Editor Ke Qalam SE

تکبر

تکبر

انتخاب: محمد ولی الدین۔ گڑھاموڑ

ایک صاحب نے کسی رئیس شخص کو طواف کرتے دیکھا۔
اس کے آگے پیچھے اس کے نوکر چاکر ’’ہٹو بچو …ہٹو بچو ‘‘کا نعرہ لگا رہے تھے اور اس رئیس کی خاطر لوگوں کو دھکے دے کر طواف کا راستہ آسان بنا رہے تھے۔

اس بات کو کچھ وقت گزر گیا تو اچانک کسی کام کے لیے ان صاحب کو بغداد جانا پڑا، کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص بغداد کے شہر کے ایک پل پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا لوگوں سے پائی پائی کا سوال کر رہا ہے۔
اس نے خوب نظر جما کر اس فقیر کی طرف دیکھا تو اس نے کہا:

’’تم میری طرف نظرجمائے کیوں دیکھ رہے ہو؟‘‘
اس نے کہا:’’کچھ عرصہ قبل میں نے آپ کی شکل و صورت سے ملتی جلتی شخصیت کو بیت اﷲ میں اپنے خدام کے ہمراہ طواف کرتے دیکھا تھا، وہ ’’ہٹو بچو ‘‘کے نعرے لگاتے ہوئے عوام الناس کو تکلیف دے رہے تھے اور اس شخص کے لیے طواف کا راستہ آسان بنا رہے تھے۔ ‘‘

اس نے فوراً جواب دیا:
’’ہاں ہاں میں وہی بدبخت ہوں جس نے ایسی جگہ بھی تکبر کیا جہاں باد شاہ و فقیر سب کی گردنیں جھک جاتی ہیں اور وہ عاجزی اختیار کرتے ہوئے اﷲ سے سوال کرتے ہیں مگر میں وہاں پہنچ کر بھی اپنی چودھراہٹ پر ڈٹا رہا۔ بس اسی تکبر اور غرور کے جرم میں اﷲ نے مجھے ایسی جگہ لا کھڑا کیا جہاں سب لوگ مجھ سے اعلیٰ و بالا ہیں اور میں ان کے سامنے فقیرانہ ہاتھ پھیلائے آج ایک ایک پائی کا محتاج ہوں۔‘‘

٭٭٭

میں سمجھا نہیں!
عطاء اللہ خان۔ موسیٰ خیل

سنہ1770ء میں برطانوی مہم جو جیمز کک، بحری سفر کے دوران جہاز میں کچھ خرابی ہو جانے کی وجہ سے آسٹریلیا کے شمال مشرقی ساحل پر مرمت کی غرض سے لنگر انداز ہوا۔
اس نے وہاں کچھ عجیب الخلقت جانوروں کو دیکھا جو اس نے پہلے اس نے کبھی نہیں دیکھے یا سنے تھے۔

اس نے بے ساختہ کام کرتے ابورجی قبیلے کے ایک مزدور سے پوچھا:
’’یہ کون سے جانور ہیں؟‘‘

وہ ظاہر ہے انگریزی نہیں جانتا تھا سو سوال نہ سمجھ پایا اور اپنی زبان میں کہنا:
Kang A’roo(میں سمجھا نہیں!)

جیمز کک نے اس عجیب الخلقت تھیلی والے جانور کا نام اپنی ڈائری میں کینگرو (Kangaroo) لکھا اور واپس جہاز کی جانب بڑھ گیا۔
٭٭٭

تنہائی سنوارو!
محمد احمد۔ کراچی

’’واللہ! میں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص نماز روزے کی کثرت کرنے والا، کم گو، اور طبیعت و لباس سے خشوع ظاہر کرنے والا ہوتا ہے؛ مگر دل ہیں کہ اس سے دور بھاگتے ہیں، اور لوگوں کے ہاں اس کی خاطر خواہ قدر نہیں ہوتی۔
اس کے بالمقابل یہ بھی دیکھا ہے کہ ایک شخص سجے دھجے لباس والا، کم عبادت گزار، اور خشوع ظاہر نہ کرنے والا ہوتا ہے؛ مگر دل ہیں کہ اس کی محبت میں کھینچے چلے جاتے ہیں۔

میں نے اس کے سبب پر غور کیا تو دیکھا کہ یہ تنہائی ہے!
جو اپنی تنہائی سنوار لیتا ہے، اس کی خوبیوں کی خوشبو چہار سُو پھیل جاتی ہے، اور دل اس خوشبو کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ سو اللہ کے لیے تنہائیاں سنوارو کہ خلوتیں خراب ہوں تو جلوتوں کی خوبیاں کچھ فائدہ نہیں دیتیں۔‘‘

(صيد الخاطر لابن الجوزي : ٢٢٠)
٭٭٭

بد مذاقی کی انتہا!
مصطفیٰ شہزاد۔ لاہور

حکیم الامت جناب مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں کہ ہماری بدمذاقی کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ ایک بار مدراس شہر میں ایک غریب انگریز مسلمان ہوا۔ مسجد میں آکر دیکھا کہ نالی میں بہت سا رینٹھ وغیرہ پڑا ہے۔ اس نے منتظمین سے کہا کہ مسجد کو صاف
رکھنا ضروری ہے، اس کی حالت ایسی خراب نہ رکھنی چاہیے۔

اس کی بات سن کر وہ لوگ کہنے لگے کہ تجھ میں ابھی تک عیسائیت باقی ہے، ابھی صفائی کی خو دماغ سے نہیں نکلی، گویا مسلمان کے لیے میلا کچیلا خراب و خستہ رہنا لازم ہے اور صاف ستھرے تو عیسائی ہی رہتے ہیں معاذاللہ!

خیر یہ کہہ کر اس قدر برہم ہوئے کہ اس کو مار کر مسجد سے نکال دیا۔
بعض داناؤں کو اس حرکت کی اطلاع ہوئی تو اس انگریز کے پاس آئے اور تسلی تشفی کرنے لگے۔ اس نے کہا کہ کیا آپ کو یہ اندیشہ ہے کہ میں ان لوگوں کی اس حرکت سے اسلام کو چھوڑ دوں گا؟ میں ان لوگوں پر ایمان نہیں لایا بلکہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لایا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ حضور صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے نہ تھے۔

(امثالِ عبرت، صفحہ ۱۱۳)
٭٭٭