Talwar Graphic

یہ معاملہ کوئی اور ہے!

اوّاب شاکر۔ اسلام آباد

عجیب سرپھرا نوجوان تھا…!
لوگوں میں چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔ ساری زندگی اپنے ماں باپ کی خدمت میں، فرماں برداری میں جتا رہا۔ زبان سے نکلا ہر حرف سن کر بجا آوری کو دوڑتا، مگر آج نجانے کیا ہوا کہ انکار پر اڑ بیٹھا۔

’’نہیں… ایسا نہیں ہوسکتا!‘‘
باپ خود حیران تھا۔ یہ خُو اس کی پہلے نہ تھی۔ وہ تو سراپا حسنِ اخلاق اور تابعداری کی روشن مثال تھا۔ وہ تو اسم بامسمیٰ تھا۔ سعد نام تھا اور سعادت مند! باپ کا نام خیثمہ تھا۔ انصار کے قبیلے سے تعلق تھا۔

بچے کی عادت و اطوار تو شروع ہی سے دامن کو کھینچنے والی تھیں مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں گردن جھکانے کے بعد تو زندگی کا ہر گوشہ نور علیٰ نور ہوگیا تھا۔
وہ اپنے باپ اور خاندان سمیت سعادت و سرخروئی کی ’’صراطِ مستقیم‘‘ کا مسافر بنا تھا۔ ایمان کی مہک سے بھری زندگی، اللہ تعالیٰ کی رضا میں سرگرداں زندگی۔ جس کا ہر باب روشن تاروں کی جگمگاہٹ لیے ہوئے تھا۔ مسجدِ نبوی سے مدینے کے گلی کوچوں تک اس کی ہر آرزو بس ’رضائے الٰہی‘ کے گرد طواف کرتی تھی اور آج دل کی سچائی کی آزمائش کی گھڑی آپہنچی تھی۔

’’یاخیل اللہ ارکبی! و بالجنۃ ابشری!‘‘
میدانِ بدر نے دل کی مچلتی تمناؤں کو پکارا تھا، اور حسین جنتوں کی خوشبو! مومن کا دل تو اس خیال ہی سے ہمہ وقت مخمور رہتا ہے۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم عزم و حوصلہ اور ایمان و اخلاص کے اسلحے سے لیس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد حلقہ زن تھے۔ فضا میں گونجی یہ آواز ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں ہماری جان ہے، یارسول اللہ! اگر آپ ہمیں اپنی سواریاں سمندر کی لہروں کے سپرد کرنے کا بھی حکم دیں گے تو ہم پیچھے نہ ہٹیں گے۔‘‘

یہ محض سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہونٹوں کے الفاظ نہ تھے، بلکہ ہر دل میں جذبات کے امنڈتے شعلوں کی پکار تھی۔
٭…٭

’’سعد! میری بات سننا۔‘‘
والد حضرت خیثمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے کو قافلے کی جانب بڑھتا دیکھ کر آواز دی۔

’’جی ابا جان! فرمائیے کیا حکم ہے۔‘‘
سعادت مند بیٹے نے عاجزی اور محبت سے جواب دیا۔

’’گھر میں ہمارے علاوہ محض خواتین ہیں۔ ہم دونوں اگر جنگ میں کام آگئے تو خود سوچو، پیچھے اُن کمزوروں کا کیا ہوگا؟‘‘
حضرت سعد یہ سن کر فکر مند ہوگئے۔ باپ کا کہا کبھی ٹالا نہ تھا اور وہاں، جنت کے حسیں باغوں کی مہک!

’’ایسا کرو تم اُن کے پاس رک جاؤ!‘‘
والد نے فیصلہ سنادیا۔

باپ پھر باپ ہے، اس کی بات کو رد کرنا؟ نہیں! سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سوچ بھی نہ سکتے تھے مگر وہاں… تلوار کی جھنکار اور میدان میں خاک و خوں سے اٹی فضا کے پرے سے جھانکتیِ فردوس!
اس نے سر جھکادیا مگر کیسے؟ لوگ حیران رہ گئے۔

بے حد ادب سے عرض کیا:
’’نہیں ابا جان! آپ کی فرماں برداری ساری زندگی میرا مقصدِ اولیٰ رہا مگر آج… آج معاملہ ہی کچھ اور ہے۔‘‘

یہ کہا اور باپ کو دم بخود چھوڑ کر وہ قافلے کی طرف بڑھنے لگے۔ دونوں ہی بضد تھے۔ کوئی بھی شہادت کی آرزو رکھتے ہوئے اپنا حق چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا۔ بالآخر قرعہ اندازی کی گئی اور سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام نکل آیا۔ چہرہ خوشی سے گلنار ہوگیا اور اداس مغموم دل لیے حضرت خیثمہ رضی اللہ عنہ کو واپس گھر آنا پڑا۔
بعد ازاں معرکہ برپا ہوا تو کفر کی ستر لاشوں سے میدان کو سرخ کرتے ہوئے میدانِ بدر کا یہ ’’سورج‘‘ بھی آسمان کے ڈھلتے سورج کے ساتھ رخصت ہوگیا اور اب دیکھو! قافلۂ ایمان سعد رضی اللہ عنہ کے جسد کو لیے مدینے کی طرف پلٹ رہا ہے۔ مسکراتا، مہکتا، گنگناتا ہوا سا لہو میں ڈوبا گل بدن!

سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حسین چہرے پر سجی روشن مسکراہٹیں فضا کو ایک کیف آور نغمگی سے مخمور کر رہی ہیں۔
ہجرت کے راہیوں کی نصرت کا یہ سفر خود

جس شام کے لیے ہاں! میں نے بھی طے کیا تھا
وہ شام آگئی تو پھر انتظار کیسا؟

جنت ہے منتظر جب، اس سے فرار کیسا؟
پرواز کے لیے تیار بال و پَر بھی

اللہ کے رستے میں حاضر ہے میرا سر بھی…!
٭٭٭