Khawateen Ke Deeni Masail

خواتین کے دینی مسائل

حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سب سے پہلے جنت میں داخل ہونا:

سوال: حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق ایک روایت یہ بھی مشہور ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی کی نکیل پکڑے سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ ایک بزرگ بیان فرما رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بشارت سنائی کہ آپ جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے۔ یہ سن کر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے: ’’یارسول اللہ! میری کیا مجال کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے جنت میں جاؤں۔‘‘ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضاحت فرمادی کہ آپ میری اونٹنی کی نکیل پکڑ کر جنت میںد اخل ہوں گے تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ خوش ہوگئے۔ اس واقعے کی بھی تحقیق مطلوب ہے، کیا حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی پہلے جنت میں داخل ہوں گے؟

جواب: یہ اونٹنی کی نکیل پکڑنے والی روایت تو کتابوں میںکہیں نہیں ملتی، (اسے بیان کرنا جائز نہیں) البتہ یہ حدیث ثابت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح کے وقت حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا بلال! کس عمل کی برکت سے آپ جنت جانے میں مجھ سے بھی سبقت لے گئے؟ چنانچہ میں جب بھی جنت میں داخل ہوا اپنے سامنے آپ کے چلنے کی آواز سنی، میں گزشتہ رات جنت میں داخل ہوا تو اپنے سامنے آپ کے چلنے کی آواز سنی۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ! میں نے جب بھی اذان دی دو رکعت نماز ادا کی اور جب بھی میرا وضو ٹوٹا اسی وقت وضو کیا اور تہیہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے دو رکعت میرے ذمے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بس یہ سبقت اسی عمل کے سبب ہے۔‘‘ (احمد، ترمذی) لیکن اس کا یہ مطلب لینا غلط ہوگا کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جائیں گے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے آگے چلنا دربان و خادم کی حیثیت سے ہوگا۔ ایک حدیث مبارکہ ہے کہ جنت میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم داخل ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میںسب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ داخل ہوں گے۔ (ابوداؤد، طبرانی اوسط، حاکم)

پیدا ہوتے ہی فوت ہونے والے بچے کے احکام:

سوال: ایک خاتون کا حمل ساقط ہوا۔ حمل پانچ ماہ کا تھا، تین بچے ساقط ہوئے، ایک بیٹا، دو بیٹیاں۔ تینوں بچے زندہ حالت میں تھے، لیکن چند سانسیں لے کر فوت ہوگئے، اس سلسلے میں درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

(۱) غسل و کفن جنازہ وغیرہ میں ان کے متعلق کیا احکام ہیں؟ (۲) اگر تکفین ضروری ہے تو بڑوں کی طرح پورا پورا کفن دینا ضروری ہے یا مختصر کفن دینا بھی کافی ہوگا؟ (۳) نمازِ جنازہ اجتماعی ہوگی یا ہر ہر میت کے لیے انفرادی؟ (۴) اجتماعی جنازہ میں دعا کون سی پڑھی جائے گی؟ لڑکے والی یا لڑکی والی یا دونوں؟ (۵) تدفین اجتماعی ہوگی یا انفرادی؟ (و،م۔ صادق آباد)

جواب: (۱) جو بچہ زندہ پیدا ہوکر فوت ہوجائے خواہ زندگی چند لمحے ہی ہو، اس کے تمام احکام (غسل و تکفین، جنازہ و تدفین) وہی ہیں جو عام اموات کے ہیں۔

(۲) افضل تو یہی ہے کہ ان بچوں کو بڑوں کی طرح مکمل کفن دیا جائے یعنی بچیوں کو ۵۔۵ کپڑوں میں اور بچے کو ۳ کپڑوں میں کفنایا جائے اور اگر بچیوں کو ۲۔۲ کپڑے اور بچے کو ایک کپڑا کفن میں دیا جائے تو بھی جائز ہے۔

(۳) نمازِ جنازہ میں بھی افضل یہ ہے کہ تینوں پر الگ الگ پڑھی جائے، اگر اجتماعی جنازہ پڑھیں تو بھی جائز ہے۔

(۴) باقی رہا یہ مسئلہ کہ اجتماعی جنازہ میں دعا کون سی پڑھی جائے؟ تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر جنازہ دو بچوں کا ہے تو مسنون دعا میں تثنیہ کے صیغے پڑھے جائیں: اللہم اجعلھما لنا فرطا و اجعلھما لنا اجرا و ذخرا… اس کے بجائے لڑکے لڑکی پر صرف لڑکے والی دعا پڑھ لی جائے تو بھی درست ہے۔

اور اگر بچے دو سے زائد ہیں تو دعا میں جمع کے صیغے پڑھے جائیں: اللہم اجعلھم لنا فرطا و اجعلھم لنا اجر و ذخرا۔

(۵) ضرورت و مجبوری کے بغیر اجتماعی تدفین جائز نہیں، لہٰذا تینوں بچوں کی الگ الگ قبریں بنائی جائیں۔

٭٭٭