Hell Image-AP

دو رخ

Photo : SkyNews AP

شازیہ نور

وہ پانچ ماہ پہلے ہی ہمارے محلے میں آئی تھیں مگر اس دوران میں کبھی ہم میں سے کوئی اُن کے گھر گیا نہ ہی ان کے گھر ہی سے کوئی ہمارے گھر آیا۔

ایک خاموشی سی چھائی رہتی تھی اُس گھر پر، اور اس کی وجہ ہمیں یہی سمجھ آتی تھی کہ اس گھر میں کوئی بچہ نہیں تھا۔ میں جب بھی اپنی دوسری ہمسائیوں سے اس گھر کی مکینوں کے بارے میں بات کرتی تو سب مشکوک سے لہجے میں اظہار خیال کرتیں۔

اس گھر سے روزانہ دو لڑکیاں نکلتی ہیں۔ چھوٹی والی کا نام نادیہ ہے اور بڑی والی کا سعدیہ۔ معلوم نہیں کہاں جاتی ہیں؟ شام کو واپس آتی ہیں! گھر میں صرف اُن کی والدہ ہوتی ہیں۔‘‘

رخسانہ نے کسی نہ کسی طرح ان کے گھر کی سن گن لے لی تھی۔
’’بھئی مجھے تو بہت مشکوک سے لگتے ہیں یہ لوگ۔‘‘

ریحانہ نے بھی عجیب سے لہجے میں کہا۔
’’کسی دن ان کے گھر نہ چلیں۔‘‘ میں نے رائے دی۔

’’نہ بابا نہ…میرے میاں نے تو سختی سے منع کیا ہے اس گھر میں جانے سے، نجانے کیسے لوگ ہیں؟‘‘
شائستہ چہرے پر بناوٹی خوف طاری کرکے بولی۔

’’اچھا چلو چھوڑو، ہمیں جب اصل بات کا نہیں پتا تو ہم کیوں غلط رائے قائم کریں۔‘‘
میں انھیں پیٹھ پیچھے بات کرنے سے منع کرتی رہتی تھی۔

پھر بھی آئے دن یہی ہمارا موضوع رہتا۔ ایک روز اچانک ہی خبر ملی کہ ان دو میں سے ایک لڑکی نادیہ کا انتقال ہوگیا ہے…!
جس نے بھی یہ خبر سنی دھک سے رہ گیا۔

وہ تو بہت چھوٹی تھی ابھی، وہ کیسے مر گئی؟ کیا ہوگیا اچانک؟‘‘
سارے محلے کے لوگوں میں تشویش پھیل گئی۔

اب اس موقع پر تو جانا ہی تھا سو میں ہمسائیوں کو لے ان کے گھر پہنچی۔
نادیہ کی ماں صبر کا پہاڑ بنی ہوئی تھی۔ بالکل خاموش خشک آنکھیں۔ بس اپنی بیٹی کے مردہ چہرے کو دیکھے جارہی تھی۔

’’کیا ہوا اسے؟‘‘ میں نے سعدیہ سے سوال کیا۔
’’بیمار تھی، سال ہوگیا تھا، مرگئی۔‘‘

ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں سعدیہ نے جواب دیا۔
’’کیا بیماری تھی؟‘‘

میں نے لہجے میں غم بھر کر کہا۔

’’کینسر۔‘‘ اس نے مختصرا جواب دیا۔
’’اوہ۔‘‘ مجھے دھچکا سا لگا۔

’’اسے علاج کے لیے روزانہ اسپتال لے جاتی تھی، ابو بھی نہیں ہیں، امی پڑھی لکھی نہیں، میں اسے ہسپتال چھوڑ دیتی تھی اور خود سکول میں پڑھانے چلی جاتی تھی۔ اب مجھے اکیلے جانا پڑے گا۔‘‘
وہ جیسے خواب کی حالت میں بول رہی تھی۔

میں کانپ کر رہ گئی اور دل میں احساسِ ندامت کی وجہ سے سعدیہ کے چہرے کو دیکھنے کی بھی تاب نہ رہی۔
واپس آتے ہوئے میں نے اپنی ہمسائیوں سے کہا: ’’دیکھیں اصل بات کیا تھی اور ہماری غلط سوچ نے اسے کیا بنا دیا، سچ ہے کہ ہم نےا س مشکل وقت میں ہمسائیگی کا حق تو کیا ادا کرنا تھا، الٹا بدگمانی پال لی؟‘‘

وہ لوگ بھی نہ صرف شرمندہ نظر آرہی تھیں بلکہ ان کے نہ تھمنے والے آنسو اپنے گناہ کا اقرار کرتے نظر آرہے تھے۔
٭٭٭