی ہار کرو

چھوٹی بحر کے شعروں کو محفوظ سبھی کر لیتے ہیں
ذوق و شوق اگر ہے تم میں یاد تو یہ اشعار کرو

٭٭٭