Promise

اور میں اپنے وعدے پر پورا اتروں گا!

Photo : FreePik

(۷)

جبیں چیمہ

بہت سارے لوگوں نے دیواروں پر چاکنگ کی ہوئی تھی۔
What is terrorism?
Attacking unarmed
palestinians during ramadan
Every single year

٭…٭

لیلیٰ نے غادہ کو اسکول میں داخل کروا دیا تھا مگر گھر آکے وہ ناخوش رہتی۔
وہ اپنے بھائی کو یاد کرتی رہتی جس کے ساتھ وہ سارا دن کھیلتی تھی۔

ناصر ایک دن دفتر سے واپس آیا تو اس نے لیلیٰ کو بتایا کہ وہ چند دنوں کے لیے افغانستان جا رہا ہے۔ جہادِ افغانستان شروع ہوئے پندرہ سال گزرچکے تھے۔ دنیا بھر کی فوجیں صلیبی جھنڈے تلے اسلامی ملکوں کے ہوائی اڈے اُن کی فضائی وسمندری حدود،ہرچیز ان کی مرضی سے استعمال کر کے ایک چھوٹے سے بے یار و مدد گار ملک کے پر چڑھ دوڑی تھیں۔یہ جنگ ایک دو دن کی نہیں، یہ مسلسل پندرہ سال سے جاری تھی اور اُن ’’دہشت گردوں‘‘ کے خلاف تھی جنھیں چند سال پہلے جہاد دروس کے موقع پر وہ خودحریت پسند مجاہدین کہتا تھا۔
ناصرپہلے بھی افغانستان جاچکا تھا۔

افغانستان جانے سے ایک دن پہلے وہ اور لیلیٰ دیر تک افغانستان کے بارے میں بات کرتے رہے۔
’’یاد رکھو جہاد جہاں جہاں بھی ہو رہا ہے۔ وہ علاقے چاہے ایک دوسرے سے جتنے بھی دور ہوں ان کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ہم سب ایک دوسرے سے طاقت حاصل کرتے ہیں۔ تم دیکھنا افغانستان کے جہاد میں اگر افغان فتح یاب ہوگئے تو ساری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کو طاقت ملے گی۔‘‘ ناصر نے لیلیٰ سے کہا۔

یہ تو اس صدی کا سب سے بڑاکرشمہ ہوگا کہ ساری دنیا کے صلیبی اور ان کے غلام مسلمان حکمران اتنی بڑی بڑی فوجوں، اتنی ٹیکنالوجی اور اسلحوں کے اتنے ڈھیروں کے ساتھ ان سولہ برسوں میں کابل تک محصور ہیں۔ اس سے آگے کہیں بھی جانا ہو تو انہی دہشت گردوں کے پاؤںپڑتے ہیں۔‘‘

لیلیٰ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اور یہ مسکراہٹ بہت مہینوں کے بعد اس کے ہونٹوں کو چھوئی تھی، ورنہ جب سے ابراہیم اور اس کے بابا دنیا سے گئے تھے، وہ مسکرانا جیسے بھول ہی گئی تھی۔ بس ان ظالموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی ایک آگ تھی جو اس کے سینے کو دہکائے رکھتی تھی۔

٭…٭
غادہ کو اسکول بھیج کے وہ گھر کے کام نمٹاتی اور پھر کوشش کرتی کہ فریال یا اپنی امی سے بات ہوجائے۔ اگر کبھی فون مل جاتا تو وہ خوش ہوجاتی۔ ویسے اِن دنوں ناصر گھر پر نہیں تھا تو اُس کی چھوٹی نند زہرا اس کے پاس رہنے کے لیے آگئی تھی جس سے گھر میں رونق ہوگئی تھی۔ ناصر کو جب بھی موقع ملتا وہ گھر فون کرلیتا مگر فون پر سوائے خیر خیریت کے اور کوئی بات نہ ہو پاتی۔

ناصر پندرہ دنوں میں گھر لوٹ آیا تھا اور اس دفعہ اس کے پاس کافی خبریں تھیں۔
صلیبی فوجیں تھک چکی تھیں۔ اُن کا غرور مٹی میں مل گیا تھا۔ ان کا سرمایہ ان کے اسلحے کے ڈھیر سب مٹی میں مل گئے تھے۔ وہ تابوت بھیج بھیج کے بھی اب تنگ آگئے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا کس قوم سے پالا پڑا ہے۔ افغان اپنی پندرہ لاکھ آبادی کٹوا کے بھی پہلے دن کی طرح پر سکون، پر اطمینان، خوش باش اور ثابت قدم تھے۔ وہ اگلی کئی دہائیاں لڑ سکتے تھے مگر کفر اب اپنی اگلی نسلیں مروانے کے حق میں نہیں تھا۔ اب وہ انہی دہشت گردوں سے بات چیت چاہتا تھا جن کو اس نے کھڑے کھڑے مجاہدین سے دہشت گرد بنادیا تھا۔

جو چاہے ترا ’کفر‘ کرشمہ ساز کرے
لیلیٰ کئی دن تک سرشار رہی۔ دنیا کے جس خطے میں بھی مجاہدین جیتتے، وہ جیت دنیا کے ہر مسلمان کی ہوتی تھی۔

سال کے آخر میں اللہ رب العزت نے لیلیٰ کو ایک اور فرزند عطا کیا جس کا نام حمزہ رکھا گیا۔ حمزہ کے آنے سے زندگی ایک دفعہ پھر رواں دواں ہوگئی۔

اور پھر یہ ۲۰۱۹ء کا سال تھا جب مصر کے معزول صدر محمد مرسی کو شہید کردیا گیا۔ اُن کی شہادت کی کہانی انتہائی دردناک تھی۔

مصر کے صدر محمد مرسی کی شہادت کو وہ جب سوچتی نجانے کیوں اسے وہ فسلطینی بچہ یاد آجاتا جس کی گردن دبوچے اسرائیلی درندے کھڑے تھے اور جس کو چھڑانے کے لیے اس کی والدہ دیوانہ وار اس کی طرف بڑھی تھیں مگر ان درندوں نے اس کی گردن پر بوٹ رکھ کر اسے اُس وقت تک دبائے رکھا تھا۔ جب تک اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ نہیں گئی تھی، اور اس رات ان میں سے کوئی بھی نہیں سو سکا تھا۔ اس کی امی اور ابا نے ساری رات خدا سے اس عفریت سے نجات کی دعا کی تھی اور صبح اٹھ کر انھوں نے سب کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا:

’’فکر نہ کرو، اللہ کا عذاب اِس سے کئی گنا بڑا اور سخت ہوگا۔ یہاں کا عذاب تو صرف زندگی تک ہے مگر آخرت کا عذاب نہ ختم ہونے والا ہے۔‘‘

’’مگر یہ تو کلمہ گو تھے۔ یہ تو نام نہاد ہی سہی مسلمان تھے پھر ان کے اندر اتنی بے رحمی کیسے آگئی؟!‘‘

لیلیٰ اپنے آپ سے سوال کرتی، پھر خود ہی جواب دیتی:
’’کون سے کلمہ گو، کون سا اسلام؟ اسلام تو وہ کب کا ترک کرچکے۔‘‘

اور پھر ۲۰۲۰ء کا سال فلسطینیوں کے لیے مزید پریشانیاں لے کر آیا۔ متحدہ عرب امارات نے فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات استوار کرلیے تھے۔ اندر ہی اندر یہ تعلقات بہت عرصے سے پنپ رہے تھے، مگر پہلے شاید آنکھ میں کوئی شرم تھی کہ یہودیوں سے محبت کی ان پینگوں کو آشکار نہیں کیا گیا تھا مگر اب یکایک اسرائیل سفارت خانہ یو۔ اے ای میں کھول لیا گیا تھا۔ فلسطینی برادران یوسف کی طرح کے اپنے مسلمان بھائیوں کو حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ یہ ہمارے بھائی ہیں جنھیں دیکھ کر قاتل بھی شرما جائیں مگر یو اے ای والے فرما رہے تھے کہ ہم نے بدلے میں اسرائیل سے معاہدہ کیا ہے کہ وہ غزہ اور مغربی کنارے (صحرائے سینا) کو اپنے اندر ضم نہیں کرے گا، گویا وہ فلسطینیوں کے بہت بڑے خیر خواہ بن رہے تھے۔

فلسطینی جانتے تھے کہ عرب کے شہزادوں نے اُن کے لیے جان دی ہے۔ وہ فتح کابل کو بھی دیکھ رہے تھے کہ کیسے مجاہدین کابل کے دروازے پر سجدہ ریز خوشی کے آنسو بہا رہے تھے۔ ان کے دل خوشی سے جھوم رہے تھے۔

اگر افغانستان فتح حاصل کرسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں۔ اگر بیس سال تک انھوں نے پوری دنیا کے مظالم سہے ہیں، اگر اس نے ۱۵ لاکھ شہری شہید کروائے ہیں تو ہم شہادتوں سے کب گھبراتے ہیں؟ ہم تو پیدا ہی اسرائیلی توپوں کی گھن گرج سنتے ہوئے ہیں اور وہ بھی مرنے کے لیے، تو جب مرنا ہی ہے تو پھر مار کر کیوں نہ مرا جائے! اس فتح نے ان کے لیے امید کی راہیں روشن کردی تھیں۔ ان کے دل امید سے بھر گئے تھے، اور یہ سب اس لیے تھا کہ اب فلسطینیوں کی اکثریت کی تربیت ’حماس‘ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ فلسطینی خواتین کا لباس بدل چکا تھا۔ ان کے گھر قرآن کی روشنی سے منور تھے۔ وہ اپنے بچوں کی رگوں میں اسلام کا آفاقی پیغام اتار رہے تھے۔

٭…٭
لیلیٰ کو دنیا کے سب سے بڑے قید خانے غزہ میں گئے کافی عرصہ گزر چکا تھا۔ ان دنوں وہ ایک بار پھر وہیں جانے کے لیے بے چین تھی۔ اپنی ضعیف بیوہ ماں، اپنے پیارے بھائی قاسم اور بہن فریال کو ملنے کے لیے بے تاب تھی جس کی محمد کے بعد اب ایک پیاری بیٹی فاطمہ اور ایک بیٹا طلحہ بھی تھا مگر اب وہ اپنے خاوند سے وہاں جانے کے لیے کہتے ہوئے ہچکچاتی تھی۔

افغانستان کی فتح کو چند دن ہوئے تھے، جب ایک دوپہر اوہ اپنے بچوں کے لیے کھانا بنا کر ان کے انتظارمیں بیٹھی تھی کہ باہر دروازہ زور سے بجا۔
لیلیٰ کا خیال تھا کہ بچے ہوں گے مگر آنے والے کو دیکھ کر اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ بے خیالی میں اسے دیکھتی چلی گئی۔ آنے والا بھی اس کی حالت سے محظوظ ہو رہا تھا۔

تب اس نے آنکھیں ملیں، پلکیں جھپکیں، مگر منظر وہیں کا وہیں تھا۔
’’قاسم…!‘‘ اس کے ہونٹ بے آواز ہلے۔

’’ہاں میری پیاری بہن! اب دروازے سے تو ہٹو۔‘‘
لیلیٰ نے ایسے خواب ساری عمر دیکھے تھے۔ وہ اب بھی اسے خواب ہی سمجھ رہی تھی۔ وہ سختی سے آنکھیں بند کیے کھڑی تھی۔ جب اسے اپنے بچوں کی حیران آوازیں پاس سے ہی سنائی دیں۔

’’امی! ماموں آئے ہیں۔‘‘ غادہ نے اتنے برسوں کے بعد بھی قاسم کو پہچان لیا تھا۔
’’حمزہ! یہ ہمارے ماموں ہیں۔‘‘ غادہ اب حمزہ کو قاسم سے ملوا رہی تھی۔

تب لیلیٰ نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔
قاسم دونوں بچوں کو چمٹائے کھڑا شرارت سے اسے دیکھ رہا تھا۔

’’قاسم!‘‘ لیلیٰ کے آنسو بہنے لگے۔ ’’تم کیسے آئے؟ تم اس پنجرے سے کیسے نکلے؟ امی اور فریال اور اس کے بچے اور یہاں وہ سب کیسے ہیں، کیا وہ نہیں آئے؟‘‘
اس نے بے ساختہ باہر دیکھا۔

’’وہ سب ویسے ہی ہیں جیسے تم انھیں چھوڑ کے آئی تھیں۔ تمھیں اور غادہ کو سارا دن امی اور فریال یاد کرتے ہیں۔‘‘
’’اور مجھے۔‘‘ حمزہ بولا۔

’’ارے شہزادے! آپ کو تو ابھی تک انھوں نے دیکھا ہی نہیں ہے۔ جب دیکھ لیں گے تو سب سے زیادہ آپ ہی کو یاد کریں گے۔‘‘ قاسم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’یعنی اسے دیکھتے ہی سب بدل جائیں گے۔‘‘ غادہ ناراضی سے بولی تو قاسم ہنس پڑا۔

’’اچھا چھوڑو یہ تو دیکھو میں کیا لایا ہوں؟‘‘
قاسم نے بچوںکو بہلایا۔

اور لیلیٰ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ قاسم کو سر پر بٹھا لے، وہ اسے ہر چیز کھلا دینا چاہتی تھی اور بار بار ایک ہی بات پوچھتی: ’’تم یہاں پہنچے کیسے؟‘‘

’’بھئی ہماری ماؤں نے ہمیں آزاد پیدا کیا تھا، پھر یہ صہیونی کون ہوتے ہیں ہمیں پنجرے میں ڈالنے والے۔ بس ہم ایک دن پنجرے کا دروازہ کھلا دیکھ کر پُھر سے اڑ کے آگئے۔‘‘ قاسم نے حمزہ کے بالوںکو چھیڑتے ہوئے کہا۔

تب لیلیٰ سمجھ گئیکہ وہ اسے کچھ بتانا نہیں چاہتا!

مگر ناصر کے آنے پر وہ جتنی بے تابی سے قاسم سے ملا اور اسے کہا کہ وہ آج کی رات سونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا بلکہ وہ آج کی رات قاسم کے نام کرچکا ہے تب لیلیٰ کو لگا کہ ناصر سب جانتا ہے، اور اس رات بچوںکے سونے کے بعد وہ دونوں نشست میں بیٹھے اتنی آہستہ آواز میں بات کر رہے تھے کہ لیلیٰ جتنی دفعہ بھی انہیں قہوہ دینے گئی۔ اس کے پلے کچھ بھی نہ پڑا۔

وہ جتنی دیر نشست گاہ میں رکی رہتی، وہ دونوں چپ رہتے یا اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگتے۔ اس نے دیکھا کہ کبھی کبھار وہ لوگ کاغذوں پر لکیریں کھینچتے اور پھر وہ کاغذ لائٹر سے جلادیتے۔ وہ ساری رات ان دونوں نے جاگ کر گزاری تھی۔
فجر کے بعد قاسم سویا تو ظہر کے وقت ہی اٹھ سکا۔ (جاری ہے)

٭٭٭