Motorcycle Ai Graphic

کیا، کیوں، کیسے؟

Photo : FreePik

موٹرسائیکل گرتی کیوں نہیں؟

فرخ انیق

ایک سوال ہے کہ جب ہم موٹرسائیکل چلاتے ہیں تو اس کو آسانی کے ساتھ ایک ہاتھ سے بھی کنٹرول کر کے چلا لیتے ہیں۔ اگرچہ اس پر تین بندے ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں وہ زمین پر گرتی نہیں ہے، لیکن جب موٹرسائیکل رکی ہوئی ہو تو ہم اپنے پاں زمین پر رکھ کر اس کو کھڑا کرتے ہیں، نہیں تو وہ گرجاتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایسی کون سی قوت ہے جو چلانے کے دوران موٹرسائیکل کو متوازن رکھتی ہے؟

جواب:چلتی ہوئی بائیک یا موٹر بائیک کو بیلنس کرنے میں فزکس کے کئی اصول مل کر کام کرتے ہیں۔ مثلاً جائروسکوپ افیکٹ نامی ایک اصول جو کہتا ہے کہ گھومتی ہوئی چیز چاہتی ہے میں گھومتی ہی رہوں۔ (جائروسکوپ کا اصول ضرور اسٹڈی کیجیے) گھومتے پہیے کے لیے اپنے آپ کو عمودی رکھنا بہت آسان ہوتا ہے (جس کی وجہ ایگولر مومینٹم ہے) اور جب اس میں رکاوٹ آنے لگے تو وہ اس کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔

یعنی چلتی بائک جب ایک طرف جھکنے لگتی ہے تو جائروسکوپ افیکٹ اس کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ رفتار بڑھ جائے تو یہ افیکٹ بھی بڑھ جاتا ہے اس لیے زیادہ رفتار پر بائک کو متوازن رکھنا ڈرائیور کے لیے اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔

دوسری اہم چیز سینٹر آف ماس ہے، یعنی سائیکل اور ڈرائیور کا ماس ملا کر دیکھیں تو کسی ایک جگہ ان دونوں کا مشترکہ مرکز بن رہا ہو گا۔ وہ دائیں اور بائیں طرف سے زمین سے برابر بلندی پر ہو تو بائک چلتی رہتی ہے۔ جب بائک ایک طرف کو جھکتی ہے تو وہ سینٹر اس طرف سے زمین کے قریب آجاتا ہے اور پھر زمین سے جا لگتا ہے یعنی بائک گر جاتی ہے۔

یہ سینٹر ہمیشہ زمین سے قریب ترین رہنا چاہتا ہے، جب یہ سنٹر درمیان میں ہو گا تو نہ وہ دائیں گرے گا نہ بائیں بلکہ بالکل نیچے کو کشش ثقل محسوس کرے گا۔ بائک کا کسی ایک طرف جھکا ہونے پر ڈرائیور لا شعوری یا شعوری طور پر اپنا کچھ وزن دوسری طرف منتقل کرتا ہے جس سے سینٹر آف ماس پھر بدل کر درمیان میں آ جاتا ہے۔ جائروسکوپ افیکٹ مدد کرتا ہے تو چلتی بائک پر یہ کام آسان ہوتاہے اور رکی ہوئی بائک پر بہت مشکل، لیکن سرکس میں کچھ لوگ رکی ہوئی بائک کو بھی بیلنس کر لیتے ہیں۔ وہ صرف سنٹر آف ماس کا خیال رکھتے ہیں، ایسے ہی رسے پر چلنے والے لوگ بھی سنٹر اف ماس کو درمیان میں رکھتے ہیں جس کے لیے ان کے پاس ایک لمبا بانس ہوتا ہے جس کی جگہ کی تبدیلی سے وہ اپنا مشترکہ سنٹر آف ماس درمیان میں رکھتے ہیں۔(بشکریہ سائنس کی دنیا)

٭٭٭