Gulab Jamun

گلاب (جامن) کی خوشبو!

ابوالحسن۔ سینٹرل جیل، کراچی

محترم جناب پروفیسر محمد اسلم بیگ صاحب سے محبت، احترام اور عقیدت کا تعلق ہے جو اگرچہ یک طرفہ ہے لیکن مضبوط ہے۔ ’یادوں کے گلاب‘ ہمارے لیے دو اعتبار سے متبرک ہے۔ ایک تو یہ محترم مدیر صاحب کی جانب سے ہدیۃً ملی ہے اور دوسرے اس لیے کہ ’مدیر اعظم‘ کو بھی پروفیسر صاحب کی طرف سے یہ کتاب ہدیۃً ملی تھی۔ (جناب! آپ کو غلطی سے ہماری والی کتاب چلی گئی، ورنہ ہمارے پاس ان کی نصف صد کتابیں موجود ہیں)

کتاب کا سرورق بہت خوب صورت ہے جسے دیکھ کر تازگی اور کشادگی کا احساس ہوتا ہے۔ صبح کا وقت، ابھرتا سورج اور مینائیں، چمن اپنے جوبن پر ہے۔

انتساب جن مبارک ہستیوں کے نام ہے، یعنی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین، تحریروں میں انہی کی اطاعت کا درس دیا گیا ہے اور انہی کا راستہ صراطِ مستقیم ہے۔

کتاب کے شروع میں ۷ تقاریظ کا ایک خوب صورت دھنک رنگ گل دستہ، بذاتِ خود ایک سوغات ہے۔

پہلے سے پڑھی ہوئی تحریروں کو دوبارہ پڑھنے پر نئی تازگی ملی۔ تحریر اتنی دلچسپ اور شگفتہ ہے کہ کتاب شروع کرنے کے بعد آسانی سے رکھی نہیں جاسکتی۔ ان تحریروں میں حلاوت و طراوت، تازگی و سادگی، فصاحت و بلاغت، نکتہ آفرینی، مزاح کی چاشنی، دینی حمیت، جذبہ اخوت، اہل اللہ سے محبت اور ان کی قدر و منزلت، سوز و گداز اور گہرا مشاہدہ، سبھی کچھ ملتا ہے۔

اثر لبھانے کا پیارے، تری زبان میں ہے

کسی کی آنکھ میں جادو، ترے بیان میں ہے

مثبت سوچ اور پر امید رہنے کا سبق سکھاتی یہ تحریریں صحیح معنوں میں گلابوں کا ایسا گل دستہ ہیں جس کا ہر گلاب دلکش ہے۔ پروفیسر صاحب بچوں کا اسلام میں ہمارے پسندیدہ ترین لکھاری ہیں۔ یہ کتاب پڑھ کر ان سے محبت میں اضافہ ہوا۔ ان سے پہلی اور ان کے بعد والی نسل (والد گرامی اور ان کے بیٹے) دونوں استاد نسلیں ہیں اور یہ بیک وقت استاد، لکھاری، دینی علوم اور علماء و صلحاء کے ساتھ شغف رکھنے والے، صحافت و سیاست سے دلچسپی رکھنے والے بلکہ سیاسیات کے تو استاد ہیں۔ تحریروں کی رنگا رنگی اس بات کا ثبوت ہے۔ بقول غالب ؎

دبیرم، شاعرم، رندم، ندیمم شیوہہا دارم

’انعام‘ سے اندازہ ہوا کہ محکمہ تعلیم کی زبوں حالی کے باوجود اچھے لوگ موجود ہیں۔ ماحول خواہ کتنا ہی خراب ہو، انسان اگر راست بازی اور دیانت داری کے ساتھ، باطل کے مقابلے میں ڈٹ جائے تو بہت جلد نصرت خداوندی ساتھ ہوجاتی ہے اور ساری مشکلات دور ہوجاتی ہیں۔ ’میں اور ہم‘ میں تحقیقی انداز میں واضح کیا گیا کہ تکبر یا تواضع کا تعلق نیت سے ہے نہ کہ صرف الفاظ کے استعمال سے۔ اپنا تو محاسبہ خوب کرنا چاہیے دوسروں پر لیکن حکم لگانے میں بہت احتیاط چاہیے۔ ’آج پھر‘ ایسی دل گداز تحریر ہے کہ بہت دیر دل پر اس کا اثر رہا۔ رسالے میں جب یہ تحریر پڑھی تھی تب بھی یہی حال ہوا تھا۔ جانِ گل، زرغونہ گل، انار گل، تازہ گل نام بہت دلچسپ لگے۔ بالآخر تازہ گل کی دلھن ہی جان گل کے لیے گلِ تازہ ثابت ہوئی۔ ’سسرال میں پہلا دن‘ میں دیورانیوں اور جیٹھانیوں کا آپس میں حسن سلوک، ہمارے معاشرے کے لحاظ سے نادر و نایاب منظر ہے۔ ظل جبرائیل، میکائیل واسرافیل نام بھی بہت منفرد استعمال کیے۔ پروفیسر صاحب کی تحریریں ان رسالوں میں شائع ہونے والی دیگر تحریروں کے مقابلے میں نسبتاً طویل ہوتی ہیں، لیکن تجسس آخر تک برقرار رہتا ہے۔ شعروں کے خوب صورت انتخاب نے اس تحریر کی تاثیر کو دو آتشہ کردیا۔

’لیڈری کا بھوت‘ بعض خواتین کو ایسی بری طرح چمٹا ہے کہ وہ گھر کے اصل لیڈر کو ماننے کو تیار ہی نہیں۔ اپنے اہل خانہ کی خدمت کو غلامی اور سارے جہاں کی خدمت و غلامی کو آزادی سمجھتی ہیں۔ جدید (جاہلی) تہذیب کے پھیلائے ہوئے تعفن میں عورت کو بے حیا بنانے کا ہدف، اہم ترین ہے اس کے لیے خاندانی نظام کو توڑنا بہت ضروری ہے۔ علاج اس کا بھی وہی آپ نشاط انگیز ہے ساقی۔

’طلیعہ‘ رسول الملاحم اور امام المجاہدین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جنگی حکمت عملی کا ایک اہم پہلو بیان کیا گیا۔ ذلت و رسوائی سے بچنے کے نبوی نسخے کو چھوڑنے کی وجہ سے آج امت مسلمہ زوال کا شکار ہے ایسے میں اس تحریر کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
تیرے بدر واحد کے تذکروں کے میں ورق الٹ کے گزر گیا

مجھے صرف تیری روایتوں کی حکایتوں نے مزا دیا

’ہریالی چن لی‘ سرسبز نمبر کی اہم ترین تحریروں میں سے ایک، بہت پسند آئی۔ پہلے بھی کئی بار پڑھی۔ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ایمان کا حصہ ہے۔ پروفیسر صاحب کے طرز بیان نے اسے لازوال تحریر بنادیا۔ ’قطرے سے گہر ہونے تک‘ بہت دلچسپ اور شگفتہ تحریر، عمدہ اشعار سے مزین ہے۔ ’نوٹسِ خویش‘ نے بہت مزا دیا۔ ’تدریس قرآن کے رہ نما اصول‘ پر تبصرہ بہت پسند آیا۔

یہ کتاب تو تحفہ ہے ہی، تبصرے میں اس کا جتنا حصہ چھپا، وہ بہت خاص اور مفید ہے۔ یہ کتاب حاصل کرنے کا عزم مصمم کیا۔ ’پہلا قرینہ‘ قرآن مجید کا ادب سکھانے کے ساتھ ساتھ، بزرگوں کا ادب اور ان کی بات کو مکمل توجہ کے ساتھ سننے اور عمل کرنے کا درس سکھاتی تحریر ہے۔ بہت اہم سبق ملا۔ ’یادوں کے گلاب‘ جس تحریر کی نسبت سے یہ کتاب منسوب ہے۔ واقعی مشک بار یادوں کا ایک خزانہ ہے۔ اشتیاق احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی محبت، الفاظ سے پھوٹتی محسوس ہوتی ہے۔ مفتی آصف قاسمی صاحب کی مشکلات کو اللہ جل شانہ دور فرمائیں اور جلد بعافیت آزادی عطا فرمائیں اور تمام جائز حاجات اپنے خزانۂ غیب سے پوری فرمائیں۔ وہ یقینا اس شعر کا مصداق ہیں

ہے اسیری اعتبار افزا گہر ہو فطرت بلند

قطرہ پنہاں ہے زندانِ صدف سے ارجمند
’مرد ہمم‘شاہ جی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ جملہ گویا قطرے میں دجلہ ہے ’پیغام لانے والا تیرہ سو سال پہلے جو پیغام لایا تھا اس پر تم لوگ کتنا عمل کر رہے ہو؟‘‘

’فاتح عالم‘ مضمون بہت پسند آیا اور علامہ خالد محمود رحمۃ اللہ علیہ جیسی عبقری شخصیت سے محرومی کا غم تازہ ہوگیا۔ مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ سے پروفیسر صاحب کی عقیدت و محبت ان کے مضمون ’مرد قلندر‘ سے خوب واضح ہوتی ہے۔ ’انٹرویو‘ پہلی بار پڑھا۔ کئی باتیں معلوم ہوئیں۔ سرور مجذوب سے پروفیسر صاحب بھی مجذوب ہی ہیں لیکن یہ عرفی مجذوب نہیں بلکہ پابند شریعت حقیقی مجذوب ہیں۔

’بے پر پرندے‘ ظاہر ہے حسبِ حال ہونے کی وجہ سے بہت پسند آئی۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور خارجہ غاصبوں کے قبضے سے نجات پانا ہی مکمل آزادی نہیں بلکہ شرعی احکام کامکمل نفاذ اور نفس و شیطان کی اطاعت سے آزادی کے بغیر آزادی کا تصور نامکمل ہے۔ ذہنی غلامی اور قید ہی اصل قید ہے۔

’یادوں کے جگنو‘ تو ہم نے نہیںپڑھی، البتہ پروفیسر صاحب کی اگلی کتاب کا ممکنہ عنوان ’یادوں کی پھلواری یا یادوں کا چمن‘ ہوسکتا ہے کہ یہاں موجود ’گلابوں‘ پر ’جگنو‘ آسکتے ہیں۔
اللہ پاک پروفیسر صاحب کو صحت اعضا و صحت ایمان اور مکمل عافیت والی بابرکت طویل حیاۃ طیبہ عطا فرمائیں تاکہ وہ اسی طرح ’تازہ گل‘ کھلاتے رہیں اور اللہ پاک اس کتاب کو امت مسلمہ کے لیے نافع اور صاحبِ کتاب کے لیے صدقہ جاریہ بنائیں اور اس کی اشاعت میں کسی بھی طرح تعاون کرنے والوں کے لیے بھی صدقہ جاریہ بنائیں، آمین!

٭٭٭