Khawateen Ke Deeni Masail

خواتین کے دینی مسائل

اسلام میں میت کی عزت:

سوال: گزشتہ دنوں ایک ویڈیو میں ایک عجیبمنظر دیکھاکہ ایک جگہ جنازہ رکھا ہے، ارد گرد کافی لوگ جمع ہیں، ان میں ایک شخص ڈنڈا ہاتھ میں لیے آگے بڑھا اور چارپائی پر پڑی میت کی پٹائی شروع کردی۔ پوری قوت سے ڈنڈے برساتا رہا، پھر دوسرا شخص ڈنڈا لیے آگے بڑھا اس نے بھی یہی عمل کیا، پھر تیسرا پھر چوتھا پھر… یکے بعد دیگرے کئی لوگوں نے میت کی پٹائی کی۔ یہ منظر دیکھ کر ہم سکتے میں آگئے۔ بتایا گیا کہ یہ سیاہ فام افریقی کسی عیسائی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ میت کو اس طرح دنیا میں سزا دے دی جائے تو وہ آخرت کی سزا سے بچ جاتاہے، آپ اس پر روشنی ڈالیں، دین اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے؟ (ام رمیثہ۔ صادق آباد)

جواب:میت کواسلام میں جو عزت دی گئی ہے، وہ دنیا کے کسی مذہب و ملت میں نہیں دی گئی، چنانچہ کسی مسلمان کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی اس کے اعزہ و لواحقین کو پابند کیا گیا ہے کہ میت کو فوری طور پر عمدہ طریقے سے غسل دے کر خوشبو لگا کر نئے کپڑوں میں کفنا کر اجتماعی صورت میں نمازِ جنازہ ادا کریں، پھر اجتماعی صورت ہی میں قبرستان لے جا کر پورے اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کریں۔ باقی سوال میں جو منظر ذکر کیا گیا دین اسلام بلکہ دنیا کے کسی دین و مذہب میں ایسی درندگی کا کوئی تصور نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میت کی ایذا رسانی کو ایسا ہی گناہ قرار دیا جیسا زندہ انسان کی ایذا رسانی کو، چنانچہ ارشاد فرمایا: لان یجلس احدکم علی جمرۃ فتحرق ثیابہ فتخلص الی جلدہ خیر من ان یجلس علی قبر (مسلم) تم میں کوئی شخص دہکتے انگارے پر بیٹھ جائے جو اس کے کپڑوں کو جلا کر جلد تک پہنچ جائے، یہ اس سے بہتر ہے کہ کسی قبر پر بیٹھے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے: لان اطأ علی جمرۃ احب الی من ان اطأ علی قبر مسلم (طبرانی فی الکبیر باسناد حسن) میں جلتے انگارے پر پاؤں رکھ دوں یہ مجھے پسند ہے اس سے کہ کسی مسلمان کی قبر پر پاؤں رکھوں۔ حضرت عمارہ بن حزم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں ایک قبر پر بیٹھا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیکھ کر ارشاد فرمایا: اے قبر (پر بیٹھنے) والے! قبر سے اترو، نہ صاحب قبر کو ایذا دو، نہ وہ تمھیں ایذا دے۔ (طبرانی فی الکبیر)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسر عظم المیت ککسرہ حیا (ابوداؤد، ابن ماجہ، ابن حبان) میت کی ہڈی توڑنا ایسا ہے جیسے زندہ کی ہڈی توڑنا۔ مزید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: اذکروا محاسن موتاکم و کفوا عن مساویھم (ابوداؤد، ترمذی، ابن حبان) ’’اپنے مردوں کی خوبیوں کا تذکرہ کرو ان کی خامیوں (کے تذکرے) سے باز رہو۔‘‘

نیز فرمایا: لاتسبوا الاموات فانھم افضوا الی ماقدموا۔ (لابن حبان)

’’مردوں کو برا بھلا مت کہو، اس لیے کہ وہ اپنے کیے کو پہنچ چکے ہیں۔‘‘ پھرؔ میت پر ڈنڈے برسا کر یہ عقیدہ رکھنا کہ اس سے اس کی نجات ہوگی اور آخرت کے عذاب سے وہ چھٹکارا پا جائے گا کس قدر عجیب اور مضحکہ خیز عقیدہ ہے؟ نجات کا واحد وسیلہ ایمان و اعمال ہیں، ایک شخص ایمان و عمل سے تہی دست گناہوں کے انبار لے کر دنیا سے چلا جاتا ہے تو بے جان لاش کو مارنے سے اِن گناہوں کا تدارک ہوجائے گا؟ بالخصوص اہل حقوق کی حق رسی ہوجائے گی؟ مختصر یہ کہ میت کو مارنا ایک لغو و لایعنی حرکت ہے اسے ذریعۂ نجات سمجھنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ واللہ الہادی الی سبیل الرشاد۔

میاں بیوی کی گواہی ایک دوسرے کے حق میں:

سوال: میاں بیوی کی گواہی ایک دوسرے کے حق میں قابل قبول ہے یا نہیں؟

جواب: میاں بیوی کی گواہی ایک دوسرے کے حق میں قابل قبول نہیں۔

لاتقبل شھادۃ احد الزوجین للاخر لان الانتفاع بینھما متصل فتقع الشھادۃ لنفسہ من وجہ ولوجود التھمۃ۔ (الفقہ الحنفی وادلتہ ص ۴۰)

جو عورت دنیا میں خاوند کو نہیں چاہتی، وہ جنت میں کس کی منکوحہ ہوگی؟

سوال: اگر میاں بیوی مومن و متقی اور جنتی ہیں، لیکن بیوی کے دل میں انقباض و تنفر ہے، خاوند کو دل سے نہیں چاہتی تو کیا جنت میں وہ مرضی کی شادی کرے گی یا اسی خاوند کے ساتھ رہنے پر مجبور کی جائے گی؟

جواب: خاوند سے نفرت کرنے والی بیوی اگر جنت میں گئی تو بدستور اسی خاوند کی بیوی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ اس نفرت و کراہت کو محبت سے بدل دیں گے۔ ونزعنا مافی صدورھم من غل…!
٭٭٭