Childhood Graphic

قدم قدم پر روشن ستارے ہیں!

Photo : FreePiK

سیمی زاہد

بچپن میں اکثر بڑوں اور بزرگوں کو آہیں بھرتے سنا کرتے تھے کہ ہمارا بھی کیا وقت تھا۔ آج کل کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے۔ جبکہ ہمیں اپنے بچپن کی زندگی بڑی شاندار لگا کرتی تھی۔ کچھ آگے بڑھے تو ہم بڑوں کو ترحم آمیز نظروں سے دیکھ کر ’ناسٹلجیا‘ کا شکار قرار دے دیتے۔

شومئی قسمت، وقت اپنے ساتھ گھماتا پھراتا آج ہمیں بھی ناسٹلجیا کی دہلیز تک لے آیا ہے۔ ہمیں بھی اپنا گزرا وقت بہترین لگتا ہے اور آج کل کے بچوں کی مصروفیات اور مشاغل پر ہم ترس کھاتے ہیں۔

وقت اگرچہ اپنا آپ کسی پر عیاں نہیں کرتا تاہم اس کی جو چند ایک پرتیں ہماری زندگی میں کھلتی ہیں ان کے تلے ناسٹلجیا ہی دبا ملا ہے۔ میں اس کو قانونِ زندگی مانتی ہوں۔ انسان اپنی زندگی میں عروج و زوال کو درجہ بدرجہ برتتا ہے۔ عروج کے دور میں انسان خود کو اوجِ ثریا پر قیاس کرتا ہے لیکن ہر عروج کے بعد ڈھلان ہے، جس پر قدم سنبھل سنبھل کر رکھتے ہوئے مڑ مڑ کر پیچھے دیکھا جاتا ہے۔ مرتے دم تک ہم اس عروج کے سنہرے دور کی شان و شوکت تلے دبے رہتے ہیں۔

عروج و زوال کا یہ سفر انفرادی زندگیوں میں ہی نہیں ہوتا بحیثیتِ مجموعی یہ تمام کائنات اسی قانون کے تحت چل رہی ہے۔ ہمارے آبا جب جنت سے زمین پر اتارے گئے تو سمجھیں کہ انھوں نے پہاڑ کے دامن سے زندگی شروع کی۔ رب کی رہنمائی و نصرت میں بلندی کا سفر شروع ہوا۔ کمزور و ناتواں وجود لڑھکتے بھی رہے مگر حضرتِ انسان آخر کار صدیوں کے سفر کے بعد اس چوٹی کے قریب پہنچ گئے۔ حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد وہ آخری قدم تھا جس کے اٹھنے سے انسانیت چوٹی پر براجمان ہوئی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور بعثت انسانیت کی معراج تھی۔ وہ گھڑیاں اور ساعتیں مبارک ترین تھیں۔ انسانیت کی اخلاقیات سے آرائش کی گئی۔ افضل الانبیاء، افضل البشر چمکتے ستاروں جیسے وجود غرضیکہ کیا کیا فضیلتیں اس دورِ عروج میں دنیا پر نازل ہوئیں۔

مگر پھر چوٹی سے واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔ ہر اٹھتا قدم بلندی سے دور لے جانے والا تھا۔ ہر پڑاؤ برکتوں سے دوری پر تھا بلکہ سچ پوچھیے تو ہم حرمانِ نصیب اس قافلے میں تب شامل ہوئے جب دامنِ کوہ کا سفر چند قدموں کی دوری پر ہے…!

ذرا سر اٹھا کر پیچھے دیکھیے، یہ سفر کرنے والے کہاں سے شروع ہوئے تھے؟

بہت دور، بہت بلند، بہت ارفع، دیکھتے دیکھتے ہماری تو دستاریں بھی زمین بوس ہوجائیں۔

وقت بھی اپنا وہ رنگ و روپ کہیں اوپر چھوڑ آیا ہے جب برکتوں سے بھرا ہوتا تھا۔ وقت دنیا میں منجمد ہوجایا کرتا تھا اور ساعتیں معراج سے ہو آتیں۔ ہمیں تو جو وقت میسر ہے وہ ظالم ہے، جابر ہے، نہ برکتیں لُٹاتا ہے، نہ ساتھ چلنے دیتا ہے، اور اس کے ساتھ چلنے کی لگن میں ہم اپنا آپ ہلکان کیے جا رہے ہیں۔

یہ سفر اگرچہ پستیوں کا سفر ہے، واپسی کا سفر ہے مگر اندھیرا ایسا گہرا بھی نہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ اس کی چوٹی پر اور قدم قدم ہر ڈھلان پر روشن ستارے ایستادہ ہیں۔ ان کی روشن کرنیں چھن چھن کر ہم تک پہنچ ہی جاتی ہیں، راستہ دکھلا جاتی ہیں مگر دھیان رکھیے، راستہ بہت کٹھن ہے۔ قدم قدم پر کھائیاں، گڑھے اور چٹانیں ہیں۔ کبھی کبھی تو مہیب اندھیرے کی چادر یوں اپنے گھیرے میں لیتی ہے کہ دَم گھٹنے لگتا ہے، مگر یہ کرنیں اپنا راستہ بنالیتی ہیں۔ روشنی کے طلب گار تک پہنچ کر رہتی ہیں۔ ہاں اگر کوئی خود ہی اندھیری راہوں کا مسافر بن جائے، کرنوںکو چبھتا محسوس کرکے اندھیروں میں پناہ ڈھونڈے تو اس کا کیا حل؟ پھر تاریکی اسے نگلنے میں دیر نہیں کرتی۔

تاریکی میں دوست اور دشمن کے نقوش واضح نہیں ہوتے۔ انجانے میں کسی ڈاکو، لٹیرے کا ہاتھ نہ تھام لینا۔ کیا خبر جسے تم نجاتِ دہندہ جانو وہی تمھارا امتحان ہو۔ جسے تم رحمت سمجھو وہی تم پر عذاب ہو۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کی بدولت تم اپنے مسیحا ہی کی راہ کا روڑا نہ بن جانا۔ ڈرو اس وقت سے، جاگو اس گھڑی سے پہلے…!

میرے مالک تُو حق ہے، تیرا دین حق ہے۔ حق کو بقا ہے، حق کو دبایا جاسکتا ہے اور نہ مٹایا جاسکتا ہے۔ دنیا کے خاتمے تک ایک حق پر قائم جماعت باطل سے برسرِ پیکار رہے گی۔

اے میرے مالک!

ہمیں اُس جماعت کی نصرت کرنے والوں میں سے بنا، اس جماعت کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے، حق کو ہم پر واضح کردے۔

اے میرے مالک!

ہمیں اس قابل بنا کہ ہم اپنی جان، مال، اولاد، وقت کسی نہ کسی ذریعے سے اور کسی نہ کسی درجے میں حق کے مدد گار بن جائیں، آمین!
٭٭٭