Jail Room

دو مجرموں کی سچی کہانی

Photo : FreePik

سروہارا امباکر

ہوا کی ایک اہم گیس آکسیجن ہے۔ آج سے دو ارب سال قبل یہ فضا میں اکٹھی ہونا شروع ہوئی۔ آکسیجن ایک فسادی گیس ہے۔ یہ کئی طرح کے کیمیکل ری ایکشن شروع کر سکتی ہے جو اس کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ اُن میں سے ایک ری ایکشن یعنی ردعمل جلنے کا بھی ہے…!

اور یہ وہ بات تھی جس نے جرمنی کے ایک مجرم کو ایک جرات مندانہ خیال دیا۔

سائنس کو استعمال کرتے ہوئے نقب زنی کرنے والے اس شخص نے ۱۸۹۰ء کو ایک ہوٹل میں اسمتھ کے نام سے کمرہ لیا۔ فرمائش ایک خاص کمرے کی تھی، اور پھر اس کے ساتھ والے دونوں کمرے بھی لے لیے۔

دراصل اِس کمرے کے نیچے بینک تھا…!

چند روز بعد کرسمس کی چھٹیاں تھی۔ کرسمس والے دن بہت صبح اسمتھ نے اپنے سامان سے چھتری اور آری نکالی اور کمرے کے فرش پر چھوٹا سا سوراخ کر لیا۔ اس سوراخ میں اس نے چھتری کو داخل کرکے چھتری کو کھول لیا تا کہ ملبہ اس میں گرے اور آواز نہ آئے۔
پھر اس نے سوراخ کو بڑا کر لیا۔

اب اس نے سامان سے رسی نکالی اور کاندھے پر تھیلا لٹکائے نیچے اتر گیا۔
اس دن بینک میں ستر لاکھ ڈیوش مارک تھے۔ بینک نے اس کی حفاظت کے لیے الیکٹرانک سیکورٹی سسٹم لگایا تھا۔ یہ والٹ تہ خانے میں تھا جہاں چکر کھاتی سیڑھی سے جایا جا سکتا تھا۔ اِس سیڑھی پر اگر کوئی پریشر آجاتا (جیسے کسی کا قدم) تو الارم بج جاتا۔

اسمتھ نے اپنے الیکٹرونکس کے علم کی مدد سے اس سسٹم کو ناکارہ بنایا اور نیچے اتر گیا۔
اب سائنس کی باری تھی۔

اسمتھ نے آکسیجن کے چند کنستر اپنے تھیلے سے نکالے۔ ایک اوزار نکالا جو ڈیڑھ فٹ لمبے اور آدھ انچ قطر کے دو سلنڈرز پر مشتمل تھا اور دونوں کے آگے ربڑ کی ٹیوب لگی تھی۔
اس نے ایک کو بینک کی گیس کی سپلائی سے لگایا جہاں سے میتھین (سوئی گیس) آرہی تھی۔ دوسرے کو آکسیجن کے کنستر سے لگایا، اور تھیلے سے ماچس کی ڈبی نکالی۔

اب اس کے پاس وہ چیز تھی جس سے کاٹا جا سکتا تھا۔
اس نے توجہ لوہے کے والٹ کی طرف کر لی۔

٭…٭
اِس جرم کی بنیاد اس سے پہلے کئی کیمسٹ نادانستہ طور پر رکھ چکے تھے۔ وہ اس بات کی وضاحت کر چکے تھے کہ جلنے کا عمل کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟ اور سب سے اہم یہ کہ یہ دریافت کر چکے تھے کہ جلنے کے لیے تین چیزیں: ایندھن، توانائی اور آکسیڈائزر کی ضرورت ہوتی ہے۔

آکسیڈائزر دراصل اشیا سے الیکٹران چرا لیتا ہے۔ یہ اہم اس لیے ہے کہ الیکٹران ہر کیمیائی ری ایکشن کو چلاتے ہیں۔ آکسیجن اِس کام میں بہترین ہے۔ جب یہ میتھین کے ساتھ کیا جاتا ہے تو میتھین غیرمستحکم ہو جاتی ہے۔ یہ دونوں مل کر فٹافٹ ری ایکشن کی لڑی شروع کر دیتے ہیں جس سے آکسائیڈ بنتے ہیں۔
یہ ری ایکشن ہم روزانہ اپنے گھر کے چولھے میں دیکھتے ہیں۔ اس ری ایکشن کو شروع کرنے کے لیے ابتدائی توانائی ماچس جلانے سے آ جاتی ہے اور ایک بار آکسیجن کا حملہ شروع ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ حرارت آزاد ہونے لگتی ہے اور جلنے کا یہ عمل جاری رہتا ہے۔

اسمتھ کو اسے ایک قدم آگے لے کر جانا تھا۔ میتھین کا شعلہ تو جل پڑا تھا۔ اسے لوہے کے والٹ کو کاٹنا تھا۔
٭…٭

لاؤسیے نے ۱۷۷۶ء میں لوہے کی ایک بہت دلچسپ خاصیت دریافت کی تھی۔ تمام دھاتیں کسی درجہ حرارت پر پگھل جاتی ہیں۔ اور اس سے زیادہ کسی درجہ حرارت پر جل جاتی ہیں۔ (جلنے کا مطلب یہ کہ دھات ایندھن کے طور پر استعمال ہو رہی ہے)۔ عام دھاتوں میں جلنے کا درجہ حرارت پگھلنے سے زیادہ ہوتا ہے لیکن لوہے میں یہ الٹ ہے، اور اس کا ایک غیرمتوقع نتیجہ ہے۔
یہ ہزار ڈگری سینٹی گریڈ پر جل جاتا ہے جبکہ پندرہ سو ڈگری پر پگھلتا ہے۔ اگر اس کے ایک حصے کو ۱۰۰۰ ڈگری سے اوپر لے جایا جائے تو اس سے خارج ہونے والی حرارت آس پاس کے لوہے کو ۱۵۰۰ ڈگری سے اوپر لے جائے گی اور اسے پگھلا دے گی۔ یعنی اس چین ری ایکشن کی وجہ سے مفت کے ہزار ڈگری مل جائیں گے۔ تھوڑا سا جلانے سے بہت سارا لوہا پگھل جائے گا۔

٭…٭
یہ وہ ری ایکشن تھا جس سے وہ ٹارچ کٹر ایجاد ہوا تھا جو تھامس فلیچر نے ۱۸۸۸ء میں کیا تھا اور جسے آج ہم عام استعمال میں دیکھتے ہیں۔ تھامس فلیچر نے اس کا مظاہرہ انہی دنوں ایک تجارتی نمائش میں کیا تھا۔ نمائش سے اس آلے کو فروخت کرنے میں تو کچھ زیادہ کامیابی نہیں ملی لیکن اسمتھ کو اس کی بھنک پڑ گئی تھی، اور آج وہ اسی ایجاد کو استعمال کرنے کے لیے آکسیجن کے تین کنستر لے کر تہہ خانے میں اترا تھا۔

رات ڈیڑھ بجے تک آکسیجن کا تیسرا کنستر استعمال ہو چکا تھا کچھ ہی دیر میں دھات کی اتنی بڑی مستطیل کٹ گئی کہ اسمتھ اندر جا سکتا تھا۔
٭…٭

اندر جاتے ہوئے اسمتھ توقع کر رہا تھا کہ اس کی انگلیاں کرنسی نوٹوں کی نرمی سے ٹکرائیں گی لیکن غیر متوقع طور پر اس کی ملاقات آگے بھی سرد اور سخت دھات سے ہوئی۔
جی ہاں! والٹ میں لوہے کی دو تہیں تھیں…!

مایوس اسمتھ واپس رسی پر چڑھ کر کمرے میں پہنچا اور رات دو بجے سامان لے کر ہوٹل سے نکل گیا۔ اسے پھر کبھی نہیں دیکھا گیا۔
٭…٭

اِس ناکام جرم میں اسمتھ کی ساتھی آکسیجن تھی۔ یہ اربوں سال سے زمین پر قسم قسم کے ری ایکشن کرتی آ رہی ہے۔ فضا میں بھی اور جانداروں کے جسموں میں بھی، اور اس نے زمین پر انقلاب برپا کیا ہے۔
٭٭٭