Maqbara

آئینہ گفتار

مقبروں کی چھاوں میں رہتی مساجد

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جیسے کوئی یتیم مسکین بچہ کسی سخی کی نظرکرم اور دستِ شفقت میں پلتا بہرحال اس کے بچوں سے الگ ہی نظر آتا ہے۔

صاف پتا چلتا ہے کہ نوالہ کھلانے والا کون اور کھانے والا کون ہے۔

خبرگیری کرنے والا اور اس کے بچے دل کے کتنے ہی اچھے ہوں، ساتھ ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں بہرحال الگ ہی پہچانے جاتے ہیں۔
چمکتی آنکھیں، چہرے پر چمچماتے اعتماد کی چھب، فخر سے گردن تنی اٹھی۔

جبکہ اُن کی چھاؤں میں دبکا سمٹا، کچھ سہما جھکا، بجھا بجھا کمزور سا یتیم اُن سے الگ ہی پہچانا جاتا ہے۔
سو کچھ اسی طرح؛ ہندوپاک میں مساجد بھی (معاذاللہ) مقبروں اور مزاروں کی کریمانہ چھاؤں میں رہتی پلتی نظر آتی ہیں۔

جھکی جھکی بجھی بجھی نحیف سی جیسے بس اچانک کسی ’’سخی‘‘ کو خیال آگیا ہو کہ چلو ثواب کے لیے اِس یتیم کو بھی ساتھ رکھ لیتے ہیں۔
ہم نے اندرونِ سندھ، ملتان اور لاہور کے کچھ مزارات کی تو زیارت کی، البتہ ہندوپاک کے مشہور مزارات اور مقبروں کو تصاویر میں دیکھا کہ شاہ رکنِ عالم رحمہ اللہ تعالیٰ کا مزار ہو یا ملکہ ممتاز محل کا مقبرہ تاج محل،سنگ خارہ پر مرمریں گل بوٹوں کلیوں سے منقش عمارت اپنے سر پر من موہنے گنبد کا سنہری تاج رکھے، ساتھ پرشکوہ میناروں کے دربان ساتھ لیے یوں طنطنے سے کھڑی ہوتی ہے جیسے ایک سندر دلھن ہے،جس کے اردگرد ایک خلقت جمع اُس کی سندرتا کو خراج تحسین اور سلامی پیش کر رہی ہے۔

جبکہ اُن کی چھاؤں میں مساجد کودیکھیں تو شکل وصورت ہی نہیں اعمال کے اعتبار سے بھی اللہ معاف فرمائے اجاڑ، ویران، زبوں حال۔
بالکل ایسے جیسے دلہنوں کی بخشش لینے والی گھر کی کام والیاں اس کے قریب ہی مسکین سی شکل بنائے کھڑی ہوتی ہیں۔

نعوذباللہ من ذلک۔
اور پھر جیسے دلھن کو سلامی دی جائے تو اس کے صدقے میں گھر کی کام والیاں بھی مستفید ہوجاتی ہیں، سو کچھ اسی طرح مزارات مقبروں کی چھایا میں کھڑی ان مساجد کا انتظام وانصرام بھی دلھن کو ملی سلامی سے چل ہی جاتا ہے۔

یہ مناظر جب بھی دیکھے اور ابھی ابھی ایک تصویر دیکھی تو شدت سے قرآن کریم کی وہ آیت یاد آئی جو ہمیں قرآن کی سب سے زیادہ دل کو پاش پاش کر دینے والی آیت کریمہ لگتی ہے:
وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ .

’’انھوں نے ہماری ویسی قدر نہ کی جیسا قدر کرنے کا حق تھا۔‘‘
یہ رب کائنات خود شکوہ فرما رہے ہیں۔

اور یہ بھی سچ ہے کہ اللہ کے اِن دوستوں کو اِس بات سے بہت حیا آتی ہوگی کہ ان کی قبر پر تو غیر مسنون سنہری قبے، تام جھام اور برابر کھڑی اُن کے رب کے نام سے منسوب مسجد اس حال میں جیسے یتیم کو استعمال شدہ لباس مارے باندھے پہنا دیا ہو۔
یہ سطور ایک بے ساختہ نوحہ ہیں جو ابھی ابھی ایک مزار کی تصویر دیکھ کر دل سے نکلا۔

عرض ہے کہ موضوع مزارات یا مساجد کا تقابل نہیں کہ اس پرتو بات ہوتی رہتی ہے، اِس وقت موضوع خاص مزارات کے احاطے میں موجود مساجد ہیں، جو اے کاش نہیں بنائی جاتیں اور بے ادبی سے بچ جاتیں۔
ان بے چاریوں کے لیے نہ ظاہری خوبصورتی ہے اور نہ اُن کے نصیب میں کسی جبیں میں تڑپتے سجود ہی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے اور کسی بااختیار درد مند کو اس کا احساس ہوجائے۔
والسلام مدیر مسئول

اے جان عم!

( پیاری بھتیجی کی شادی کے موقع پر چاچا کے تاثرات)

ایوب اسماعیل

اے میری جانِ عم! ابھی کل ہی کی تو بات لگتی ہے کہ جب ایک ننھی سی پری میری آغوش میں خوشبو بکھیر رہی تھی اور میں حیرت اور مسرت کی ملی جلی کیفیت میں تھا۔ برسوں بعد ہمارے گھر میں کسی بچی کی قلقاریاں گونجی تھیں۔
اسے روتے ہوئے چپ کرانا، بائیک پر گھماتے ہوئے اسے اس کی من پسند چیزیں دلانا اور پھر اس کی کھلکھلاتی ہنسی میں اپنی خوشیاں تلاشنا اس دورِ آشوب میں کسی نعمت سے کم نہیں تھا اور آج یہ دن آیا ہے کہ وہ ننھی پری آج ہمارے شانوں کے برابر آ کھڑی ہوئی ہے۔

لیکن اب اس کی پرواز کا وقت ہوگیا ہے۔ اسے اب کسی اور کے آنگن میں جگمگانا ہے۔ یہی تو زمانے کا دستور ہے۔ اچھا تو بہت لگتا ہے مگر ایک اداسی بھی تو دل پر چھا جاتی ہے کہ اب چاچا کہنے والی آواز روز نہیں سنائی دے گی۔ ہاں مگر دل کو تسلی ہے کہ اس کا شریکِ زندگی اس کو ہماری کمی نہیں محسوس ہونے دے گا۔ اسے اُس گھر میں بڑوں کی کمی بھی محسوس نہیں ہوگی مگر سب سے پہلے یہ اسی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس گھر کو اپنا سمجھے۔ انھیں یہ احساس نہ ہونے دے کہ وہ کسی پرائے گھر سے آئی ہے اور نہ ہی کسی ایسے گھر سے جنھیں گھر اور گھر والے جوڑنے نہیں آتے۔

حقیقت میں اس سے زیادہ یہ ہمارا بھی امتحان ہے کہ ہم نے اسے کن خیالات کے ساتھ پروان چڑھایا ہے اور نئے گھر میں اپنا مقام بنانے کے لیے اس کی کیا تیاری کی ہے!

خیر مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات سے پوری امید ہیکہ ہماری بچی ہمیں بھی اور خود کو بھی اس امتحان میں سرخ رُو کرے گی۔
اللہ سے دعا ہے اے جانِ عم! تمھیں اس نئے سفر میں کامیابی اور استحکام عطا ہو۔ تمھاری نئی زندگیکے لیے بہت دعاگو!

تمھارا چاچا
٭٭٭