Ar Rehman Allah Name

وسیع رحمت والا

Photo : Internet

خدیجہ محسن

لڑائیاں، جھگڑے، چھوٹی چھوٹی بات کو دل پر لے لینا، کسی کا دل دُکھا دینا، کسی کو ایذا پہنچانا، کسی کی عزت پر کیچڑ اچھالنا، بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا، یہ وہ چند چیزیں ہیں جو ہم دنیا میں اپنے اردگرد ہوتا ہوا روز دیکھتے ہیں اور اس دوران میں لوگوں کو ایک دوسرے سے رحم کرنے کی درخواست کرتے نظر آتے ہیں مگر دنیا بہت خود غرض ہے۔ یہاں آسانی سے معافیاں نہیں ملتیں۔ یہاں فاصلے فوراً نہیں مٹ جایا کرتے۔ یہاں چھوٹی چھوٹی بات پر بھی معاف کرنے کو انا کا مسئلہ بنا دیا جاتا ہےجبکہ اللہ رب العزت جن کے صفاتی ناموں میں الرحمٰن یعنی وسیع رحمت والا شامل ہے آپ بڑی سے بڑی نافرمانی کو بھی فوراً معاف کردیتے ہیں۔

الرحمن مبالغے کا صیغہ ہے اور جہاں مبالغے کا صیغہ استعمال ہوجائے اس سے مراد ہوتا ہے کہ مقدار میں بہت زیادہ ہونا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت کتنا رحم کرنے والا ہے۔

اور واقعی اللہ رب العزت ہمارے بڑے سے بڑے گناہوں کو بھی معاف کردیتے ہیں، ہر طلوع ہوتے ہوئے سورج کے ساتھ ہمیں موقع دیتے ہیں کہ ہم زندگی کو بامقصد طریقے سے گزار لیں۔ وہ ہمیں گناہ کرنے کے باوجود بھی رزق دیتے ہیں۔ ہم سے نعمتیں واپس نہیں لیتے، ہماری پردہ پوشی کرتے ہیں!

کیا کبھی آپ نے انسان کو اس طرح رحم کرتے دیکھا ہے؟ اس لیے انسانوں سے رحم کی امید رکھنا چھوڑ دیں۔ انسان کسی حال میں راضی نہیں ہوتے۔ ہاں دوسرے لوگ اگر معاف نہیں کرتے تو آپ چھوٹی چھوٹی بات پر مسئلہ بنانے کی بجائے درگزر کرلیا کریں۔ کسی کی کوئی بات یا عمل برا لگ جائے تو اس نیت سے دل بڑا کرکے معاف کردیا کریں کہ اللہ تعالی کی نظر میں یہ عمل محبوب ہے۔

یاد رکھیے یہ لوگ، یہ ساز و سامان، یہ محلات سب کچھ دنیا میں رہ جائے گا یہاں تک کہ ہمارے دنیا سے جانے کے چند دن بعد لوگ ہمیں بھول کر اپنی روز مرہ کی زندگی میں مصروف ہوجائیں گے۔ اس وقت قبر میں اگر ہمارے کچھ کام آئیں گے تو وہ ہمارے نیک اعمال ہوں گے جن کی بدولت آخرت کی ہمیشہ کی زندگی ہمارے لیے گل گلزار بن جائے گی۔

٭٭٭

آئینہ گفتار

فلزا وسیم

خواتین کا اسلام پہلی بار ۲۰۰۷ء میں پڑھا تھا۔ اداریے تب بھی سب سے پہلے پڑھتی تھی۔ ان دنوں تعمیر فکر کے نام سے اداریہ لکھا جاتا تھا جو اس وقت کے مدیر مسئول محمد احمد حافظ لکھا کرتے تھے، پھر ایک طویل وقفہ آیا اور۲۰۲۱ء کے آخر میںدوبارہ سے یہسلسلہ شروع ہوا۔ یوں اداریہ اب بھی سب سے پہلے اپنے نئے اچھوتے موضوعات کے ساتھ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہے۔

اب اداریہ ’آئینہ گفتار‘ کے عنوان سے لکھا جاتا ہے۔ آئینہ گفتار میں مدیر صاحب اردگرد ہونے والے اچھے برے واقعات جنھیں ہم دانستہ یاغیر دانستہ طور پر نظر انداز کرجاتے ہیں، ان پر اپنی وقیع رائے اور تبصرہ پیش کرتے ہیں۔

موضوعات منفرد و منتخب تو ہوتے ہی ہیں، دلچسپ بھی بہت ہوتے ہیں۔ روز مرہ بہت عام سی زندگی سے بے حد اچھوتے خیال اخذ کرکے مدیر صاحب ایسے لکھتے ہیں کہ ہم سب کے لیے خاص بنادیتے ہیں۔

وہ موضوع ہمارا باورچی خانہ بھی ہوسکتا ہے، بچوں کی تربیت بھی، مہنگائی کی دہائی بھی، شادی بیاہ کی بے جا رسمیں بھی، بچوں کے انوکھے نام بھی اور بہت کچھ۔ اُسلوب کبھی تو کشتِ زعفراں،کہیں اداسیوں کا بَن!

مختصراً یہ کہ ایک اچھے اور ذمے دار مدیر کی ذمے داری نبھاتے ہوئے جن موضوعات پر بھی مضامین لکھے وہ ہمارے معاشرے ہی نہیں ہماری کلاس کے بھی ہیں۔

مدیر صاحب کی کتاب آئینہ گفتار ایک ایسا گلدستہ ہے جسے آپ اپنے ڈرائنگ روم میں رکھیں تو مہمان بھی پڑھے گا اور یقیناً گفتار کی اس خوشبو سے جھوم اٹھے گا۔ اسے اپنے بک شیلف میں سجائیں تو یہ منفرد کتاب دور سے اپنی چھب دکھائے گی۔ سفرمیں پڑھیں تو سفر اچھا لگے گا۔ اس کتاب کو کہیں سے بھی کھولا جائے، حکمت کے سنہری موتیوں سے سجی مالا نصیب ہوتی ہے۔ ۳۰۳ صفحات کی اس کتاب کا سرورق ہی خوب صورت نہیں، ورق ورق خوب صورت لفظوں کی داستان ہے، جو ہر دو صفحات کے بعد ایک نئے موضوع کو خبر، پیغام اور مزاح سے مزین کیے ملتی ہے۔ مجھے خاص طور پر جس موضوع اور تحریر نے قلم اٹھانے پر مجبور کیا وہ میرا پسندیدہ موضوع اور آپ کی بہترین تحریر عجز و انکسار ہے۔

یہ تحریر پڑھی۔ ایک بار دو بار پھر بار بار جیسے آنکھوں سے نہ رکنے والے آنسو۔ جس کسی نے بھی یہ تحریرپڑھی ہوگی مجھے یقین ہے ایک بار سے زیادہ پڑھا ہوگا۔ بات صرف تحریر میں ربط اور روانی کی نہیں، وضاحت سے سمجھانے کی ہے۔ مثال سے بتانے اور سکھانے کی بھی ہے۔ بہت بڑی بات ہوتی ہے اپنی محنت اور عقیدت کو کسی کے حوالے سے سمجھانا۔

دین، دنیا، فکر آخرت، احساس ذمے داری پر لکھے گئے ان سب مضامین کو پڑھ کر دل سے دعا ہے کہ خداوند کریم آپ کی سعادت مندی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور آپ کو خیرِ کثیر کی نعمت سے مالا مال کرے۔

ج: جزاکِ اللہ خیراً۔ آپ نے بھائی کے لیے اتنے اچھے الفاظ لکھے، نیک تمنائیں ظاہر کیں۔ اللہ رب العزت آپ کو بھی سعادت مند بنائے ہمیشہ عافیت کی چادر میں رکھے، آمین!

٭٭٭