Taekando Graphics

ہمت کا پہاڑ (۱۲)

Photo : FreePik

وہ شخص ہمت اور حوصلے کا پہاڑ تھا۔اس کی زندگی کامقصد پاکستان کے نوجوانوں کو مضبوط بناناتھا۔دینی مدرسے کا ایک طالب علم اتفاق سے اُس تک جاپہنچا، یوں شوق،لگن،جدو جہد اور عزم کے رنگین جذبوں سے سجی داستان زیبِ قرطاس ہوئی!
ایک ایسے شخص کا تذکرہ جو دولت پر فن کو ترجیح دیتا تھا…!

راوی: سیہان انعام اللہ خان مرحوم
تحریر:رشید احمد منیب

میں پہلے کہیں بتاچکا ہوں کہ میرے استاد سوسائی ماس اویا ما کیوکشن اسٹائل کے بانی اور مارشل آرٹ کے بڑے ماہرین میں سے تھے۔ میں مارشل آرٹ کے شوق میں پوری دنیا گھوم چکا ہوں، لیکن میں نے سوسائی اویاما سے بڑا ماسٹر اور فائٹر نہیں دیکھا۔ جب اُن کی کلاس کا آغاز ہوتا تھا تو سب شاگرد قعدے جیسے انداز میں بیٹھ کر استاد کو تعظیمی سجدہ کرتے تھے یعنی بیٹھے بیٹھے اس کے سامنے رکوع کی طرح مکمل جھک جاتے تھے، لیکن میں اُن کے سامنے گردن نہیں جھکاتا تھا۔
پہلے پہل تو انھوں نے نظرانداز کیا، پھر وہ مجھے آنکھ سے اشارہ کرتے کہ جھک جاؤ، لیکن میں کیسے جھک سکتا تھا؟ میں نے زندگی میں اپنے رب کے سوا کسی کے سامنے سر نہیں جھکایا تھا۔ اس لیے میں اکڑ کر بیٹھا رہتاتھا، کچھ دنوں تک تو وہ مجھے آنکھ سے اشارہ کرتے رہے، جب میں نے انھیں نظر اندازکردیا تو ایک دن کلاس کے بعد انھوں نے مجھے بلوا لیا او ر کہنے لگے:

’’مسٹر آئی خان! سب لڑکے ’’با‘‘ (تعظیمی طور پر جھکنا) کرتے ہیں، تم کیوں نہیں جھکتے؟‘‘

میں نے کہا: ’’سوسائی! یہ میرے مذہب میں ممنوع ہے۔‘‘
اس نے حیران ہو کر کہا کہ کلاس میں مذہب کا سوال کہاں سے آگیا؟ ہم کوئی مذہبی کام تو نہیں کررہے، یہ مارشل آرٹ ہے اور یہ میری کلاس ہے، یہاں کا اصول ہے کہ استاد کے سامنے تعظیمی طور پر سر کو جھکانا ہوتاہے۔‘‘

میں نے کہا کہ سر! ہمارا مذہب ہر جگہ اور ہر وقت ہمارے ساتھ ہوتاہے۔ ہم اسے کبھی اور کسی حال میں نہیں چھوڑ سکتے۔ میرے مذہب نے مجھے آپ کا ادب اور احترام کرنے کا کہا ہے لیکن مجھے سر جھکانے سے منع کیاہے۔ ہم مسلمان صرف اپنے رب کے سامنے ہی سر جھکاتے ہیں۔‘‘

یہ سن کر انھیں کچھ خفگی بھی ہوئی اور وہ حیران بھی ہوئے، کہنے لگے: ’’تم شکل سے تو بنیاد پرست نہیں لگتے، یہ باتیں تم نے کہاں سے سیکھیں؟‘‘

سوسائی کو یہ سمجھانا مشکل تھا کہ میں نے تو یہ باتیں ماں کی گود سے سیکھ رکھی تھیں۔ میں تو اسکول میں بھی استادوں کے سامنے ان کے تمام تر ادب کے باوجود گردن نہیں جھکاتا تھا۔

میں نے کہا، میں عملی طور پر بہت اچھا مسلمان نہیں ہوں، لیکن سر جھکانے والا مسئلہ تو ہر مسلمان کے لیے اہم ہے۔
یہ سن کر اس نے کہا کہ یہاں کلاس میں دوسرے مسلمان لڑکے بھی تو ہیں، سعودی شاہی خاندان کے بھی تو تین لڑکے موجود ہیں، وہ سب سرجھکاتے ہیں، کیا تم اُن سے بہتر مسلمان ہو؟

میں نے کہا: ’’سوسائی! یہ بات تو مجھے معلوم نہیں کہ میں بہتر مسلمان ہوں یا وہ؟ لیکن میں جس قسم کا مسلمان ہوں، وہ کسی کے سامنے سر نہیں جھکا سکتا۔‘‘
یہ سن کر اُس نے مجھے کہا کہ پھر تم کلاس میں کسی ایسے لڑکے کے پیچھے بیٹھا کرو جس کی وجہ سے تم میری نظروں میں براہِ راست نہ آؤ تو میں تمھیں نظر انداز کردیا کروں گا لیکن یہ بات دوسروں کو مت بتانا۔

سوسائی ایک اچھے انسان تھے، کاش وہ مسلمان ہوجاتے۔ ایک مرتبہ میں نے انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت بھی دی جس پر خفا ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہاں مذہب کی باتیں نہ کرو، یہاں سب لوگ میری اولاد کی طرح ہیں اور میں اُن سب کا بڑا ہوں، پھر انھوں نے ناراض ہوکر مجھے کلب چھوڑنے کا حکم دے دیا۔
میں کلب چھوڑ کر چلا گیا اور دوسرے کلب میں سیکھنے لگا، لیکن انھیں تجسس تھا کہ میں کیا کررہا ہوں؟ وقت تو ضائع نہیں کررہا۔ اُن کا ایک خاص شاگرد میری جاسوسی کے لیے آتا تھا۔ میں نے بھانپ لیا کہ یہ میری جاسوسی کررہاہے۔ میں نے مزید محنت سے مارشل آرٹ کی مشق شروع کردی۔

جاسوس نے سوسائی کو بتایا کہ آئی خان تو بہت محنت کررہا ہے۔ سوسائی محنتی شاگردوں کی بہت قدر کرتے تھے۔ انھوں نے مجھے بلوا لیا، کہنے لگے تم میرے بیٹے ہو، میرے شاگرد ہو، مجھے بہت پسند ہو، مجھے ’’با‘‘ بھی نہیں کرتے لیکن میں تمھیں کچھ نہیں کہتا، بس مجھ سے مذہب کی باتیں مت کرو اور بس مارشل آرٹ پر توجہ دو۔‘‘

سوسائی کا انتقال ہوا تو اس وقت میں پاکستان میں تھا۔ اُن کے انتقال کی خبر سے مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔ کاش وہ مسلمان ہوجاتے۔ جب مجھے ان کے انتقال کی خبر پہنچی تو میں رو رہا تھا۔ میرے ایک دوست کہنے لگے، اللہ انھیں جنت نصیب کرے۔ یہ سن کر میں روتے ہوئے ہنس پڑا کہ میں تو رو ہی اسی لیے رہا ہوں کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے اور یہ انھیں جنت بھیج رہاہے۔

ایک مرتبہ میں اپنے کلب کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ مجھے پی اے نے بتایا کہ سندھ کے ایک صوبائی وزیر جن کے نام کے ساتھ مورت لگتا تھا، آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

میں نے کہا کہ بات کروا دو۔
وہ صوبائی وزیر نہیں اس کا کوئی سیکرٹری تھا۔ وہ کہنے لگا کہ وزیر صاحب آپ کو دفتر میں بلوا رہے ہیں تو آپ کے لیے ابھی گاڑی بھیج دی جائے؟

میں نے جواب دیا کہ آپ اس بندے کا نام بتائیں جس نے یہ کہا کہ ہو کہ انعام اللہ خان آپ کے دفتر آجائے گا۔
یہ سن کر وہ کچھ حیران ہوا اور کہنے لگا، کیا مطلب؟

میں نے کہا کہ آپ نے مجھ سے تو یہ نہیں پوچھا کہ آپ دفتر آسکتے ہیں یا نہیں؟ براہِ راست گاڑی بھیجنے کی بات کردی، اس لیے میں پہلے اس آدمی کی طبیعت درست کرنا چاہتا ہوں جس نے آپ کو یہ بتایا کہ انعام اللہ خان آپ کے ایک فون پر دفتر حاضر ہوجائے گا۔
اس نے حیرت بھرے لہجے میں کہا:

’’تو کیاآپ وزیر صاحب کے بلوانے پر نہیں آرہے؟‘‘
میں نے جواب دیا کہ جب مجھے ضرورت ہوگی تو میں آؤں گا، لیکن فی الحال مجھے کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی آپ نے بتایا ہے کہ وہ مجھے کس سلسلے میں بلا رہے ہیں لہٰذا اس طرح میں نہیں آسکتا۔‘‘

دراصل مجھے اس بندے کے بات کرنے کا انداز اچھا نہیں لگا تھا، یوں لگتا تھا جیسے میں وزیر سے ملنے کی تمنا رکھتا ہوں اور جونہی مجھے معلوم ہوگا کہ مجھے وزیر نے بلایا ہے تو میں اپنے سارے کام چھوڑ کر سر کے بل دوڑتا ہوا وزیر کے سامنے حاضر ہوجاؤں گا۔
کچھ دیر بعد مجھے اطلاع ملی کہ وزیر صاحب نے کہا ہے کہ ہم خود اُن کے دفتر آرہے ہیں، ان سے کہیں کہ وہ دفتر ہی میں ٹھہریں۔ مجھے تو ویسے بھی دفتر میں بیٹھنا تھا، اِس لیے میں رکا رہا۔ کچھ ہی دیر بعد ہمارے کلب کو پولیس کی گاڑیوں نے گھیر لیا، پھر چند افسران کلب میں داخل ہو ئے۔ انھوں نے اندر کی صورت ِحال دیکھی اور پھر وزیر صاحب کو مطلع کیا۔

وزیر صاحب لشتم پشتم چند محافظوں کے گھیرے میں اندر آگئے۔ میں اپنے دفتر میں بیٹھا اپنا کام کرتا رہا۔ وزیر صاحب دفتر میں داخل ہوئے تو میں نے انھیں کرسی پیش کی۔
کہنے لگا، آپ کا بڑا نام سنا ہے، ایک کام تھا، آپ نہیں آئے تو میں ہی آگیا آپ کے پاس۔

میں نے جواب دیا کہ نوازش آپ کی، لیکن آپ کا کام تھا تو آپ ہی کو آنا چاہیے تھا، میرا کوئی کام ہوتا تو میں آپ کی خدمت میں آتا۔‘‘
انھیں اس صاف جواب کی امید نہیں تھی۔ کہنے لگے اچھا،میں ذرا جلدی میں ہوں، آپ سے کام یہ تھا کہ میری ایک بیٹی ہے،جسے میں مارشل آرٹ سکھانا چاہتا ہوں تو آپ میرے گھر آکر اسے مارشل آرٹ سکھائیے۔ آپ کی جو بھی فیس ہوگی، ادا کردی جائے گی تو اب آپ اپنی فیس بتادیں۔

میں نے جواب دیا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ فن میں نے خدمت کے لیے اور سکھانے کے لیے سیکھا ہے۔ پیسہ کمانے کے تو اور بھی بہت سے طریقے ہوسکتے تھے۔ ہم بہت معمولی سی فیس لیتے ہیں تاکہ ہمارا کام چلتا رہے، اس لیے میں کسی کے گھر جاکر یہ فن نہیں سکھاتا، جسے سیکھنا ہے یہاں آئے اور سیکھ لے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ کی بیٹی میرے لیے اپنی بیٹیوں کی طرح ہی ہے لیکن میں لڑکیوں کو خواتین کے ذریعے سکھاتاہوں، خود نہیں سکھاتا اس لیے میں آپ کی بیٹی کو نہیں سکھا سکتا۔

وہ اس پر کافی ناراض بھی ہوئے، بھاری فیس کی پیشکش بھی کی، حکومت کی طرف سے کلب کو مراعات کا دینے کا وعدہ بھی کیا لیکن میں نے اُن کی بات نہیں مانی۔ ناراض ہو کر چلے گئے اور جاتے ہوئے دھمکی دی کہ تمھیں دیکھ لوں گا۔ میں نے کہا کہ ابھی سامنے بیٹھا ہوں، اچھی طرح دیکھ لیں۔ میں نے انھیں بتادیا کہ میں اس فن کی توہین قبول نہیں کروں گا۔ (جاری ہے)

٭٭٭