Letter To Editor

بزمِ خواتین

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

bشمارہ ۱۰۶۷ کا سرورق دیکھ کر ہمیں سردی لگنے لگی۔ ’’میری اقصیٰ کو تاراج کیا تم نے!‘‘ پڑھتے ہوئے دل خون کے آنسو رو دیا۔ محترمہ ام محمد سلمان کی تحریر پڑھ کر پرندوں سے محبت محسوس ہوئی۔ محترمہ قانتہ رابعہ کی تحریر ’حاضری‘ میں عقیلہ کے عمرے پر جانے کی تشنگی باقی رہی اور تحریر ختم ہوگئی۔ ’بانٹ لیجیے‘ میں اہم سبق موجود ہے۔ میں بہت شکر گزار ہوں محترمہ عنبر نفیس کی کہ حفظ کے حوالے سے ان کا اتنا شاندار اور مفید مضمون ہے میرے لیے کہ کیا بتاؤں، اللہ جزائے خیر دے۔ ’فراق کیا ہے‘ پڑھ کر دعا کی کہ اللہ میاں ہمیں جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نصیب فرمائیں، آمین! (بنت البحر۔ ٹنڈو آدم)

ج:آمین ثم آمین۔ اللہ تعالیٰ سب کو نصیب کردے۔

bخواتین کا اسلام اور بچوں کا اسلام کی چار سال سے خاموش قاریہ ہوں۔ دونوں رسائل بہت پسند ہیں۔ پچھلے شمارے میں کہانی ’ہائے میری الماری‘ بہت اچھی تھی۔ اس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ’اداس بھری مسکراہٹ‘ اچھی تھی اور مدیر چاچو میں نے پہلے خط بھیجا تھا آپ نے میرا خط شائع نہیں کیا اور میں خط کا انتظار کرتی رہی۔ میں اپنی بہنوں کو کہتی ہوں کہ تمھارے خط چھپتے ہیں، میرا خط کیوں نہیں آتا! میں نے پھر قلم اٹھایا ہے مدیر چاچو! اسے ردی کی ٹوکری سے بچائیے گا۔ (نام نہ پتا)

ج:آپ کا خط نہیں ملا ہوگا ورنہ ضرور شائع ہوتا۔ ابھی بھی خط کے ساتھ نام پتا نہیں لکھا ہوا۔ شاید آپ نے دوسرے صفحے پر لکھا ہو یا نام والا حصہ پھٹ کر لفافے میں رہ گیا ہو! بہرحال اب لکھتے رہیے گا۔

bشمارہ ۱۰۶۷ہر لحاظ سے بہت اچھارسالہ تھا لیکن دستک کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔ قرآن و حدیث پڑھ کر ’خواتین کے دینی مسائل‘ سے بہت فائدہ ہوا۔ ’میری اقصیٰ کو تاراج کیا تم نے‘ بہت ہی پرتاثیر نظم تھی۔ ویسے بار رسالے میں چار نظمیں تھی، چاروں شاندار۔ ’پرندے‘ بہت ہی پسند آئی۔ ’حاضری‘ کہانی پڑھ کر بے اختیار آنکھوں میں آنسو آگئے کہ کبھی تو ہم بھی طوافِ زیارت کر رہے ہوں گے۔ ’بانٹ لیجیے‘ واقعی اگر پریشانی اللہ کو سپرد کردیں تو اللہ اس پریشانی کو دور کرتے ہیں۔ ’مفلس‘ ایک دکھی کردینے والی کہانی ہے۔ ’بزم خواتین‘ چھ خط تھے لیکن دو خطوط کے جواب دیے ہوئے تھے۔ ہم نے بھی صرف دو خطوط پڑھے۔ بغیر جواب کے خط پڑھنے کا مزہ ہی نہیں آتا۔ مدیر چاچو! ہمیں آپ کے انٹرویو کے بعد جو بھی انٹرویو ہوئے کچھ زیادہ پسند نہیں آئے۔ اب کوئی بہت ہی پرمزاح انٹرویو ہونا چاہیے۔ (حور عینا بنت محمد الیاس۔ ٹھل نجیب)

ج:لیجیے یہ نئی بات پتا چلی۔ جواب ہو توخط پڑھے جاتے ہیں ورنہ نہیں، ایسا نہ ہونا چاہیے۔ تبصروں کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ ہر تبصرے کا جواب لکھنے کا رواج تو ہم نے شروع کردیا، پہلے تو ایسا نہ تھا۔ پھر بہت سارے تبصروں میں کوئی جواب طلب بات ہوتی ہی نہیں تو جواب کیا لکھیں، اچھا جہاں تک مزاحیہ انٹرویو کی بات ہے تو پرمزاح انٹرویو آپ ہی کا نہ کرلیں؟!

bشمارہ ۱۰۶۵کے سرورق پر خوب صورت تتلی، پھولوں کا رس چوستی بہت پیاری لگ رہی ہے۔ ’آئینہ گفتار‘ میں مدیر ماموں ’لفظی نا انصافیاں‘ اجاگر کرتے ہوئے ’دو الفاظ بتائیے‘ نامی مطالبہ کرتے نظر آئے۔ واقعی یہ بہت بھونڈا لفظ ہے۔ معاشرے میں جڑ پکڑتے اس امتیازی سلوک کو اب ختم ہونا چاہیے۔ ’سخاوت اچھی موت کا سبب…‘ اچھی تحریر ہے۔ اللہ جی ہمیں سخاوت کا عادی بنائیں، آمین۔ ’طوطا رشتے‘ پر مزاح تھی۔ وی آئی پی پروٹوکول طوطے سے شاید ہضم نہ ہوا سو وہ واپسی کا ٹکٹ کٹا گیا۔ سبق بھی بہت خوب ملا کہ ہر رشتے کو اس کے ’مقام‘ پر رکھا جائے تو اپنا سکون بھی باقی رہتا ہے۔ ’بزم خواتین‘ میں سب سے پہلے والدہ کا تبصرہ دیکھا تو خوش ہوگئے۔ آپی یسریٰ زبیر نے ہمارے خط کو پسند کیا، خوش رہیں، سدا مسکراتی رہیں۔ (اقرأ فرید۔ پنڈی گھیب، اٹک)

ج: اس بار تو آپ دونوں ماں بیٹی کے تبصرے ایک ساتھ شائع ہورہے ہیں۔ماشاء اللہ! جیتی رہیں۔

bخواتین کے دینی مسائل‘ سے بہت رہنمائی ملتی ہے۔ مفتی صاحب کے علم، عمر اور عمل و رزق میں اللہ برکت ڈالے۔ ’اپنی ذات کے لیے‘ میں صائمہ اکرم صاحبہ نے بہت اہم سبق ہم نشین کیا۔ ہمیں بھی شادی سے پہلے گھر کے کاموں سے بہت چڑ ہوا کرتی تھی اور پھر امی کراتی بھی نہیں تھیں۔ جب سر پر ذمےداری پڑی تب بہت مشکل ہوئی۔ ’حفظِ قرآن کیوں اور کیسے؟‘ میں بہت اہم نکات بتائے جا رہے ہیں۔ ’مفلس کون؟‘ نے حلال حرام کی تمیز سکھائی۔ ’فکر‘ نے بتایا کہ انسان واقعی کسی حال میں بھی خوش نہیں رہتا۔ کوئی پوچھے تب بھی اور اگر نہ پوچھے تب بھی!!! (ع،ز، ام رمیصاء۔ پشاور)

ج: بس اپنی غلطیوں سے اگر انسان سیکھ جائے تو بڑی بات ہے۔ آپ عزم کرلیجیے کہ اپنی بچیوں  کے ساتھ شفقت کے نام پر یہ ظلم نہ کیجیے گا۔

bآئینہ گفتار ’آغوشِ مادر‘ میں کولیگ والی بات پڑھ کر استغفراللہ کہا۔ ’بچے ہمارے عہد کے‘ انتہائی قابل تعریف تحریر تھی۔ ’ایک نیک روح‘ اہلیہ کی نیکیوں کو یاد رکھ کر قیمتی الفاظ میں اپنی اہلیہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ اللہ ان کی اہلیہ کے درجات بلند فرمائے۔ ’ہائے میری الماری‘ کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ چیزیں انسانوں کے لیے ہوتی ہیں انسان چیزوں کے لیے نہیں ہوتا۔ واقعی اگر انسان صبر کرنا سیکھ جائے تو کوئی بات مشکل نہیں لگتی۔ ’خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں‘ کتنی عظیم اور حوصلے والی خاتون ہیں۔ ’حفظِ قرآن کیوں اور کیسے؟‘ تجربات کی روشنی میں ایسے والدین کے لیے سبق آموز اور بہترین تحریر۔ حصار مت توڑو‘ شرعی پردے کے بارے میں قیمتی سبق سکھاتی تحریر ہے۔ ’ٹھیس نہ لگ جائے‘ باجی بہت اچھے انداز میں ہمیں سمجھاتی ہیں۔ اللہ ہمیں ان کی قیمتی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ عالیہ باجی سے غائبانہ مل کر ہمیں بھی بہت خوشی ہوئی۔(ام احمد سعید۔ پنڈی گھیب)

ج: باجی جان عالیہ سے بالمشافہ ملاقات کرکے بہنوں کو اور زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان و عزت میں، عمر و عافیت میں خوب برکتیں عطا فرمائے، آمین!

bشمارہ۱۰۶۶ بہت مختلف سا تھا۔ ابتدا سے اختتام تک سبق آموز! ’آئینہ گفتار‘ میں مدیر چاچو بڑے مزے سے جنت کے تذکرے کر رہے تھے۔ ہمارے دل کی گہرائی سے دعا نکلی کہ اللہ پاک ہم سب مسلمانوں کو جنت دے۔ ’بوجھ‘ کہانی کیا یہ سچی کہانی ہے۔ بہت مزے کی تھی واقعی اللہ پاک کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت چھپی ہوتی ہے۔ لیکن انسان نادان کچھ سمجھتا ہی نہیں۔ ’چھوٹی شوگر‘ پڑھ کر ہماری بھی ہنسی چھوٹ گئی۔ ’مفلس کون؟‘ پڑھ کر اگلی قسط کا انتظار شروع ہوگیا۔ ’دعا‘ عقیل احمد نے مجھے لگتا ہے اتنا دل سے لکھا کہ ایک ایک لفظ دل میں اترتا گیا ڈاکٹر ام محمد مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔خاص طور پر جب بچیوں کو بیٹی کہہ کر مخاطب کرتی ہیں۔ ’بھٹکے ہوئے آہو کو‘ یہ سفرنامہ پڑھتے ہوئے ایسے لگتا ہے کہ جیسے میں بھی ساتھ ساتھ سفر کر رہی ہوں۔ ’بزمِ خواتین‘ میں آج کل ماشاء اللہ منیبہ جاوید اور سدیمہ بنت ملک اشرف خوب چھائی ہوئی ہے مگر آج کل حیا احمد نظر نہیں آرہیں۔ گزارش ہے کہ سب میرے لیے دعا کریں کہ میں اس رمضان شریف میں حرمین شریفین جاؤں۔ (ثانیہ بنت محمد احمد۔ ٹھل نجیب، کبیر والہ)

ج:اللہ جل شانہ آپ کو اپنے پیاروں کے ساتھ حرمین شریفین کی زیارت کے لیے رمضان شریف میں قبول فرمائے، آمین۔
٭٭٭