News Studio Graphics

نیوز چینل

Photo : FreePik

محمد شاہد فاروق۔ پھلور

مولانا محمد اشرف صاحب آف حاصل پور کے خصوصی شکریے کے ساتھ ہم تمام قارئین کو ایک بار پھر سلام عرض کرتے ہیں اور نیوز چینل کا ایک اور پروگرام پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں۔

بچوں کا اسلام سے وابستہ ہونے والے نئے قارئین کو ہم بتاتے چلیں کہ غیر حاضر دماغ نمائندے کی طرف سے آئی ایم ایف کی طرح کڑی شرائط کے مطالبے کی وجہ سے یہ خبری سلسلہ معطل کردیا گیا تھا مگر مولانا محمد اشرف صاحب کی خواہش پر غیر حاضر دماغ نمائندے کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے خبروں کی پہلی قسط جاری کر دی گئی ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کراچی کے عوام پر قدرت مہربان ہوگئی ہے اور ان کے لیے پانی کا مسئلہ حل ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کراچی کے عوام کے لیے مسئلہ کشمیر کی طرح پانی کا گھمبیر مسئلہ حل ہونے کی امید اس وقت پیدا ہوئی جب مدیر بچوں کا اسلام نے ایک ایسا عمدہ سرورق بنوایا جسے دیکھتے ہی ایمن بنت طارق حسین آف اورنگی ٹاؤن کراچی کے منہ میں پانی آگیا۔ غیر حاضر دماغ نمائندے کی رپورٹ کے مطابق ایمن صاحبہ کے منہ میں اس وقت مد و جذر کی کیفیت عروج پر ہے اور پانی کی لہریں منہ کے ساحل سے ٹکرا کر واپس حلق کی طرف لوٹ رہی ہیں۔ تاہم چند لہریں ساحل سے باہر تک بھی پہنچ رہی ہیں۔ غیر حاضر دماغ نمائندے کا کہنا ہے کہ کراچی انتظامیہ قدرت کے اس کرشمے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر میں پانی کی قلت پر قابو پا سکتی ہے۔

ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ محمد اقراش عاصم آف خوشاب نے بچوں کا لکھاری حضرات کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ تفصیلات کے مطابق پہلے کافی عرصے سے آمنے سامنے کے میدان میں محمد اقراش عاصم صاحب کی قلمی کارروائیاں جاری تھیں تاہم یہ کارروائیاں خطوط کی حد تک محدود تھیں مگر حال ہی میں انھوں نے بچوں کا اسلام کے دیگر صفحات پر قبضے کے لیے پیش رفت شروع کردی اور اچانک ایک مضمون ’میرا سوہنا شہر خوشاب‘ داغ دیا جو ٹھیک نشانے پر لگا اور وہ بچوں کا اسلام کے دو وسطی صفحوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ غیر حاضر دماغ نمائندے کی رپورٹ کے مطابق اس کارروائی میں ’’اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں‘‘ کے مصداق انھیں مدیر صاحب کی آشیرباد حاصل تھی۔ مدیر صاحب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس قسم کی حوصلہ افزائی اقراش صاحب کو ’دستک‘ پر قبضے کے بارے میں سوچنے پر بھی مجبور کرسکتی ہے۔

ایک اہم ترین خبر یہ ہے کہ طیبہ راؤ آف علی پور مظفر گڑھ کے ستارے گردش میں آگئے ہیں اور انھیں اپنے حفاظتی اقدامات سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ تفصیلات کے مطابق طیبہ راؤ صاحبہ نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر ازکیٰ رانی کی خبر شائع ہوئی تو وہ انھیں کھا جائے گی۔ غیر حاضر دماغ نمائندے کا خیال ہے کہ ازکیٰ رانی روسٹ یا قورمہ بنانے کا تردد نہیں کرے گی بلکہ انھیں کچا چبا جائے گی۔ مدیر صاحب نے طیبہ صاحبہ کی جان کی پروا کیے بغیر ازکیٰ رانی کی خبر شائع کرکے انھیں موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ یہ خبر جلتی پر تیل کا کام کرسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ازکیٰ رانی نے اپنے ہاتھوں کو غصے سے پنجوں کی شکل دے کر حملے کی مکمل تیاری کرلی ہو۔ غیر حاضر دماغ نمائندے کا کہنا ہے کہ طیبہ صاحبہ کو اپنی جان بچانے کے لیے فوری طورپر ازکیٰ رانی کے ’چسکا فنڈ‘ میں اضافے کا اعلان کردینا چاہیے، کیونکہ ’’جان ہے تو جہان ہے!‘‘

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق رملہ فرحان آف حیدرآباد نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سنگدلی کی تمام حدیں پار کردیں۔ تفصیلات کے مطابق رملہ صاحبہ نے ’تفنن‘ کو بنا کسی قصور اور غلطی کے اچانک برطرف کردیا۔ رملہ صاحبہ کے اس فیصلے پر ’تفنن‘ اس وقت سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہے اور انتہائی رنجیدہ نظر آرہا ہے۔ غیر حاضر دماغ نمائندے سے بات کرتے ہوئے ’تفنن‘ نے شکایت بھرے لہجے میں کہا کہ رملہ صاحبہ نے سنجیدگی کو نوازنے کے لیے مجھے برطرف کیا ہے۔ ان کے اس فیصلے سے میری بہنوں ’’مسکراہٹ، ہنسی اور خوشی‘‘ کا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے۔ رملہ صاحبہ کو چاہیے کہ مسکراہٹ، ہنسی اور خوشی کے بہتر مستقبل کے لیے مجھے فوری طورپر بحال کریں۔

موسم:

ہمارے محکمہ موسمیات کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پورے ملک میں مہنگائی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ رمضان المبارک میں آنے والے مہنگائی کا طوفان اور اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی شدید ژالہ باری عوام کی جمع پونجی تنکوں کی طرح بہا کر لے گئی ہے۔ یہ طوفان اس قدر شدید تھا کہ نشیبی آمدن والے عوام فاقوں کے سمندر میں جا گرے، جبکہ وسطی آمدن والی عوام ادھار کے شامیانوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں، البتہ بالائی آمدن والی عوام مہنگائی کے اس موسم سے خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

موسم کی اس رپورٹ کے ساتھ ہی غیر حاضر دماغ نمائندے کو اپنی رپورٹنگ ٹیم سمیت اجازت دیجیے، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ!

٭٭٭

میرا نام نا لینا !

زوجہ عبدالوحید شہزاد

بادلوں کی گرج اور پھر تیز بارش کی آواز جو ہمارے کانوں سے ٹکرائی تو گرمیوں کی چھٹیوں کا کام لکھتے ہوئے بےاختیار ہم نے سر اٹھا کر منیب بھائی (جو تقریباً ہمارا ہم عمر ہی ہے) کو دیکھا جو اب اپنا کام بھول کر کھڑکی سے باہر چھما چھم برستی بارش اور بارش میں کھیلتے اپنے دوستوں کو دیکھ رہا تھا۔

زاویہ نگاہ بدل کر ہم نے چھوٹے بھائی حبیب کی طرف دیکھا جو اردگرد سے بے نیاز اپنی الف بے لکھنے میں مصروف تھا۔

منیب بھائی اور ہماری نگاہیں ٹکرائیں جن میں بے تابی تھی…لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ ہمارے پڑھنے کا وقت تھا اور اِس وقت میں بارش میں نہانے کی اجازت امی سے ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن لگ رہا تھا۔ امی سے اجازت مانگنے کا مطلب تھا ڈانٹ کھانا…لہٰذا کچھ دیر تو ہم چپکے بیٹھے رہے پھر جب دل بہت ہی اکسانے لگا تو ہم نے حبیب بھائی کو تختۂ مشق بنانے کی ٹھانی۔

’’حبیب!‘‘ ہم نے بڑی محبت سے اسے پکارا۔

’’ہمم۔‘‘ پنسل چلانا جاری رکھ کر اس نے صرف ہمم کہنے پر ہی اکتفا کیا۔

’’حبیب! تمھارا بارش میں نہانے کا دل نہیں کر رہا؟‘‘

اب ہم اسی کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانے لگے تھے۔

’’کر تو رہا ہے۔‘‘ اس نے اپنی معصوم سی آنکھیں پٹپٹائیں اور سوالیہ نگاہوں سے ہمیں دیکھنے لگا۔
’’جاؤ پھر امی سے پوچھ کے آؤ کہ امی ہم بارش میں نہا لیں؟‘‘

’’پوچھ کر آتا ہوں۔‘‘
جھٹ سے کاپی بند کر کے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

’’ٹھہرو تو، صرف اپنا نہ پوچھ آنا اب، ایسے پوچھنا ہے کہ امی ’ہم‘ بارش میں نہا لیں؟‘‘
’’ اچھا…ٹھیک ہے۔‘‘

وہ کمرے کے دروازے تک پہنچ گیا۔
’’میرا نام نا لینا اچھا…!‘‘

ہم نے پیچھے سے ہانک لگائی۔
اس کے بعد ہم کمرے کے دروازے پر کان لگا کر کھڑے ہو گئے ایک موہوم سی آس لے کر کہ شاید امی اجازت دے ہی دیں۔

ہم تصور ہی تصور میں چھم چھم برستی بارش میں کشتیاں چلانے لگے۔ حتیٰ کہ ان کو ڈبو بھی چکے تھے کہ باہر سے حبیب کی آواز آئی:
’’امی! ہم ( زور دے کے) بارش میں نہا لیں؟ میرا نام نہ لینا…اچھا!‘‘

’’اوہ…!‘‘ہم نے حقیقتاً اپنا سر ہی پیٹ ڈالا۔
اور پھر آستین چڑھا کر اسے سبق سکھانے کے ارادے سے اس کے واپس آنے کا انتظار کرنے لگے۔ کافی دیر بعد بھی جب اس کا ورود نا ہوا تو دروازے سے جھانک کر دیکھا۔ وہ امی کی گود میں بیٹھا تھا اور امی ہنستے ہوئے چٹا چٹ اس کے بوسے لے رہی تھیں۔

ہم ہونق بنے کھلے منہ سے یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ امی کی نگاہ ہم پر پڑی۔ مسکراتے ہوئے امی نے ہمیں اپنے پاس بلایا… اور کچھ دیر بعد ہم تصور میں نہیں بلکہ حقیقت میں بارش میں کشتیاں چلا رہے تھے۔
٭٭٭