Palestine Flag Graphic

غیرتِ مسلم زندہ ہے!

ام محمد سلمان

برتن اچھے دھلتے ہیں نہ کپڑے، بالوں کا الگ برا حال ہے۔ کیسے روکھے، بے رونق، بےجان سے ہو گئے ہیں۔ سن سلک شیمپو اور کنڈیشنر کیسی جان ڈال دیتا تھا بالوں میں! پتا نہیں کب تک یہ بائیکاٹ کرنا پڑے گا؟ بچے الگ اپنی پسندیدہ چیزوں کے لیے مچلتے اور تنگ کرتے ہیں، اور چہرے کی جلد تو دیکھو ایسا لگتا ہے ساری چمک دمک ہی غائب ہو گئی۔ پونڈز کریم نے کیسے میرے چہرے کی دلکشی برقرار رکھی ہوئی تھی۔‘‘

بڑبڑاتے ہوئے فاطمہ کو ٹی وی پر بارہا دیکھا وہ اشتہار یاد آیا:
میری نانی اماں کی جلد ساٹھ سال پرانی،

لیکن تروتازہ اور جوان
کیوں کہ وہ پونڈز کریم استعمال کرتی ہیں!

وہ آئینے کے سامنے بیٹھی ایک پاکستانی لوشن سے ہاتھوں کا مساج کررہی تھی اور ساتھ ساتھ بائیکاٹ سے ہونے والے اپنے خیالی نقصان پر بھی غور کررہی تھی۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات دیکھ دیکھ اور سن سن کے اسے ایسا لگتا تھا کہ اب ان چیزوں سے زیادہ اچھی چیز کوئی دنیا میں ہو ہی نہیں سکتی۔

’’بس اب کی بار تو میں اپنی ساری پسندیدہ چیزیں خرید لاؤں گی۔ تین مہینے سے ہر چیز چھوڑ رکھی ہے اور اب تو اسرائیل کی بھی کافی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک ہی اسرائیلی کمپنیوں کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ اب اتنے سارے لوگوں میں اگر میں ایک نہ بھی کروں تو کون سا فرق پڑ جائے گا…!‘‘
یہ خیال آتے ہی ایک اطمینان سا اس کے دل میں اتر گیا۔

’’بس ٹھیک ہے، کل ہی فواد کے ساتھ بازار جاؤں گی اور اپنی پسند کی ساری چیزیں خریدوں گی۔ آج تو واشنگ مشین لگا کر کپڑے دھو لیتی ہوں۔‘‘
’’اوہ سرف بھی تو وہی ہے۔‘‘ کپڑے دھونے کے خیال سے اس کا پھر منہ بن گیا۔

’’سرف ایکسل اور برائٹ سے کتنے اچھے کپڑے دھلتے تھے اور خوشبو الگ، لیکن یہ لوکل تو سرف عجیب سا ہی ہے۔ نہ جھاگ صحیح بنتے ہیں اور نہ کپڑوں کے داغ صاف ہوتے ہیں۔‘‘
اس نے اچھے بھلے مقامی سرف کوسا، حالانکہ سب محلے والے اسی دکاندار سے سرف خرید رہے تھے اور معیار سے بھی مطمئن تھے بلکہ اس کی قیمت بھی اشتہاری برانڈز سے بہت کم تھی۔

ابھی وہ کپڑے دھوکر فارغ ہی ہوئی تھی کہ سامنے والی شائستہ چلی آئی۔
’’آؤ بھئی آؤ۔‘‘

اس نے کھلے دل سے خیر مقدم کیا۔

شائستہ بڑی کھلی کھلی لگ رہی تھی۔ چہرہ چمک رہا تھاتو پوچھ ہی لیا:

’’واہ بھئی، بڑی لشکارے مار رہی ہو، کیا تم نے بائیکاٹ ختم کر دیا؟ لے آئیں اپنی پسندیدہ کریم اور فیشل کا سامان؟‘‘
’’ارے میں کیوں لاؤں ان ظالموں کی مصنوعات، اللہ نہ کرے اب کبھی زندگی بھر ان کی چیزیں خریدوں۔‘‘

اس نے قطعیت سے جواب دیا۔
’’تو پھر یہ چہرے پر چمک کیسی؟ میں تو سمجھی…‘‘

اس نے جان بوجھ کے جملہ ادھورا چھوڑا۔
’’نہیں بھئی ایسا کچھ نہیں۔ یہ تو دراصل ایک گھریلو نسخے کا کمال ہے جو ایلوویرا، السی اور چاول کے آٹے سے بنتا ہے۔ بس دو تین دفعہ ہی استعمال کیا ہے اور ماشااللہ سو فیصد نتائج ملے ہیں۔ میری خالہ زاد بہن نے بتایا تھا۔ دراصل ان سب نے بھی بائیکاٹ کر رکھا ہے نا تو انھوں نے اپنی تائی اماں کی ڈائری سے ایک نسخہ نکالا تھا کہ چلو بھئی استعمال کر کے دیکھ لیں۔ مجھ سے تذکرہ کیا تو میں نے بھی ساتھ ہی بنا لیا اور دیکھ لو نتیجہ تمھارے سامنے ہے۔‘‘

اس نے ذرا اتراتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
’’ہاں کہتی تو ٹھیک ہو چمک رہی ہو ماشاء اللہ! اچھا مجھے بھی بتانا میں بھی استعمال کر کے دیکھوں گی۔‘‘

’’ہاں ہاں ضرور استعمال کرو بھئی، میں ابھی گھر جا کر نسخے کی تصویر کھینچ کر تمھیں واٹس ایپ کر دوں گی۔ چلو اب چائے تو پلا دو نا اچھی سی۔‘‘
’’ہاں ہاں کیوں نہیں چلو باورچی خانے میں ہی چلتے ہیں دونوں۔ مل کر چائے بھی بنا لیں گے اور میں ساتھ برتن بھی دھو لوں گی۔‘‘

شائستہ ہنستے ہوئے چائے کا پانی رکھنے لگی اور فاطمہ برتن دھونے میں مشغول ہو گئی۔
’’یہ دیکھو میں تو تنگ ہوں اس لوکل صابن سے، عجیب سی بو آتی ہے اس میں، لیمن میکس سے کتنے اچھے برتن دھلتے تھے نا۔ بس میں تو اب کی بار وہی خرید لاں گی۔‘‘

’’ارے اتنی جلدی ہار مان گئیں؟‘‘
شائستہ ایک دم جھٹکے سے اس کی طرف مڑی۔

’’کیا تم بائیکاٹ ختم کر دو گی؟‘‘ اسے حد درجہ افسوس ہوا۔
’’ہاں سوچا تو یہی ہے، اب دیکھو نا ہر چیز میں پریشانی ہو رہی ہے۔‘‘

’’کیا پریشانی ہے بھئی، یہ دیکھو وائٹل کی چائے کتنی زبردست اور خوشبو دار بنتی ہے۔ بھئی سچ بات ہے مجھے تو وائٹل کا ذائقہ سپریم اور لپٹن چائے سے بھی اچھا لگتا ہے۔ اور ویسے بھی چائے بنانے میں چائے کی پتی سے زیادہ چائے بنانے والے ہاتھوں کا کمال ہوتا ہے، لکھ لو میری یہ بات۔‘‘
وہ پیالیوں میں چائے انڈیلتے ہوئے بولی۔

’’ہاں بھئی اس میں تو کوئی شک نہیں، تمھارے ہاتھ کی بنی چائے کا واقعی جواب نہیں ہوتا۔ اسی لیے تو میں ہمیشہ تمھاری آمد پہ خوش ہوتی ہوں کہ اب ایک مزیدار چائے پینے کو ملے گی۔‘‘
فاطمہ نے ہنستے ہوئے اعتراف کیا۔

دونوں صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھ کر ہلکی ہلکی دھوپ میں چائے کی چسکیاں لینے لگیں۔
٭…٭

کچھ دیر بعد شائستہ چلی گئی تو وہ بھی اپنے کام نمٹانے لگی۔ شام کو کچھ مہمان آ گئے تو کافی مصروفیت رہی۔ رات تھک ہار کر سونے لیٹی تو موبائل کا خیال آیا۔ شائستہ نے نسخہ بھیجنے کا کہا تھا دیکھوں تو سہی بھیجا یا نہیں۔
اس نے واٹس ایپ کھولا۔ سو ڈیڑھ سو سے اوپر میسج آئے ہوئے تھے۔ کئی گروپوں میں ایڈ تھی تو میسجوں کی بھی بھرمار تھی۔ اس نے نام دیکھ کر شائستہ کی چیٹ کھولی وہاں نسخے کی تصویر بھی تھی اور ساتھ فیس بک کی کسی پوسٹ کا لنک بھی۔

اس نے بےخیالی میں ہی لنک کھول لیا مگر آگے جو کچھ دیکھا وہ اس کے خون اور غیرت کو گرما دینے کے لیے کافی تھا۔
ایک مختصر ویڈیو کلپ تھا جس میں کوئی ملعون مسلمانوں کو کتوں سے تعبیر کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ یہ مسلم چند دن ہماری مصنوعات کا بائیکاٹ کریں گے اور پھر کتوں کی طرح ہماری مصنوعات پر ٹوٹ پڑیں گے.

غصے اور توہین کے احساس سے اس کے کانوں کی لویں سرخ ہو گئیں۔
’’یہ منحوس شخص ہمیں کتوں سے تعبیر کر رہا ہے۔‘‘

اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کی بوٹیاں نوچ ڈالے۔ اگرچہ دن بھر کی تھکی ہاری تھی اور لیٹتے ہی سو جانا چاہتی تھی مگر اب بستر پر چین نہیں مل رہا تھا۔ بے بسی سے کروٹیں بدلنے لگی۔ دل ایک دم اداس اور غمگین ہو گیا۔ اپنی صبح کی سوچوں اور ارادوں پر خود ہی شرمندہ ہو گئی۔ غزہ کے مظلوم مسلمانوں اور معصوم بچوں پر کیے جانے والے حملے اور قتل و غارت کے مناظر اس کی آنکھوں میں گھومنے لگے۔

پناہ گزین کیمپوں پر حملے، اسپتالوں پر حملے، رہائشی عمارتوں پر بمباری، اسکولوں اور کھیل کے میدانوں پر حملے بھوک اور وسائل کی کمی کہیں بھوک سے روتے بلکتے بچے تو کہیں والدین کی جدائی میں تڑپتے روتے سسکتے بچے۔ کہیں اپنے شہید نونہالوں کو گود میں اٹھائے غمزدہ والدین، کہیں تکبیر بلند کرتے معصوم شہری۔ اسلام کی خاطر اپنے مضبوط اور بلند عزائم پر ڈٹے وہ فلسطینی لوگ جو ابھی تک نہ تھکے اور نہ ہارے اور یقینا وہ کبھی ہار نہیں مانیں گے۔ وہ سارے کے سارے بھی اس جنگ میں شہید ہوگئے تو کامیاب ہیں فتح ہر طرح سے انہی کی ہے۔ چاہے وہ غازی بنیں یا شہید!

’’لیکن ہم کیا ہیں؟‘‘
اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔

وہ تو شہادت کا تمغہ لے کر کر تکلیفیں سہہ کر جنتوں کے مکین بن رہے ہیں مگر ہم کہاں کھڑے ہیں؟
ایک بہت بڑا سوالیہ نشان اس کے سامنے کھڑا تھا۔

سنگھار میز کے آئینے میں اس نے اپنے آپ کو دیکھا تو اسے اپنی صورت ایک کریہہ چڑیل کی طرح نظر آئی، بچوں کا خون پینے والی چڑیل!
’’نہیں نہیں ہرگز نہیں میں ایسی نہیں ہوں۔‘‘

اس نے اپنے گالوں پر سختی سے ہاتھ پھیرا۔
’’مجھے کوئی کریم نہیں، کوئی میک اپ نہیں چاہیے، مجھے اپنے بچوں کے لیے مکڈونلڈ کے برگر اور پیپسی بھی نہیں چاہیے، میں ایسی بالکل نہیں ہوں۔ میری رگوں میں شریف ماں باپ کا خون ہے۔ میں ایسا کیسے کر سکتی ہوں بھلا اور نہ ہی اپنے بچوں کو ان کی چیزیں کھلا کر ان کی غیرت کو تھپکی دے کر سلا سکتی ہوں بلکہ مجھے تو اپنی اولاد کے دلوں میں ان کے مظلوم بہن بھائیوں کا درد زندہ رکھنا ہے۔ میں اپنے مظلوم فلسطینی بہن بھائیوں کے لیے لڑ سکتی ہوں نہ کسی اور طرح ان کی مدد کر سکتی ہوں۔ وہ تو بس ہم سے اتنا ہی تو چاہتے ہیں کہ ہم ان کے دشمنوں کا ساتھ کسی طرح بھی نہ دیں۔ امریکا، اسرائیل اور ان کے تمام اتحادیوں کی مصنوعات خرید کے انھیں سرمایہ فراہم کر کے مضبوط نہ کریں۔ ہم کمزور خواتین اور بچے تو اپنے مسلمان بھائیوں کی اسی طرح مدد کرسکتے ہیں۔‘‘

فاطمہ کے دل سے آواز آئی۔ ’’ہم بائیکاٹ جاری رکھیں گے ان شاء اللہ! ہم کبھی ان کی طرف نہیں پلٹیں گے۔ ہماری ایمانی غیرت اور مسلم حمیت کا یہی تقاضا ہے۔ مسلم غیرت ابھی زندہ ہے، مری نہیں ہے۔ اس کے جذبے ٹھنڈے ضرور ہو جاتے ہیں لیکن مردہ نہیں ہوتے۔ ذرا سی حرارت ملتے ہی دہکنے لگتے ہیں۔
٭٭٭