Camel-desert-graphics

اک نئی راہ سوئے حرم…!

Photo : FreePik

سفر عشق کے اُس مسافر نے اپنے اونٹ کی لگام موڑ لی تھی، مگر کس کی طرف؟
روح کے تاروں کو چھیڑ تی مردہ دلوں کو زندہ کرتی، مدتوں یاد رہنے والی ایک شاندار کہانی!

سعد حیدر

’’سنو تو بیگم صاحبہ! میرا احرام ڈرائی کلین کے لیے بھجوادینا۔‘‘

باورچی خانے میں بچوں سمیت ناشتہ کرتے ڈاکٹر فرقان سلیم نے چولھے پر مصروف اپنی اہلیہ ڈاکٹر سائرہ سے بظاہر سرسری سے لہجے میں کہا، مگر آواز کا ارتعاش دل کے جذبات کی چغلی کھا رہا تھا۔ اہلیہ نے سن کر فوراً منہ موڑ کر پہلے تو اپنے میاں کی طرف دیکھا جو یہ بات کرنے کے بعد اپنے ناشتے کی طرف ایسے متوجہ ہوگئے تھے جیسے ظاہر کر رہے ہوں کہ انھیں کوئی جلدی نہیں، بس ایسے ہی ذہن میں ایک خیال آیا تو بات کہہ ڈالی۔ پھر ڈاکٹر سائرہ نے اپنے دونوں بچوں کی طرف دیکھا، نظریں ملیں اور تینوں مسکرادیے۔

’’ابو جی، ابو جی!‘‘

یہ سترہ سالہ حنظلہ تھا۔ انتہا کا ذہین اور بلا کا شرارتی تھا اور جب وہ کوئی بات شروع کرنے سے پہلے معصومیت کے ساتھ انگلی کھڑی کرکے آپ کو پکارے تو فوراً سمجھ جائیے کہ حضرت ضرور کوئی چٹکلا چھوڑنے والے ہیں۔

’’ابوجی، ابو جی! یہ تو بتائیے رمضان میں ابھی کتنے ماہ باقی ہیں؟‘‘
ڈاکٹر فرقان صاحب اپنے بیٹے کی شرارت بھانپ گئے مگر جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے بولے:

’’کیوں بھائی! تم یہ بات کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
’’بس ابو جی! ذرا جنرل نالج کے لیے۔‘‘

حنظلہ نے سر کھجاتے ہوئے کہا تو سارے ہی ہنس پڑے۔
’’ابو جی کی جان!‘‘

یہ حنظلہ اور ہاشم کی امی تھیں۔ ’’تمھیں معلوم ہی ہے کہ رمضان سے تین چار ماہ قبل ہی تمھارے ابو کی عمرے کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔‘‘
’’ہاں بچو! کیا کروں، جیسے جیسے رمضان قریب آتا ہے میرا دل بے حد بے چین و بے قرار ہونے لگتا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ جلد رمضان آئے اور میں پہلے اللہ تعالیٰ کے گھر عمرہ کرنے جاؤں اور پھر اپنے پیارے حبیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد نبوی میں اعتکاف کروں۔ آہ! میرا وجود تو یہاں ہوتا ہے مگر میرا بے بس دل ہر دم کعبۃ اللہ کے طواف اور ریاض الجنہ میں اعتکاف میں مصروف ہوتا ہے۔‘‘

٭…٭
اونٹوں کا ایک قافلہ صحرا میں محوِ سفر تھا۔ آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا تک نہ تھا۔ سورج جیسے سوا نیزے پر آیا ہوا تھا اور خوب شعلہ بار تھا۔ گرمی پورے جوبن پر تھی اور صحرا تنور بنا ہوا تھا۔ اونٹوں پر سوار مسافروں کی جبینیں عرق آلود تھیں، مگر چہروں پر شوقِ منزل نے مسرت بھری تازگی سجا رکھی تھی۔

درجنوں اونٹوں کا یہ قافلہ خراماں خراماں سوئے حرم رواں دواں تھا، جہاں کہیں پڑاؤ ڈالا جاتا وہیں اللہ کے ان مہمانوں کی بستی عارضی طورپر قائم ہوجاتی۔ فضا میں تلاوتِ قرآن مجید کی آوازیں شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی مانند پھیل جاتی۔
٭…٭

میں اپنے نبی کے کوچے میں چلتا ہی گیا، چلتا ہی گیا
اک خواب سے گویا اٹھا تھا، کچھ ایسی سکینت طاری تھی

حیرت سے اِن آنکھوں کو اپنی ملتا ہی گیا، ملتا ہی گیا

ڈاکٹر فرقان سلیم اپنے بستر پر دراز موبائل پر لگائی نعت دھیمی آواز سے سن رہے تھے اور چشمِ تصور میں اپنے محبوب کے مبارک شہر مدینہ طیبہ میں فرطِ شوق سے گھوم پھر رہے تھے۔ کبھی ریاضُ الجنہ میں سر سجدے میں رکھے رب سے رازونیاز میں مشغول ہیں تو کبھی مواجہ شریف پر کھڑے محبت و عقیدت میں ڈوبے دل کے ساتھ درود و سلام پڑھ رہے ہیں۔
موبائل پر میسج وصول ہونے کی ٹون بجی تو ڈاکٹر فرقان کو ایک دَم ایسے محسوس ہوا کہ کسی نے انھیں پکڑ کر لمحہ بھر میں تصور کی خوب صورت دنیا سے نکال باہر کر دیا ہو۔ چند لمحے لگے انھیں یہ سمجھنے میں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، پھر جب دوبارہ موبائل پر وائبریشن ہوئی تو انھوں نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھایا۔

اسکرین پر ڈاکٹر سعید کی طرف سے آیا مختصر پیغام نظر آرہا تھا:
’’غزہ کے غیور و مظلوم مسلمانوں کو اپنی دعاؤں میں مت بھولیے جن کی حالت اب یہ ہے کہ وہ سیورج کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔‘‘

ڈاکٹر فرقان سلیم کے دل میں یک دم غم و حزن کی ایسی ٹیس اٹھی جیسے کسی نے بے دردی سے ان کے دل کو مٹھی میں لے کر مسل دیا ہو۔
’’انا للہ وانا الیہ راجعون!‘‘بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا۔ انھوں نے دکھی دل سے سوچا کہ غزہ کے مسلمانوں کے پاس پینے کو صاف پانی بھی باقی نہیں رہا…!

موبائل پر اب خود کار سسٹم کے ذریعے جو نعت لگ چکی تھی اس کے اشعار نے ان کے دل کو اور زیادہ زخمی اور بے چین کر ڈالا۔
میں ترے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا

تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
ان کا حساس دل اس کرب کی کیفیت کو دیر تک برداشت نہ کرسکا۔ انھوں نے بادل ناخواستہ بٹن دبا کر دوسری نعت لگادی۔

محمد کا روضہ قریب آرہا ہے
بلندی پہ اپنا نصیب آرہا ہے

اب رفتہ رفتہ ان کے تنے اعصاب پرسکون ہو رہے تھے۔ یہ میٹھی اور محبت بھری نعت جیسے ان کی کمر پر تھپکیاں دے کر ان کی تشویش اور صدمے کو دور کر رہی تھی۔ اُن کے دل میں یادوں کے دریچے ایک بار پھر وا ہونے لگے اور ان دریچوں سے خوش گوار ماضی کے آتے ٹھنڈے جھونکوں نے اُن کے ذہن کے پردۂ اسکرین پر ان کی پسندیدہ فلم چلادی۔
٭…٭

انھیں آج سے پچیس سال پہلے ڈاکٹر سعید کے ساتھ (جو کہ میڈیکل تعلیم کے دور سے ان کے دیرینہ دوست تھے) فیصل مسجد میں کیا ہوا اعتکاف یاد آنے لگا۔ اِس اعتکاف کی ایک شب جب وہ دونوں سخت سردی میں گرم چادریں اوڑھے مغرب کے بعد اپنے گھر والوں کو رخصت کرنے مسجد کے برآمدے کے اختتام تک آئے تھے اور پھر واپسی پر اندرونی ہال میں داخل ہونے سے پہلے ان کے دوست ڈاکٹر سعید نے ان کا ہاتھ تھام کر انھیں روک لیا تھا۔ یہ سب منظر انھیں ایسے واضح اور تمام تر جزئیات لیے ہوئے ایسے نظر آرہا تھا جیسے یہ گزشتہ شب کی بات ہو۔

’’فرقان بھائی! آپ نے ان طاق راتوں میں خصوصی طور پر کون سی دعا مانگی ہے؟‘‘

’’سعید بھائی! میں نے تو یہ دعا بکثرت مانگی ہے کہ اگلے سال سے اللہ تعالیٰ مجھے ہر سال رمضان میں عمرہ اور مسجدِ نبوی میں اعتکاف، اور ایامِ حج میں حج نصیب فرمائے۔‘‘

پھر تھوڑے توقف کے بعد انھوں نے پوچھا:
’’اور آپ نے کیا دعا مانگی سعید بھائی؟‘‘
ڈاکٹر سعید جو اپنے دوست کی دعا سن کر بڑے مسرور ہوئے تھے مسکراتے ہوئے گویا ہوئے:

’’آمین ثم آمین۔ آپ نے تو عابد الحرمین بننے کی دعائیں کر ڈالیں فرقان بھائی! میں نے تو مغفرت طلب کرنے اور اللہ کی رضا مانگنے کے بعد جو دعا خصوصیت سے مانگی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے امتِ مسلمہ کی خدمت کا زیادہ سے زیادہ مقبول کام لے لے اور اس کو میرے لیے آخرت میں ذریعہ نجات بنادے۔‘‘

یقیناً وہ قبولیت ہی کے اوقات تھے۔ تبھی ان دونوں دوستوں کی دعا اس شان سے مستجاب ہوئی کہ ڈاکٹر سعید صاحب کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی خدمت کے لیے چن لیا اور وہ اس کام میں ایسے مصروف ہوئے کہ پھر سر کھجانے تک کی فرصت اب وہ نہ پاتے تھے اور ڈاکٹر فرقان صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اپنا ایسا چنا ہوا مہمان بنالیا کہ ہر سال اپنے گھر بلائے جانے والے خوش نصیبوں میں ان کا نام رکھ لیا۔ اب پچیس سال ہوا چاہتے تھے کہ مسلسل ہر سال رمضان المبارک میں عمرہ اور پھر مسجدِ نبوی میں اعتکاف اور ایامِ حج میں حج کی سعادت انھیں حاصل ہوتی تھی۔ ان کے بار بار دیارِ حرمین کے اسفار کی وجہ سے ائیرپورٹ حکام اور ٹریول ایجنٹس سے ان کا ایسا تعلق بن گیا تھا کہ انھیں حج کی بالکل آخری فلائٹ اور واپسی کی پہلی فلائٹ بآسانی مل جاتی تھی۔

یادوں کے مناظر اُن کے چشمِ تصور کے سامنے یکے بعد دیگرے گزرتے جارہے تھے۔ اب ان کے سامنے ان کے روز و شب کی محنتوں کے احوال آرہے تھے کہ کیسے وہ محنت شاقہ کرکے اپنے لیے اور کبھی کبھار اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کے لیے زیارتِ حرمین کا زادِ راہ تیار کرتے تھے۔ اُن کے تین پرائیویٹ اسپتال تھے۔ ملک کے مایہ ناز جنرل سرجن ہونے کی وجہ سے ان کی پریکٹس بہت چلتی تھی اور ان کے اسپتالوں میں ہر وقت مریضوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ انھیں جب بھی کہا جاتا کہ ڈاکٹر صاحب اپنی صحت کا بھی خیال رکھیے، آپ تو ہفتہ بھر ایک سے دوسرے اسپتال کے چکر لگانے میں اپنی جان گھلاتے رہتے ہیں تو وہ مسکرا کر جواب دیتے کہ میں تو اللہ کے گھر کے طواف کی تیاری کے لیے یہ طواف کر رہا ہوں۔

یہ بات انھوں نے اپنے عمل سے ایسے ثابت کی کہ کبھی حرمین کے علاوہ باہر کسی اور ملک کا سفر نہیں کیا۔ کئی مرتبہ ان کے دوستوں نے انھیں دعوت دی کہ مل کر یورپ کی سیر کو چلتے ہیں مگر اس کا جواب وہ ہمیشہ ایک مصرعے سے دیتے ؎
حرم کو جائے گی اگر یہ راہ گزر تو جاؤں گا

سال میں دو مرتبہ زیارتِ حرمین سے مشرف ہونا اور بقیہ سال اپنے اسپتالوں میں محنت کرتے ہوئے حرمین کی مبارک معطر فضاؤں کو یاد کرتے ہوئے آہیں بھرنا یہی اس ’’عابد الحرمین‘‘ کی زندگی کا خلاصہ تھا۔
دسمبر کی رات پھیلتی جارہی تھی۔ وہ یادوں کی پربہار وادیوں کی سیر کرتے کرتے نجانے کب نیند کی وادی میں داخل ہوگئے۔

٭…٭
اونٹوں کا قافلہ رواں دواں تھا۔ جیسے جیسے سرزمینِ حرم قریب آرہی تھی، عشاق کے جذبات میں شدت بڑھتی جاتی تھی۔ اب تک میقات دور تھا چنانچہ احرام ہنوز نہ پہنے تھے۔ چلتے چلتے وقتاً فوقتاً کوئی مسافر درد بھری آواز میں سفر حجاز کے متعلق شوق بھرے اشعار کی تان لگا دیتا تو مسافروں کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے رواں ہوجاتے۔ اس قافلۂ شوق و محبت کے امیر ایک عالمِ ربّانی تھے جن کا کہنا تھا کہ میں صرف اس لیے تجارت کرتا ہوں کہ طلابِ علم کا خرچہ اٹھا سکوں، سفر جہاد کے اخراجات برداشت کرسکوں اور حج بیت اللہ کے لیے زادِ راہ جمع کرسکوں۔ اس میر کارواں کا معمول تھا کہ ایک سال جہاد کے لیے مختص کر رکھا تھا، ایک سال دینِ متین کا علم پھیلانے کے لیے اور ایک سال حجِ بیت اللہ کے لیے۔

ان کا سفرِ حج بھی ان کی ذات کی طرح ایک نرالی شان کا حامل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں رزق کی کشادگی سے تو نوازا ہی تھا ساتھ ساتھ انھیں دل کے غنیٰ سے بھی مالامال کیا تھا۔ ان کا معمول تھا کہ وہ اپنے ساتھ عازمین حج کا قافلہ لے کر نکلتے۔ آغازِ سفر میں ان کا خزانچی ان کی ہدایت کے مطابق تمام عازمین حج سے سفر کا خرچہ لے کر ان کے نام اور ان کی دی گئی رقم درج کرکے یہ سارا مال ایک صندوق میں مقفل کردیتا۔ تمام سفر سارا خرچہ میرِ قافلہ خود اٹھاتے۔ قافلے کے حرم میں پہنچنے کے بعد وہاں رہائش اور قیام و طعام کے اخراجات بھی وہی اٹھاتے، حتیٰ کہ قافلے والوں نے اپنے اپنے گھروں کے لیے جو تحائف لینے ہوتے وہ بھی اپنی طرف سے انھیں خرید کر دیتے اور واپسی پر جب قافلہ اپنے علاقے میں پہنچ جاتا تو میر قافلہ صندوق منگواتے اور تمام افراد کو ان کی دی گئی رقم واپس لوٹادیتے۔
٭…٭

’’اللہ اکبر، اللہ اکبر!‘‘
مشاری راشد العفاسی کی خوب صورت آواز میں اذان موبائل کے اسپیکروں سے سنائی دینے لگی۔ ڈاکٹر فرقان سلیم بیدار ہوئے تو حسبِ معمول اپنی اہلیہ کو جائے نماز پر پورے استحضار اور خشوع و خضوع کے ساتھ تہجد پڑھتے ہوئے پایا اور بے اختیار ایک اطمینان بھری مسکراہٹ ان کے چہرے پر نمودار ہوگئی۔

ڈاکٹر فرقان کا معمول تھا کہ وہ فجر سے گھنٹہ پہلے تہجد کے لیے اٹھتے اور ان کی اہلیہ ان سے بھی آدھا پونا گھنٹہ پہلے اٹھ جاتیں۔ انھوں نے نیند سے اٹھنے کی مسنون دعا پڑھی، الارم بند کیا اور ایک سرسری نظر اپنے فون پر ڈالی تو انھیں اپنے بیٹے کا ایک مضمون اپنے اِن باکس میں موجود ملا۔

ان کے بیٹے حنظلہ نے اپنا ایک بلاگ بنا رکھا تھا جس میں وہ اکثر حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں بڑے پر اثر اور ایمان افروز مضامین لکھا کرتا تھا۔ اس کے بلاگ کے فالوورز کی تعداد اب ہزاروں میں پہنچ چکی تھی۔ اُس کی تحریر میں بڑی چاشنی تھی۔ پڑھنے والوں پر اپنا اثر دیر تک قائم رکھتی اور انھیں کچھ کر گزرنے پر مجبور کرتی۔ مضمون کا عنوان بڑا منفرد سا تھا اور اس نے اپنا کام کر دکھایا تھا یعنی ڈاکٹر فرقان کی توجہ اپنی طرف پوری طرح سے کھینچ لی تھی اور انھیں مجبور کردیا کہ وہ پورا مضمون پڑھ کر ہی بستر سے اٹھیں۔

مضمون میں لکھی عبارت کے الفاظ کے ساتھ ساتھ ان کی نگاہوں نے سفر شروع کیا تو جیسے لمحہ بھر میں صدیوں کے طویل فاصلے مٹ کر رہ گئے ہوں، تخیل کا پنچھی انھیں اڑا کر صحرا کی تنہائیوں میں سفر کرتے اونٹوں کے قافلے میں سے ایک اونٹ پر بٹھا گیا۔

ابھی انھیں اس قافلے کے ہمراہ سوئے حرم سفر کرتے چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اُن کا جسم پسینے سے شرابور ہوگیا اور حلق میں پیاس کی شدت سے کانٹے چبھنے لگے۔

اُن کا رُواں رُواں ’العطش‘ پکار رہا تھا اور انھیں احساس ہو رہا تھا کہ اس زمانے میں حج کتنا مشکل اور اس کا سفر کس قدر پر صعوبت ہوا کرتا تھا…!
وہ یہی سوچتے ہوئے عازمینِ حج کے اس قافلے کے ساتھ محو سفر تھے۔ ایسے میں سامنے ایک آبادی نظروں کے سامنے نمودار ہوئی اور اس آبادی کو دیکھ کر ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

کچے گھر مٹی کے بنے ہوئے اور پرانے طرز کے بازار۔
بازار میں ایک دم ’مرحبا مرحبا‘ کا شور مچ گیا اور لوگ اپنے اپنے کام چھوڑ کر حجاج کے قافلے کا استقبال کرنے پہنچ گئے۔

ڈاکٹر صاحب بار بار سوچتے یہ میں کس دنیا میں آنکلا ہوں؟
اخلاص اور سادگی، اخوت و بھائی چارے کی دنیا میں…!

اتنے میں قافلے نے پڑاؤ ڈالا۔ دستر خوان لگا تو ڈاکٹر فرقان کیا دیکھتے ہیں کہ انواع و اقسام کی نعمتیں پیشِ خدمت ہیں اور سب مسافر کھانا کھا رہے ہیں، مگر ایک شخص کھڑا خود خدمت میں لگا ہے اور کھانے میں شریک نہیں۔ اس کا چہرہ نہایت پر نور اور بشاشت سے لبریز ہے۔ انھوں نے اپنے ساتھ بیٹھے مسافر سے پوچھا:
’’یہ حضرت کون ہیں؟ یہ کھانے میں کیوں شریک نہیں؟‘‘

مسافر انھیں حیرت سے تکنے لگا، پھر بولا:
’’کیا تم اپنے قافلے کے امیر کون نہیں جانتے؟ یہ عبداللہ بن مبارک ہیں اور امام صاحب اس لیے کھانا نہیں کھا رہے کیونکہ ان کا روزہ ہے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا کہ وہ اس وقت امام عبداللہ بن مبارک کو دیکھ رہے ہیں۔ دل عقیدت و محبت کے جذبات سے لبالب بھر گیا۔ ایسے میں کیا دیکھتے ہیں کہ امام صاحب ایک طرف کو چل دیے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بھی دسترخوان سے اٹھتے ہیں اور تیز قدموں سے ان کے پیچھے پیچھے چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ امام صاحب کے ہاتھ میں کھانے کا سامان ہے اور وہ بازار میں گھومتے پھرتے غرباء و مساکین میں کھانا تقسیم کرتے جا رہے ہیں۔
چلتے چلتے وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں کچرے اور کوڑے کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ایک معصوم سی پیاری بچی نجانے اس کچرے میں کیا تلاش کر رہی تھی۔

یہ منظر دیکھ کر بےاختیار امام صاحب کے قدم رک گئے۔
منظر بڑا دل خراش تھا۔ اِس پھول سی بچی کو کچرے کے ڈھیر میں گندگی ادھر ادھر کرتے تلاش کرتے کرتے نجانے کیا ملا کہ ایک دم اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ بچی نے تیزی سے اس شے کو اٹھایا اور ایک تھیلے میں ڈال کر تقریباً بھاگتے ہوئے ایک طرف کو چل پڑی۔

امام صاحب جن کی آنکھیں اِس غمناک منظر کو دیکھ کر ڈبڈبا رہی تھیں، وہ بھی اس بچی کے پیچھے چل دیے۔
بچی گھر میں داخل ہوئی تو امام صاحب نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک خاتون نکلی۔

امام عبداللہ بن مبارک نے پردے کی اوٹ میں نہایت ادب سے خاتون سے اس کے احوال پوچھے تو معلوم ہوا کہ وہ بیوہ ہیں اور گھر والوں کا کئی دنوں سے فاقہ ہے، آج بچی ایک مردار چڑیا لے کر آئی ہے تاکہ اس کی ماں اسے پکائے اور گھر والوں کو کچھ کھانے کو ملے۔
یہ سن کر امام صاحب کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

ادھر ڈاکٹر صاحب بھی نگاہِ تصور سے یہ سارا ماجرا پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور اسی لمحے انھیں اس منظر کے اندر ایک اور منظر دکھائی دینے لگا۔
ایک محصور، مجروح اور مجبور بستی کا منظر جہاں کئی ماہ سے قیامت خیز بمباری جاری ہے۔ جہاں ہر طرف موت کے مہیب سایے پھیلتے جا رہے ہیں۔ اس لمحے انھیں غزہ کے وہ مظلوم مسلمان بڑی شدت سے یاد آئے جو بھوک و پیاس کے باعث کچرے کے ڈھیر سے کھانے کی اشیا تلاش کرکے پیٹ بھرنے اور سیوریج کے گندے پانی سے اپنی پیاس بجھانے پر مجبور تھے۔

ڈاکٹر صاحب کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں، پھر چشم زدن میں وہ ایک بار پھر اسی زمانے میں پہنچ گئے۔
منظر بدل چکا تھا۔ انھوں نے امام صاحب کے ساتھ اُن کے خزانچی کو کھڑا دیکھا۔

امام صاحب کا چہرہ انتہائی غمزدہ تھا۔ ان سے اس فاقہ ذدہ گھرانے کا دکھ سہا نہ جا رہا تھا اور پھر انھوں نے اس لمحے جو قدم اٹھایا اس سے پاس کھڑے ڈاکٹر صاحب کا رواں رواں لرز اٹھا۔
اس وقت ان پر یہ حقیقت کھلی کہ سلف صالحین کا فہمِ دین کس درجہ بلند و بالا تھا اور اپنے ایمان و یقین، تقویٰ و علم کی روشنی میں کیسے وہ یہ جان لیتے تھے کہ کس وقت اللہ تعالیٰ کی رضا کس بات میں ہے؟

ڈاکٹر صاحب نے دیکھا کہ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالیٰ نے خزانچی سے اپنے سفر حج کا سارا زادِ راہ لیا، اس میں سے واپس گھر تک کے سفر کے لیے مختصر سی رقم اپنے پاس رکھی اور بقیہ رقم اس فاقہ کش خاتون کے حوالے کرتے ہوئے گویا ہوئے:
’’اس مرتبہ ہمارا حج یہیں پر پورا ہوگیا۔‘‘

اور پھر ڈاکٹر صاحب دیکھتے ہیں کہ وہ قافلہ جب پڑاؤ اٹھا کر جانبِ حرم روانہ ہوا تو راہِ عشق کے اس عظیم مسافر نے اپنے اونٹ کی لگام موڑ لی۔

ڈاکٹر صاحب اپنے اونٹ پر براجمان دونوں جانب باری باری دیکھ رہے ہیں۔ ایک طرف حجاج کا قافلہ اپنی منزل کی طرف گامزن ہے اور دوسری طرف امام عبداللہ بن مبارک راستے ہی سے واپس لوٹ رہے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کو لگتا تھا کہ وہ ایک سال کے لیے بھی بیت اللہ اور مسجد نبوی کی ایمان افروز رونقوں سے محروم ہونا برداشت نہیں کرسکتے مگر دل کے نہاں خانوں سے پکار اٹھی تھی:
’’امام صاحب کو ایک فاقہ کش گھرانے نے نفلی حج سے واپس لوٹادیا اور انھوں نے سارا زادِ راہ اس معصوم بچی کے گھر والوں کے حوالے کردیا جو کوڑے دان سے مردار چڑیا اٹھا رہی تھی۔ کیا تمھیں ہزاروں بھوک و پیاس سے بلکتے، غذا کو ترسے معصوم مسلمان بچے نظر نہیں آرہے؟‘‘

ڈاکٹر صاحب نے آخری مرتبہ الوداعی نگاہوں سے حجاج کے قافلے کو دیکھا اور پھر انھوں نے بھی اپنے اونٹ کی لگام کو اس سمت موڑ دیا جس سمت امام عبداللہ بن مبارک جا رہے تھے۔
’’گھر‘‘ سے گھر والے کی طرف!

٭…٭
’’سعید بھائی! یہ چیک میری طرف سے غزہ کے مسلمانوں کی امداد کی مد میں قبول کیجیے۔‘‘

غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے لیے منعقدہ ایک فنڈ ریزنگ پروگرام کے اختتام پر ڈاکٹر فرقان سلیم نے بھیگی آنکھیں جھکاتے اور چھپاتے ہوئے کہا۔
ڈاکٹر سعید نے پہلے چیک پر اچٹتی سی نظر ڈالی، پھر جیسے انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ چیک کو آنکھوں کے قریب کیا۔ اس پر لکھی رقم بغور پڑھی اور پھر حیرت بھری سوالیہ نظروں سے اپنے دوست کو دیکھنے لگے۔

’’فرقان بھائی! یہ تو آپ کی سال بھر کی کمائی ہوگی۔ کیا آپ اس سال عمرے اور حج پر نہیں جائیں گے؟‘‘
انھیں یقین نہ آرہا تھا کہ دیارِ حرمین کا دیوانہ اپنی سال بھر کی کمائی ایک چیک کی صورت غزہ کے مسلمانوں کی امداد کے لیے پیش کر رہا تھا اور اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ اس سال وہ حرمین کی زیارت نہ کر پائے گا۔

’’سعید بھائی! اس سال میرا عمرہ اور حج یہیں پورا ہوگیا ہے۔‘‘
٭…٭

اونٹوں کا قافلہ بالآخر واپس اپنے علاقے میں پہنچ چکا تھا۔ حجاج کے اعزاز میں تمام علاقے والے ہی اُن خوش نصیبوں کے استقبال کے لیے امڈ آئے تھے اور ان استقبال کرنے والوں میں امام عبداللہ بن مبارک بھی تھے۔
اپنے امیر قافلہ کو دیکھ کر حجاج کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سارا قافلہ اپنے اونٹوں سے کود پڑا اور اپنے محبوب میر کارواں کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔

سبھی کے چہرے طویل صحرائی سفر کے باعث زرد ہو رہے تھے مگر آنکھوں کی چمک بتلا رہی تھی کہ وہ حرمین کی زیارت کرکے آرہے ہیں اور اُن کی سانسوں میں حرمین کی معطر فضاؤں کی مہک ابھی باقی ہے۔
ان قافلے والوں میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور امام صاحب کو مخاطب کرکے کہنے لگا:

’’یاشیخ! میں نے حج کے موقع پر آپ کے بارے میں ایک بشارت بھرا خواب دیکھا۔‘‘
وہ شخص جذبات سے مغلوب دکھائی دیتا تھا اور اس کی آواز بار بار بھرّا جاتی تھی۔

’’میں نے دیکھا کہ حرم میں طواف جاری ہے اور آپ بھی طواف کر رہے ہیں اور تمام مناسکِ حج میں ہمارے ساتھ شامل ہیں۔‘‘
امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالیٰ کی آنکھوں سے اتنا ہی سن کر آنسو رواں ہوگئے اور اب وہ جذباتِ شکر سے لبریز دل کے ساتھ سر جھکائے مبارک خواب سن رہے تھے۔

’’اور ہاں یا شیخ! ایک منادی کرنے والے نے اونچی آواز میں ندا لگائی۔ وہ کہہ رہا تھا اے لوگو! سن لو! اس سال بھی عبداللہ بن مبارک کا نام حج کرنے والوں میں لکھا گیا اور ان کے اس حج کی برکت سے اس سال تمام حج کرنے والوں کے حج قبول کرلیے گئے۔‘‘
٭٭٭