Editor Ke Qalam SE

ایک کہانی، ذرا پرانی

زہرہ جبیں

جب زندگی میں صحت تھی تب سب کچھ اچھا تھا۔ گھر بار، شوہر، بچوں اور سسرال کی ذمے داریاں کچھ بھی برا نہیں لگتا تھا۔ فجر پڑھتے ہی زندگی متحرک ہو جاتی تھی۔ بھاگ بھاگ کر گھر کے سارے کام کرتی۔ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتی۔ گھر کے کام کاج ختم ہوتے تو سینا پرونا لے کر بیٹھ جاتی۔ اپنے اور بچوں کے کپڑے خود سلائی کرتی۔ کبھی کبھی دیگر رشتے داروں کے بھی سی دیا کرتی۔ سلائی کا کام بھی نہ ہوتا تو گھر کے کونے کھدرے صاف کرتی رہتی۔ مطالعے کا بے حد شوق تھا، سو یہ شغل بھی ساتھ ساتھ جاری رہتا۔ ہفتے میں دو بار تعلیم اور تفسیر کے حلقے میں بھی جایا کرتی۔ زندگی بہت اچھی تھی۔ ایک صحت مند اور خدمت گزار بیوی کی زندگی واقعی اچھی تھی۔

شوہر نامدار کو ایسی عادت تھی کہ جب تک بیوی آ کر پاؤں نہ دبانا شروع کرے، ان کی آنکھ نہیں کھلتی۔ میں صبح وضو کر کے مصلے پر کھڑی ہوتی اور وہ آوازیں لگانا شروع کر دیتے۔ جلدی نماز پڑھو آ کر میرے پیر دباؤ، اور میں اکثر نماز کے بعد والے اذکار بھی چھوڑ دیتی اور آکر ان کے پیر دبانے بیٹھ جاتی۔ فجر کے وقت تلاوت کا جو معمول شادی سے پہلے تھا، وہ بالکل ہی چھوٹ گیا۔ پندرہ بیس منٹ تک پیر دباتی تب کہیں جا کر وہ اٹھتے تھے اور میں ناشتا بنانے باورچی خانے کا رخ کرتی۔ دوپہر کو کھانے کے بعد جب کچھ دیر آرام کرنے لیٹتے تب بھی یہی عادت تھی۔ جب تک ان کے پیر نہ دباتی انھیں نیند ہی نہ آتی۔ گھنٹے گھنٹے ان کے پاؤں دباتی رہتی۔ خدمت کرنا اچھا بھی لگتا تھا۔ ہاتھوں میں جان تھی تو خدمت کا حق بھی ادا کرتی رہی لیکن مجھے بس ایک بات بری لگتی تھی کہ فجر کے وقت اکثر وہ مجھے مصلے پر ہی آوازیں دینا شروع کر دیتے ہیں، سکون سے نماز بھی نہیں پڑھنے دیتے۔

پھر بھی یہ سوچ کر خاموشی سے آ کر تعمیلِ حکم میں لگ جاتی کہ شوہر کی رضا میں اللہ کی رضا ہے۔ نیز وہ ناراض ہوں گے تو گھر کا ماحول بھی خراب ہوگا۔ کئی دفعہ کہتی بھی کہ مجھے نماز تو سکون سے پڑھنے دیا کریں، نماز کے درمیان آوازیں نہ دیا کریں تو کہتے سکون سے پڑھنی ہے تو تم ذرا جلدی اٹھ جایا کرو لیکن میں کتنی بھی جلدی اٹھ جاتی، انھیں عادت پڑ چکی تھی آوازیں دینے کی۔ کئی دفعہ تو یہ بھی ہوا کہ میں تہجد کے لیے اٹھتی، جائے نماز پر کھڑی ہوتی اور اُدھر وہ پکارنا شروع کر دیتے کہ تہجد پڑھنے میں وہ ثواب نہیں جو میاں کی خدمت کرنے میں ہے، جلدی آؤ۔

اور میں حیران رہ جاتی کہ یہ سب کچھ وہ شخص کہتا ہے جس نے خود کبھی ایک وقت کی نماز بھی نہیں پڑھی تھی۔ جسے دین کے احکام میں صرف شوہر کے حقوق کے علاوہ کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ میں اس صورتِ حال سے تنگ آ گئی کہ تہجد بھی سکون سے نہیں پڑھنے دیتے۔ کئی دفعہ سمجھا لیا کہ ایسا مت کیا کریں مگر دین تو سارے کا سارا صرف میرے لیے تھا اُن کے لیے تو کچھ بھی نہیں تھا۔ اُن پر کوئی بات اثر کرتی ہی نہیں تھی۔ ایک بار تنگ آ کر اپنے بڑے بھائی سے یہ مسئلہ بیان کیا تو سن کر غصے سے بھنا اٹھے:

’’کیا بوڑھا ہے، بیمار ہے، اپاہج ہے تمھارا شوہر جو یوں باقاعدگی سے ہر پہر گھنٹہ گھنٹہ پاؤں دبواتا ہے؟ بیوی کیا ملازم ہے اس کی۔ تم کیوں حکم کی غلام بنی رہتی ہو؟ کیا تمھیں انکار کرنا نہیں آتا؟‘‘

بھائی نے الٹا مجھے ہی ڈانٹنا شروع کر دیا۔

’’میں انکار کیسے کروں بھائی!؟ مجھے ڈر لگتا ہے کہیں اللہ میاں ناراض نہ ہو جائیں؟ مجھے گناہ ملے گا۔‘‘

میں نے روتے ہوئے کہا۔
’’ایسے نہیں ہوجاتے اللہ میاں ناراض! وہ سب دیکھتے ہیں، انکار کرنا سیکھو زہرہ جبیں! یہ دنیا اتنے سیدھے انسانوں کو نگل جاتی ہے۔‘‘

مگر مجھ میں شوہر کو انکار کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ مجھے ان کے غصے سے ڈر لگتا تھا، سو میری زندگی یوں ہی چلتی رہی۔ گھر کو صاف ستھرا رکھنا، شوہر کی پسند کا کھانا بنانا، ان کے لیے تیار ہونا، ان کی حکم عدولی نہ کرنا اور بس ان کے آگے پیچھے گھومتے رہنا۔ برسوں یہی معمول خوش اُسلوبی سے چلتا رہا، پھر زندگی نے پلٹا کھایا۔ پینتیس چھتیس سال کی عمر ہی میں آہستہ آہستہ ایک خاموش مرض ہڈیوں کو گھن کی طرح کھانے لگا۔ تھکن بڑھنے لگی۔ کمر درد سے پھٹی جاتی مگر ہمت کر کے سارے کام پہلے کی طرح ہنسی خوشی کرنے کی کوشش کرتی رہتی۔ درد زیادہ ہوتا تو ایک درد کش گولی نگل لیتی۔

پھر آہستہ آہستہ دوا کی مقدار بھی بڑھتی گئی۔ یہ آسان حل تھا گھر بیٹھے ہر درد کا علاج ہو جاتا۔ روزانہ شام کو بخار سا محسوس ہوتا۔ سر میں درد ہونے لگتا اور دو تین گولیوں سے پھر اگلے دن تک کی مہلت مل جاتی۔

ایک بار ڈاکٹر صاحبہ کو جا کر دکھایا تو کہنے لگیں: ’’علامات سے لگ رہا ہے ہڈیوں کی کمزوری ہے، دودھ پیا کریں روزانہ!‘‘
یہ کہا اور کیلشیم کی ایک دوا بھی لکھ دی۔

گھر آ کر میاں سے کہا تو حسبِ عادت ڈانٹ کر بولے:
’’رہنے دو بس، اِن ڈاکٹروں کی تو یہی باتیں ہیں۔ یہاں اور کس کے لیے دودھ کی نہریں بہ رہی ہیں جو تمھیں نہیں مل رہا۔ سب عورتیں تمھاری طرح ہی ہیں۔ ان ڈاکٹروں کا تو کام ہے اپنی دکان چمکانا۔‘‘

میں یہ سب سن کر روایتی مظلوم بیویوں کی طرح آنسو پی کر رہ گئی۔
پھر چند سال اور گزر گئے۔

اچھی خوراک ملی نہ دوا، جسم میں جو جمع شدہ توانائی تھی، آہستہ آہستہ سب ختم ہو گئی، پھر یوں ہوا کہ سیڑھیوں سے اترنا چڑھنا بھی دشوار ہو گیا۔ جو کام پہلے بھاگ بھاگ کر کیا کرتی تھی اب گھسٹ گھسٹ کر ہونے لگے۔ کمرے کی جھاڑ پونچھ کرتی تو اسی میں ہانپ جاتی۔ دو چار منٹ لیٹ کر آرام کرتی پھر جھاڑو لگانا شروع کرتی۔ ابھی کمرے کی جھاڑو مکمل نہ ہونے پاتی کہ پھر بری طرح تھک جاتی۔ گھٹنے ٹوٹنے لگتے، پھر بے دَم ہو کر بستر پر گر جاتی۔ دس پندرہ منٹ بعد دوبارہ کھڑی ہوتی، یونہی رینگ رینگ کر بقیہ گھر کی صفائی مکمل کرتی۔ برتن دھونے کھڑی ہوتی تو کمر درد سے ٹوٹنے لگتی۔ آدھے دھو کر پھر آرام کرنے لگ جاتی۔ کھانا بناتے ہوئے کتنی ہی بار ہانڈی چھوڑ کے بستر پر جا لیٹتی، پھر ہمت مجتمع کرکے کھڑی ہو جاتی۔ کئی بار تو کمر کا درد اتنی شدت سے ہوتا کہ میں باورچی خانے ہی میں بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی۔ اب تو نمازیں بھی مشکل سے پڑھی جاتیں۔ میاں جی کے طعن الگ بڑھنے لگے:
’’یہ کیا ہر وقت بستر پہ لیٹی رہتی ہو؟‘‘

میں کہتی کہ کام کر کے ہی تو لیٹتی ہوں تو آگے سے کہتے:
’’چلتی پھرتی رہا کرو، بس اٹھو، بھاگو دوڑو، جاؤ کوئی کام کرو۔ اپنی عمر دیکھو اور حرکتیں دیکھو، یہ کوئی عمر ہے بستر توڑنے کی؟‘‘

انھوں نے کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ زہرہ جبیں کو کیا ہوتا جارہا ہے؟ ہر وقت متحرک رہنے والی اب ہر وقت بستر توڑنے کی فکر میں کیوں رہتی ہے؟
میری حالت دن بدن بگڑتی جاتی تھی مگر شوہر کو اتنا احساس ہی کب تھا کہ بیوی کی صحت کی طرف بھی توجہ دے۔ ایک دن چھوٹے بیٹے نے جو ابھی صرف چھے سات سال ہی کا تھا، ماں کو بری طرح کھانستے ہوئے دیکھا تو باپ سے کہنے لگا:

’’ابو جی! امی کو ڈاکٹر کے پاس لے جائیں ناں، کتنے دن سے ان کو کھانسی ہو رہی ہے۔‘‘
’’رہنے دو بیٹا! خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘

انھوں نے بے نیازی سے جواب دیا۔
دو تین دن اور گزر گئے تو بیٹا کہنے لگا: ’’امی جی! جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو ابو ہمیں فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں آپ کو کیوں نہیں لے جاتے؟‘‘

’’انہی سے پوچھ لو بیٹا…!‘‘ میں نے نقاہت سے جواب دیا۔
اور سات سال کا بچہ باپ کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا: ’’ابو جی! امی کو ڈاکٹر پاس لے کر چلیں۔ امی کو بہت کھانسی ہے ناں، دوا کھائیں گی تو ٹھیک ہو جائیں گی۔‘‘

بادِلِ نخواستہ باپ کو ماننا پڑی اور ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔
دو چار دن باقاعدگی سے دوا لی تو کھانسی اور بخار میں افاقہ ہوا مگر ہڈیاں جو پہلے ہی کمزور تھیں اب اور بھی احتجاج کرنے لگیں۔

بیماری اور کمزوری نے اندر سے بالکل توڑ کر رکھ دیا۔ ہڈیوں میں مسلسل ہلکا ہلکا درد رہتا تھا جس کی وجہ سے جسم ٹوٹا پھوٹا سا رہتا۔ بس درد کشا دوا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھی جو چند گھنٹوں کے لیے ہر دکھ درد کا خاتمہ کر دیتی تھی۔ اب تو آئے دن بخار اور کھانسی جکڑے رکھتی۔ قوت مدافعت بالکل ختم ہو کر رہ گئی۔ سر کا درد زندگی کا ساتھی بن گیا۔ گھر کے اندر چلنا پھرنا بھی دوبھر لگتا۔ سیڑھیاں اترنے چڑھنے کی تو ہمت ہی نہیں رہی۔ گھٹنوں پر زور ہی نہیں دیا جاتا تھا۔

اُدھر میاں صاحب کو الگ شکایتیں رہتیں کہ یہ کیسی بیوی ہے میری خدمت ہی نہیں کرتی۔

بعض اوقات یہ شوہر کتنے بے حس ہو جاتے ہیں ناں؟ جو خود خدمت کی محتاج ہے، اُس سے کیا خدمت لینے کی امید کی جائے!
اب صبح اٹھ کر میاں کے پاں دبانے بیٹھتی تو کلائیوں کے جوڑ بری طرح دُکھنے لگتے، پھر ان ہاتھوں میں ناشتے کے لیے پراٹھے بیلنے کی قوت نہیں رہتی تھی۔ ایک دن تنگ آکر کہہ ہی دیا کہ یا تو پاؤں دبوا لیں یا پراٹھے کھا لیں۔ اب زہرہ جبیں میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ آپ کی خدمتیں بھی کرے اور گھر بھی سنبھالے۔

’’ہونہہ نافرمان عورت! یہی سکھایا ہے تمھیں تمھارے دین نے؟ تم کیا سمجھتی ہو نمازیں پڑھ کر، روزے رکھ کر جنت میں چلی جاؤ گی، دیکھنا تم کیسے پکڑی جاتی ہو شوہر کے حقوق میں۔‘‘
اور اس دن میں اُن کی بات سن کے اللہ کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر روئی۔

’’جب میرے بس ہی میں نہیں تو میں کہاں سے خدمتیں کروں میرے مولا!؟ مجھے صحت و تندرستی عطا فرما دے تاکہ میرا گھر خوش اُسلوبی سے چلتا رہے۔‘‘
لیکن قسمت میں ابھی آزمائشیں لکھی تھیں، ابھی تو اور بیمار ہونا تھا۔

دن بدن صحت گرتی چلی گئی۔ جلد ہی اٹھنے بیٹھنے کی ہمت بھی نہ رہی۔ زمین پر بیٹھ جاتی تو اٹھنا محال ہو جاتا۔ ایک سیڑھی چڑھنا بھی قیامت لگتا۔ رات کو سو رہی ہوتی تو کروٹ بدلتے ہوئے بھی گھٹنوں میں درد کی شدید لہریں اٹھتیں۔ ہاتھوں سے پکڑ کر گھٹنوں کو سہارا دے کر کروٹ بدلتی۔
اب میری برداشت سے یہ سب باہر ہوتا جا رہا تھا۔ تنہائی ملتی تو رو رو کر ہلکان ہو جایا کرتی تھی۔ بال بہت تیزی سے جھڑنے لگے۔ نہ صرف جھڑنے لگے بلکہ روکھے اور بے جان بھی ہو گئے۔ ناخن بھی بھربھرے سے ہو گئے۔ سارے ناخنوں پر باریک باریک لکیریں پڑ گئیں۔ آنکھیں بے رونق ہو گئیں، ذرا بھی چمک باقی نہیں رہی۔ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتی تو سوچتی رہ جاتی یہ میں ہوں؟ کیا تھی اور کیا ہو گئی؟

ایک دن بیٹھے بیٹھے یونہی خیال آیا کہ کیا خواہ مخواہ کی مظلومیت طاری کر رکھی ہے خود پر۔ تم کیا چھوٹی بچی ہو جو خود کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس نہیں جا سکتیں؟ اٹھو ہمت کرو شاباش!

تب اپنی پڑوسن کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس گئی۔ اس نے حالت دیکھی تو کئی ٹیسٹ لکھ دیے۔ کافی رقم درکار تھی۔ میاں سے ذکر کیا تو حسب عادت چار باتیں سنائیں مجھے بھی اور ڈاکٹر کے لیے بھی کہ سب پیسے بٹورنے کے بہانے ہیں۔ اِن ڈاکٹروں کو اور آتا ہی کیا ہے بس ٹیسٹ کرواتے رہتے ہیں۔ اسی لیے میں منع کرتا ہوں ڈاکٹر کے پاس جانے سے لیکن تمہیں تو بس اپنی چلانی ہوتی ہے۔‘‘

جب یہاں سے بات بنتی نظر نہیں آئی تو بھائی کو فون کیا اور بتایا کہ ٹیسٹ کروانے ہیں لیکن میرے پاس پیسے نہیں۔ وہ بولے فکر نہ کرو میری بہنا! میں ابھی بھیجتا ہوں، تم تسلی سے اپنا علاج کرواؤ۔رپورٹیں آئیں تو پتا چلا خون بھی کم ہے کیلشیم بھی لیکن جو چیز سب سے خطرناک تھی وہ یہ کہ وٹامن ڈی بالکل ختم ہو چکا تھا بدن میں۔ اسی کی وجہ سے یہ سب تباہ کاریاں ہو رہی تھیں۔
بھائی مجھے پیسے بھیجتے رہے میں اپنا علاج کرواتی رہی۔ اب کافی بہتری آگئی تھی مگر بالکل ٹھیک نہیں ہوئی تھی۔ یوں لگتا تھا کسی ٹوٹی ہوئی چیز کو دوبارہ جوڑ دیا ہو اور کسی بھی وقت دوبارہ ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو۔ اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے میں البتہ آسانی ہو گئی تھی۔ گھر کے کام بھی پھر سے انجام دینے لگی لیکن کمر کا درد جیسے زندگی کا ساتھی بن گیا کہ جاتا ہی نہیں۔ اب وہ پہلے کی سی جان نہیں رہی۔ ہڈیاں بھربھرے پن کا شکار ہو گئیں، پٹھے کمزور ہو گئے، گردن کے مہرے گھس گئے، حافظہ خراب ہو گیا، بہت جلد تھکاوٹ ہو جاتی ہے۔ مستقل دوائیں کھانی پڑتی ہیں۔ بار بار وٹامن ڈی کا لیول کم ہو جاتا ہے۔ ہلکی پھلکی ورزش، دھوپ، دوائیں، غذائیں سب کچھ مل کر بھی میری کھوئی ہوئی صحت کو واپس نہیں لا سکتے۔ بس اب یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لیتی ہوں کہ شاید تقدیر میں ایسے ہی لکھا تھا۔ اللہ تعالی آخرت کی منزلیں آسان فرمائے اور اپنے فضل و کرم سے جنت میں داخل فرمائے کہ وہاں کوئی غم ہوگا اور نہ بیماری۔

سچ کہتی ہوں یہ سوچ کر انتہائی خوشی ہوتی ہے کہ جنت میں کوئی بیماری نہیں ہوگی۔ ہر وقت صحت، تندرستی اور ساری نعمتیں بڑھتی ہی جائیں گی۔ وہاں ہڈیوں کے ٹوٹنے پھوٹنے اور معذور ہو جانے کا خطرہ بھی نہیں ہوگا۔ زندگی کتنی خوب صورت ہوگی, خوش و خرم اور خوش حال۔
جس دن طبیعت ہشاش بشاش ہوتی ہے یوں لگتا ہے جیسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ہو۔ دل شاد ہو جاتا ہے۔ گھر کے کئی کام نمٹا لیتی ہوں جو التوا میں پڑے ہوتے ہیں۔ بچے بھی خوش ہوتے ہیں دیکھ کرکہ واہ امی جی آج تو بڑی کِھلی کِھلی نظر آ رہی ہیں۔ اللہ تعالی ہماری امی کو نظر بد سے بچائے،آمین!

کبھی کبھی خواتین کی ایسی باتیں سامنے آتی ہیں کہ:
ہائے ہمیں اتنا کام کرنا پڑتا ہے، گھر میں اتنے افراد ہیں، ذرا فرصت نہیں ملتی۔ صبح سے شام ہو جاتی ہے لگے لگے۔ رات کو تھک کر بستر پر لیٹیں تو ہی سکون ملتا ہے، دن میں کمر ٹکانے کو بھی وقت نہیں ملتا۔

میں اُن کی باتیں سنتی ہوں تو ایک حسرت سی دل سے لپٹ جاتی ہے۔ کس طرح صبح سے شام تک کام کر لیتی ہیں یہ خواتین! میرا دل چاہتا ہے میں اُن سے کہوں کہ رب کا شکر ادا کرو جس نے تمھیں اتنی ہمت، طاقت اور قوت دی ہے۔ صحت و تندرستی عطا کی ہے کہ اپنے سارے کام خوش اُسلوبی سے نمٹا لیتی ہو۔ مجھے دیکھو میں ترستی ہوں کہ پہلے کی طرح اپنے گھر کے کام کاج کر سکوں لیکن نہیں کر سکتی۔ مجھے تمھاری مصروفیت پر رشک آتا ہے۔
ہاں واقعی مجھے ان خواتین پر رشک آتا ہے!

میں جو ہر تھوڑی دیر بعد سارے کام چھوڑ چھاڑ کر لیٹ جاتی ہوں کہ میری ہمت ہی ختم ہو جاتی ہے۔ بس اب تو عمرِ رفتہ ایسے ہی گزر رہی ہے کبھی ہنستے کبھی روتے۔ نجانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے!
آخری بات یہی کہوں گی کہ بیماری سے پہلے صحت کی قدر کرنی چاہیے۔ اگر آپ کو کسی ناقدرے اور بے حس خاوند کا ساتھ بطور آزمائش ملا ہے تو بھی اپنی صحت، عزت، ایمان و اعمال کی نکیل اسی کے ہاتھ میں نہ چھوڑ بیٹھیے۔ نافرمانی اور لڑائی کیے بنا اپنے بدن اور اپنی صحت کا حق بھی ادا کیجیے۔ کسی بھی طرح اپنے علاج سے غفلت نہ برتیے۔ آپ صحت مند رہیں گی تو بے درد شوہر کی بھی خدمت کرسکیں گی، اپنی اولاد کی بھی بہترین تربیت کرسکیں گی، آخرت کی تیاری بھی کرسکیں گی اور کسی کی محتاجی سے بھی بچیں گی!

٭٭٭