Jungle Graphics

قدرت کا سبق

جاوید بسام

بہت دور جنگل میں ایک دن خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ہوا بالکل بند تھی۔ درختوں کے پتے ہل رہے تھے نہ جھاڑیاں۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اور مینڈکوں کی ٹرٹر بھی سنائی نہ دیتی تھی۔

شام تک آسمان گہرے بادلوں سے ڈھک گیا اور جلد ہی اندھیرا ہوگیا۔ جنگل کے درمیان سرخ چیونٹیوں کا ایک بڑا بل بھی تھا۔ وہ دور سے ایک چھوٹے ٹیلے جیسا لگتا تھا۔ اس میں کئی راستے تھے۔ جن میں سارا دن چیونٹیاں آتی جاتی نظر آتی تھیں۔ بل کے اندر اُن کا پورا شہر آباد تھا۔ جہاں وہ رہتیں اور سردیوں کے لیے اپنی خوراک جمع کرتی تھیں۔

اس دن موسم کے تیور دیکھ کر تمام چیونٹیاں اپنے بل میں چلی گئیں اور راستے بند کرلیے۔ رات ہوئی تو بہت سخت طوفان آیا۔ ساری رات بادل گرجتے اور بجلی چمکتی رہی۔ آسمان سے اتنا پانی برسا کہ ندی اپنے کناروں سے باہر آگئی۔ چیونٹیوں کا بل ندی کے قریب ہی تھا۔ پانی کا ایک تیز ریلا اسے بہا کر لے گیا۔ بہت ساری چیونٹیاں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں، جو بچیں اُن کا بہت برا حال تھا۔ ان کا بل بھی تباہ ہوگیا تھا اور مہینوں کی جمع کردہ خوراک بھی ضائع ہوگئی تھی۔

اگلے دن صبح بادل چھٹ گئے اور سورج نمودار ہوا۔ جونہی وسیع جنگل میں روشنی پھیلی تمام پرندے اور جانور اپنی پناہ گاہوں سے باہر آنے لگے۔ انھوں نے دیکھا ہر طرف تباہی پھیلی ہوئی ہے۔ کہیں گرے ہوئے درخت تھے تو کہیں جھاڑیاں، اور پانی تو جگہ جگہ کھڑا تھا۔ جنگل میں رہنے والے تمام جانور، پرندے، اور کیڑے مکوڑے اس شدید طوفان سے متاثر ہوئے تھے۔ جو چیونٹیاں پانی سے بچ گئی تھیں، وہ اپنی ساتھیوں اور تباہ حال گھر کو دیکھ کر بہت افسردہ تھیں۔ ان کا شاندار گھر اب رہنے کے قابل نہیں رہا تھا۔

ملکہ اس طوفان میں محفوظ رہی تھی۔ اس نے جلد ہی اپنے غم پر قابو پا کر کام سنبھال لیا اور کارکنان کو نیا بل بنانے کا حکم دے دیا۔

تمام چیونٹیاں فوراً کام میں لگ گئیں۔ اس بار انھوں نے بل بنانے کے لیے ایک اونچے ٹیلے کا انتخاب کیا تھا۔ وہ بہت دل جمعی اور محنت سے اپنا کام کر رہی تھیں۔ البتہ ان میں سے ایک چیونٹی بہت زیادہ افسردہ تھی۔ وہ ساری رات پانی میں بھیگی تھی اور بہت تھک چکی تھی۔ دوپہر تک وہ بل بناتی رہیں پھر ملکہ نے کام روکنے کا حکم دیا۔ اب کھانے کا وقت ہوگیا تھا۔ ان کی خوراک کا کچھ ذخیرہ جو ضائع ہونے سے بچ گیا تھا۔ انھوں نے تھوڑا تھوڑا بانٹ کر کھایا، پھر ملکہ نے حکم دیا کہ اب سب چیونٹیاں خوراک کی تلاش میں نکل جائیں۔

یہ سن کر وہ چیونٹی پریشان ہوگئی، کیوں کہ اس کا تھکن سے برا حال تھا، لیکن ملکہ کا حکم پورا کرنا بھی ضروری تھا۔ آخر وہ رینگتی ہوئی ایک طرف چل دی۔وہ اپنے اردگرد کے پورے جنگل سے واقف تھی۔ ہر درخت، ہر پودے، ہر جھاڑی پر وہ آسانی سے چڑھ جاتی اور ہر راستے پر سہولت سے چل لیتی تھی، لیکن آج سب کچھ بکھر چکا تھا اسے رینگنے میں مشکل ہورہی تھی۔ راستہ بہت خراب تھا۔ زمین پر ہر طرف جھاڑ جھنکاڑ، پودے اور ٹہنیاں پڑی تھی، جگہ جگہ کیچڑ بھی تھی، چلتے چلتے اچانک اسے ٹھوکر لگی اور وہ پانی میں جاگری۔ آخر بڑی مشکل سے ہاتھ پاؤں مارتی باہر آئی اور آگے بڑھی، پھر ایک جگہ اس کا پیر پھسل گیا اور وہ دور تک لڑھکتی چلی گئی۔ اسے بہت چوٹ آئی تھی، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور اٹھ کر چل دی۔

کچھ دور چلنے کے بعد اسے ایک بھنورا نظر آیا جو مزے سے اِدھر اُدھر اڑ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ دور نکل گیا۔ چیونٹی کو خیال آیا کہ یہ کتنی آسانی سے اڑ رہا ہے اور مجھے دیکھو دو قدم چلنا مشکل ہورہا ہے۔

پھر نیم کے درخت کے نیچے اسے ایک مکڑی دکھائی دی جو اپنی بڑی بڑی ٹانگوں سے تیزی سے چلی جارہی تھی۔ وہ بھی کھانے کی تلاش میں نکلی تھی۔

چیونٹی نے آہ بھری اور بڑبڑائی: ’’مجھ سے اچھی تو اس کی ٹانگیں ہیں۔ کیسے مزے سے بھاگی جا رہی ہے۔‘‘

کچھ آگے بڑھنے کے بعد جھاڑیوں میں اسے ایک موٹا تیتر کچھ تلاش کرتا نظر آیا۔ وہ بھی مزے سے چل رہا تھا۔

’’لو یہ بھی آرام سے چل رہا ہے اور ایک میں ہوں کہ قدم اٹھانا دوبھر ہورہا ہے۔‘‘

چیونٹی نے سوچا۔ خیر وہ چلتی رہی، تھوڑی دور چل کر سفیدے کے جھنڈ کے قریب ایک گھنی دُم والی لومڑی اسے زمین پر کچھ سونگھتی نظر آئی۔ وہ بھی کھانے کو کچھ تلاش کررہی تھی۔

چیونٹی کو خیال آیا۔ ’’واہ کیسی مضبوط اور بڑی ٹانگیں ہیں، مزے سے گھوم رہی ہے اور ایک میں ہوں اتنی دیر میں اتنا سا فاصلہ طے کیا ہے۔‘‘

سرخ چیونٹی مایوسی سے آہیں بڑھتی دوسروں کو برتر اور خود کو کمتر سمجھتی آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک لکڑیاں چٹخنے کی آواز آئی اور لگا کہ کوئی چیز اوپر سے گر رہی ہے۔
وہ گھبرا کر بھاگی، لیکن اس کے پیر بہت چھوٹے چھوٹے تھے، وہ دور نہ جاسکی اور یکدم اندھیرے میں ڈوب گئی۔

اس نے سوچا، لو میرا خاتمہ ہوگیا۔ وہ صدمے سے ساکت پڑی تھی۔ جب کچھ دیر بعد اس نے ہلنے جلنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ وہ تو بالکل ٹھیک ہے۔ وہ رینگتی ہوئی اندھیرے سے باہر نکلی تو دیکھا ایک درخت گرا ہے اور وہ ایک پتے کے نیچے دبی ہوئی تھی۔ اس درخت پر بہت مزیدار پھلیاں لگتی تھیں جو سب چیونٹیاں بڑے شوق سے کھاتی تھیں۔
وہ بہت خوش ہوئی۔ اس نے ایک پھلی کو منہ میں دبایا اور کھینچتے ہوئے اپنے نئے بل کی طرف چل دی۔

وہ سوچ رہی تھی کہ میں واپس جاکر دوسری چیونٹیوں کو بھی بتاتی ہوں کہ یہاں بہت خوراک موجود ہے۔جب وہ گھوم کر درخت کے دوسری
طرف آئی تو اس کی نظر لومڑی پر پڑی جو بد قسمتی سے اس درخت کی زد میں آکر ہلاک ہوگئی تھی۔

اس نے ایک آہ بھری اور ساتھ ہی اللہ کا شکر ادا کیا۔

وہ سمجھ گئی تھی کہ خالق کل کائنات کی ہر بات میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ وہ اتنے بھاری درخت کے نیچے آنے کے باوجود صرف اپنی چھوٹی جسامت کی وجہ سے بچ گئی تھی۔ اگر وہ زرا بھی بڑی ہوتی تو درخت کے نیچے کچل کر ماری جاتی۔ اسے خیال آیا کہ کارخانہِ قدرت میں ہر ذی روح کی الگ الگ حیثیت ہے۔ اگر کوئی اپنی طاقت اور صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے استعمال کررہا ہے تو چھوٹا اور کمزور ہونا بھی برا نہیں ہے۔
٭٭٭

مستقبل کے خواب

ایک درخت تلے دو بچے اک دوجے کے ساتھ مستقبل کے خواب بُن رہے تھے۔
ایک بولا:

’’میں بڑے ہو کر اپنے باپ کی طرح سپاہی بنوں گا۔ اسی کی طرح جان کی بازی لگادوں گا۔

تاکہ میری ماں مجھے پہلے سے بڑھ کے چاہے۔‘‘

دوسرے نے کہا:
’’میں لکھاری بنوں گا۔تاکہ تم پہ لکھ سکوں۔اور مزید پچاس مائیں تجھے چاہیں۔ تجھ سے محبت کریں۔‘‘

(عربی سے اردو قالب: نجمہ ثاقب)
٭٭٭