Listen Me

آپ بھی سن لیں ذرا

Photo : FreePik

اہلیہ راشد اقبال

اکثر ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ لڑکا غیر ذمے دار ہے، بگڑا ہوا ہے اس کی شادی کرادو! یہ کہہ کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کی تربیت کی ذمہ داری آنے والی بہو پر، اس کی ہونے والی بیوی پر ڈال دیتے ہیں کہ اب وہ تربیت کرے، حالانکہ جو تربیت ماں نہ کرسکی وہ آنے والی کیا کرے گی!

لیکن چٹکلہ یہا﷽ں یہ ضرور یہاں بنتا ہے کہ آنے والی اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہے اور باقی سارے رنگوں کے رنگ اڑ جاتے ہیں۔ شاید اسی چٹکلے کو مدنظر رکھ کر شادی ہی فوری حل سمجھا جاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ لڑکا کماتا نہیں، بیوی کی ذمےداری پڑے گی تو خود کمانے لگے گا، جبکہ ایسے نکمے لڑکوں کو بیوی ذمےداری نہیں بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ وہ یا تو بیوی کو کمانے پر اکستاتا ہے یا پھر بیوی کے میکے والوں کی دیگ میں جھانکتا نظر آتا ہے کہ لنگر سے کچھ حصہ ہماری دیگچی کی زینت بھی بن جائے۔

خیر یہ شادی والا علاج، بیوی کے لیے لاعلاج بن جاتا ہے اور وہ بے چاری زندگی بھر مسیحا ہی ڈھونڈتی نظر آتی ہے یا پھر علیحدگی ہی اس کا آخری آپشن ہوتا ہے۔

حتیٰ کہ لڑکا نشئی ہے تو ’’اس کا علاج بھی شادی ہے‘‘ کہ مصداق شادی کا لڈو منہ میں کھلانے کے بجائے ٹھونسنے کی کوشش کی جاتی ہے، چاہے اسے بعد میں الٹی کرکے ہی نکالنا پڑے اور پھر سارا الزام لڑکی پر ہی عائد کردیا جاتاہے کہ گھر بنانا نہیں آیا۔ بھئی نشے کے عادی کو آپ کی مار پھٹکار ٹھیک نہیں کرسکی تو کیا ضروری ہے کہ بیوی کاپیار بھنگ کا رنگ ٹھیک کردے گا؟

سو جب آنے والی بات بے بات نشئی شوہر سے مار کھاتی ہے تو سب کانوں میں روئی ٹھونس لیتے ہیں اور صرف یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں، بھئی پہلے تو منا اتنا خراب نہیں تھا، آنے والی سبز قدم ہے تو کیا کریں، استغفراللہ!

لڑکا نفسیاتی ہو تو بیوی ہی ماہر نفسیات ہوگئی جو شادی کے بعد سب ٹھیک کردے گی…!؟

چاہے بےچاری بعد میں خود ماہر نفسیات کے چکر لگاتی نظر آئے۔ بلاوجہ روتی بلاوجہ ہنستی ہوئی۔

اچھا اب ذرا ترازو کا دوسرا پلڑا بھی دیکھتے ہیں تا کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ اوپر بیان کردہ احمقانہ بات کی رد میں تو پھر بھی صبح شام تقریریں، تحریریں پڑھنے سننے کو ملتی ہیں کہ خدارا! اپنے بچے کا پہلے علاج کروائیں پھر شادی کروائیں۔

لڑکوں کی مائیں پڑھ پڑھ کر غصے میں لال پیلی ہوجاتی ہیں کہ علاج کروائیں یا شادی!؟

خیر اب وہ جو بھی کروائیں مگر کچھ تحریریں اور تقریریں ایسی بھی تو ہونی چاہییں ناں کہ پہلے لڑکیوں کو سگھڑ بنائیں پھر اس کا گھر بسائیں۔

جی ہاں! ہم سے متفق تو آپ کو ہونا ہی پڑے گا کہ صرف لڑکوں کی مائیں کیوں؟ اب لڑکیوں کی ماؤں کے بھی کان کھینچے جائیں کہ اپنی پھوہڑ بیٹیوں کا بھی پہلے علاج کروائیں بعد میں اس کا گھر بسائیں۔

پڑھی لکھی ہوں یا اَن پڑھ، پھوہڑ کو کون برداشت کرتا ہے۔ پھوہڑ بھی ہو اور بدتمیز، زبان دراز بھی تو اپنے گھر کا ایسا بوجھ دوسروں کے سر پر منڈھ دینا، بھئی یہ بھی تو قابلِ مذمت ہے، اس کا علاج بھی صرف شادی نہیں ہوسکتا۔

ایسی لڑکیاں جن کا کام صرف موبائل اسکرین پر انگلیاں چلانا، سوشل میڈیا پر اِن رہنا ہو۔ مائیں ان کو بیڈ ٹی پیش کرتی ہوں۔ برگر، پیزا ان کا اوڑھنا بچھونا ہو اور وہ بھی آرڈر کیا ہوا، یا ماں ماسی کا بنا ہوا، ان کو بھی علاج ہی کی ضرورت ہوتی ہے!

کیونکہ شوہر کی خدمت گزاری انھیں خواری محسوس ہوتی ہے۔ سسرال والوں سے اخلاقیات ان کو گزرے لوگوں کی باقیات محسوس ہوتی ہیں۔ شوہر بے چارے بدحال بھوکے پیٹ دفتر جاتے اور وہ پلنگ توڑتی نظر آتی ہیں۔

پھر واپسی پر بےچاروں سے برگر، تکہ، پیزا کی فرمائش بھی لازمی ہوتی ہے اور جب شوہر کا بجٹ آؤٹ ہوتا ہے تو شوہر سے پہلے بیوی کا مزاج ہی آؤٹ ہوجاتا ہے، بس پھر جھگڑوں، رنجشوں، تلخیوں، طعنوں کی بھر مار شروع ہوجاتی ہے کہ مرد ذمےداری کے قابل ہی نہیں کہ لڑکی کے اخراجات اٹھا سکے۔ بھئی لڑکی کے اخراجات ہیں یا پوری نا اہل کابینہ کا معیشت پر بوجھ۔ بے چارا ملک ہو یا شوہر اٹھائے تو اٹھائے کیسے، سو پھر در در قرض کا پیالہ لیے گھومتا نظر آتا ہے۔

ایسی نکمی لڑکیوں کا علاج بھی شادی کیسے ہوسکتا ہے؟

بس ان کے بارے میں بھی یہی گھسا پٹا جملہ استعمال ہوتا ہے کہ دوسرے گھر جائے گی تو سیکھ ہی جائے گی۔ ارے بھیا! ایسی نکمی لڑکیاں ماں بہنوں سے نہ سیکھ سکیں تو پھر سسرال میں بھی سیکھتی نہیں ہیں بلکہ ان بے چاروں کا سُکھ چین چھین لیتی ہیں۔ ذرا انڈا ابالنے کا کہہ دو تو سر پر ڈنڈے برساتی نظر آتی ہیں۔ چائے کا کہہ دو تو جوشاندہ ہاتھ میں پکڑا دیتی ہیں۔ دودھ ابالیں تو چولھے کو سیراب کردیں۔ اوّل تو کام کرنے کی عادی ہی نہیں ہوتیں، کھانا پینا، سونا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے اور اگر اس میں خلل آئے تو سسرال والے ظالم، شوہر غیر ذمےدار، ساس سنکی، پورا سسرال تنگ نظر تنگ دل اور نجانے کیا کیا تنگ ہوتا ہے اور مصداق اس کے تنگ آمد بجنگ آمد ہی بنتا ہے۔

اب اس مرض کا شادی علاج کیسے ہوگئی؟

بھئی جس طرح ’’نکمے لڑکوں کو پہلے علاج کی ضرورت ہے‘‘ کا اشتہار لگایا جاتا ہے تو نکمی لڑکیوں کے بارے میں بھی تو یہ مہم چلائی جائے کہ ان کو بھی علاج کی ضرورت ہے۔ ایسی نکمیاں فرینڈز اور برانڈز کے چکر میں سسرال والوں کو گھن چکر بنائے رکھتی ہیں۔ ’چولھا چکی نامنظور‘ کا بورڈ اٹھائے یہ نکمیاں بڑے بڑے شاپنگ مال میں جوتیاں گھسنے کو زندگی کی اصل انجوائمنٹ سمجھتی ہیں اور سسرال والوں کو بھاڑ میں ڈالنے کا شرف بھی انہی کو حاصل ہوتا ہے۔

اب شوہر کی دنیا تباہ ہو یا آخرت، کسے پروا ہوتی ہے، ایسے میں شادی والا ’علاج‘ خود لاعلاج ہی ہوتا ہے۔

یہاں تک پڑھ کر لڑکیوں کی ماؤں کے چہرے پر بھی اتار چڑھاؤ آنے لگا ہوگا۔ اصل مسئلہ یہی تو ہے۔ حالات بہتر کرنے کے لییدرست سمت
آزمانے کے بجائے مخالف سمت کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ لڑکوں کی مائیں نکمی لڑکیوں کی کہانیاں سناتی نظر آتی ہیں اور لڑکیوں کی مائیں نکمے لڑکوں کی داستانیں۔

اپنے اپنے تئیں اگر علاج شادیوں کے بجائے شروع سے تربیت کرکے کیا جائے تو نتائج دونوں گھرانوں کے لیے سکھ چین کی صورت میں نکلتے ہیں۔

ورنہ شادی کو علاج سمجھنے والے ایک کے ساتھ دوسرے کی زندگی بھی برباد کردیتے ہیں۔ ماں باپ جب خود ناکام ہوجاتے ہیں تو دوسروں سے امید لگاتے ہیں کہ شاید آنے والا یا آنے والی اس کا علاج و تدارک کرسکے۔ بے شک بگاڑ کم ہو یا آنے والا یا بیاہ کر لے جانا والا بہت باہمت ہو تو کبھی کبھی نتائج مثبت بھی نکل آتے ہیں، مگر یاد رکھیے گا کہ پھر پھل بھی انہی کے دامن میں گرتا ہے جو پودے کی دیکھ بھال کرتا ہے، لیکن پھر شکوہ شکایت کی یہاں بھی لمبی فہرست تیار ہوتی ہے۔

ایک بات اور یاد رکھنے کی ہے، جیسی روح ویسے فرشتے کی مثال تو آپ نے سنی ہوگی تو نکموں کے لیے نکمیاں اور نکمیوں کے لیے
عموماً نکمے ہی گلے کا ہار بنتے ہیں۔ ہاںکبھی کبھی یہ نکمے، یا نکمیاں کسی نیکوکار کے گلے میں پڑجائیں تو سمجھ لیجیے کہ یہ اس نیکوکار پر آزمائش کا دروازہ کھولا گیا ہے کہ دیکھا جائے کہ کتنا ثابت قدم رہتا ہے، سو اس پر وقت و حالات کے تحت صبر بھی کیا جاسکتا ہے اور راستہ علیحدہ بھی کیا جاسکتا ہے، مگر شادی کا لڈو کھلانے سے پہلے، نکمے اور نکمیوں کی شوگر ضرور ٹیسٹ کرلیا کریں، ورنہ کریلے کھلا کھلا کر آپ کی زندگی کا ذائقہ ضرور کڑوا کردیا جائے گا۔
٭٭٭