House Rent Graphics

کرایہ کون دے گیا؟

فوٹو:‌FreePik

لیاقت علی۔ تلمبہ

’’کیا بات ہے احمد کے ابا؟ آج کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہو؟‘‘

رات کو عمر دین کام سے گھر آیا تو اس کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر بیوی بشیراں نے پوچھا:

’’بس بیگم! بات ہی ایسی ہے…آہ۔‘‘

عمر دین نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔ وہ آج بہت تھکا ہا لگ رہا تھا۔
’’ارے ہوا کیا؟ مجھے بھی کچھ بتاؤ نا!‘‘

بشیراں نے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’تمھیں پتا ہی ہے کہ تین ماہ ہو گئے ہیں گھر کا کرایہ نہیں دیا۔ آج ورکشاپ پر فیروز دین آیا تھا۔ کہہ رہا تھا کل ہی کرایہ دو، ورنہ مکان خالی کر دو۔‘‘

’’اوہ یہ تو واقعی پریشانی والی بات ہے۔ خیر آپ آرام کریں، کچھ نہ کچھ بہتر ہوجائے گا، میں آپ کے لیے کھانا لاتی ہوں۔‘‘
بشیراں نے پر سوچ انداز میں کہا اور باورچی خانے کی طرف چلی گئی۔

فیروز دین کے مطالبے کا سن کر وہ بھی پریشان ہو گئی تھی لیکن تھکے ہارے شوہر کو تسلی دینا ضروری تھا۔
کھانا گرم کرتے ہوئے وہ اسی ادھیڑ بن میں رہی کہ تین ماہ کا کرایہ کہاں سے آئے گا۔ پچھلے کچھ عرصے سے مہنگائی نے جینا دوبھر کردیا تھا۔ ایک ماہ کا کرایہ ادا کرنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔

عمر دین ایک ورکشاپ میں کام کرتا تھا۔ چالیس ہزار تنخواہ تھی۔ وہ کل تین افراد تھے۔ میاں بیوی اور ایک بیٹا احمد۔ احمد آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ کچھ عرصہ قبل تک وہ سفید پوشی سے باعزت زندگی گزار رہے تھے مگر مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ عمر دین کی تنخواہ نہیں
بڑھی تھی اس لیے اب گھر میں مسائل شروع ہو گئے تھے۔ گھر کا کرایہ، بجلی کا بل، گیس کا بل، پانی کا بل۔ چالیس ہزار میں کیا کیا ہوتا۔ وہ بس بل بھرتے بھرتے ہی خالی ہو جاتا تھا۔‘‘
’’اچھا خیر ہے، اللہ تعالیٰ کوئی سبب بنائے گا۔‘‘

بشیراں نے بڑبڑاتے ہوئے کھانا نکالا اور ٹرے اٹھا کر کمرے میں آ گئی۔

’’زیادہ پریشان نہ ہوں، کھانا کھائیں۔ جب تک میں چائے لاتی ہوں۔‘‘
بشیراں نے عمر دین کے آگے ٹرے رکھتے ہوئے کہا اور خود چائے بنانے چلی گئی۔

عمر دین نے ایک نظر ٹرے کی طرف دیکھا پھر ٹرے اپنی طرف سرکائی اور بسم اللہ پڑھتے ہوئے کھانا کھانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد بشیراں چائے لے آئی۔ کھانا کھا کر عمر دین نے گرما گرم چائے پی اور ہاتھ دھو کر لیٹ گیا۔
’’تو کیا سوچا ہے آپ نے؟ اتنے پیسوں کا انتظام کہاں سے کریں گے؟‘‘

چائے کھانے کے بعد اب بشیراں نے پوچھا۔
’’کل سیٹھ صاحب سے بات کروں گا، پھر دیکھتے ہیں۔‘‘

عمر دین نے کہا اور کروٹ بدل لی۔
بشیراں نے چائے کے برتن اٹھائے اور باورچی خانے میں رکھنے چلی آئی۔ اس کی واپسی تک عمر دین سو چکا تھا۔

٭…٭
’’سیٹھ صاحب! وہ آپ سے کچھ بات کرنی تھی۔‘‘

اگلے دن دوپہر کے وقفے میں عمر دین نے ورکشاپ کے مالک سیٹھ ظہور کو اکیلے بیٹھے دیکھ کر کہا۔
’’ہاں عمر دین!… کہو کیا بات ہے؟‘‘

سیٹھ صاحب نے عمر دین کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
وہ کچھ پریشان دکھائی دیتا تھا۔

’’وہ کچھ پیسے پیشگی چاہیے تھے۔‘‘عمر دین نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
’’کتنے؟‘‘

’’اکیس ہزار۔‘‘
’’اکیس ہزار!‘‘ سیٹھ ظہور نے حیرت سے عمر دین کے الفاظ دہرائے پھر بولے: ’’کیوں؟ ایسی کیا ضرورت پیش آگئی؟‘‘

’’اصل میں پچھلے تین ماہ سے گھر کا کرایہ نہیں دے سکا۔ مہنگائی کی وجہ سے پیسے نکل ہی نہیں پائے، ا ب مالک مکان کہہ رہا ہے کرایہ دو یا پھر گھر خالی کر دو۔‘‘

عمر دین نے تفصیل بتائی۔
’’ہوں، لیکن اتنا تو بہت مشکل ہے۔ مہنگائی نے سب کا برا حال کیا ہا ہے۔ ابھی تو میرے پاس بھی گنجائش نہیں ہے۔‘‘
سیٹھ ظہور نے عمر دین کی بات سن کر کہا۔

’’جی اچھا!‘‘عمر دین نے مایوسی سے کہا اور واپس چلا گیا۔
٭…٭

’’کیا بنا پھر؟ سیٹھ صاحب نے کیا کہا؟‘‘
رات کے کھانے کے بعد بشیراں نے عمر دین کا لٹکا منہ دیکھ کر پوچھا۔

’’کیا کہنا تھا، ٹکا سا جواب دے دیا۔ کہنے لگے اس وقت تو گنجائش نہیں ہے۔‘‘
عمر دین نے پریشانی سے کہا۔

’’اوہ! اب کیا ہو گا؟ کہاں سے لائیں گے ہم اتنے پیسے؟ اکیس ہزار روپے کوئی تھوڑی رقم ہے؟‘‘
بشیراں نے پریشانی سے کہا۔

’’کچھ تو سوچنا پڑے گا۔‘‘ عمر دین نے بےبسی سے کہا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
٭…٭

وہ کافی دیر سے کتاب گود میں رکھے سر پکڑے بیٹھا تھا۔ نجانے کیا بات تھی کہ آج کے مسئلے کا کوئی حل بھی اس کے ذہن میں نہیں آ رہا تھا۔ کھلی کتاب کے ورق پنکھے کی ہوا سے پھڑ پھڑا رہے تھے۔
’’نہیں! یہ نہیں ہو سکتا۔ مجھے اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈنا ہو گا۔‘‘

اس نے سر کو دونوں ہاتھوں سے جھٹکا دیتے ہوئے کہا۔ کمرے میں اور کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ اسکول کا کام کر چکا تھا۔ اب ریاضی کے مسائل حل کرنے رہ گئے تھے لیکن ایک مسئلے پر وہ اٹک گیا تھا۔ فارمولاکسی طرح نہیں لگ رہا تھا۔

تھوڑی دیر اور اسی طرح بیٹھے رہنے کے بعد وہ یک دم اکتا سا گیا۔
’’کہیں میں اس مسئلے سے فرار تو نہیں چاہ رہا ہوں؟ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تو بزدلی ہو گی۔‘‘

وہ بڑبڑایا، پھر یک دم اٹھ کر کمرے سے باہر آ گیا۔ باہر آتے ہی ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا اس سے ٹکرایا۔
’’ارے! باہر تو موسم بہت اچھا ہو رہا ہے۔‘‘اس نے چونک کر کہا۔

پھر ایک خیال کے تحت وہ تیزی سے پلٹا، کمرے سے کتاب اٹھائی اور قریبی پارک میں چلا آیا۔
پارک کے ایک کونے میں سرسبز گھاس پر بیٹھ کر وہ ٹیسٹ یاد کرنے لگا، پھر اچانک اس سے وہ مسئلہ حل ہوگیا۔

’’شکر الحمدللہ!‘‘ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔ اسی وقت اس کے ذہن میں صائم کا فقرہ گونجا۔
’’یار! تم بہت ذہین ہو۔ بہت سمجھ کر سب کچھ پڑھتے ہو۔ تم جیسا طالب علم تو اپنے ساتھی طالب علموں کو بھی پڑھا سکتا ہے۔‘‘

وہ سر حسنین کو یہی سوال زبانی سنا رہا تھا۔ اس نے سارا سوال بغیر کسی غلطی کے اور بغیر اٹکے سنا دیا تھا۔ سوال سنانے کے بعد استاد صاحب سے شاباش ملنے پر صائم نے سرگوشی کی تھی۔
صائم کی بات یاد آتے ہی اچانک احمد کے دماغ میں ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا۔

’’ارے!…یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔‘‘
وہ بڑبڑایا اور اٹھ کھڑا ہا۔ اس کے قدم صائم کے گھر کی طرف تیزی سے بڑھے چلے جا رہے تھے۔

٭…٭
‘‘فیروز صاحب! وہ میں یہ کہنے…‘‘

چوتھے مہینے کے بھی دس دن گزر چکے تھے جب عمر دین اپنے مالک مکان کے پاس معذرت کرنے اور کچھ دن کی اور مہلت لینے کے لیے آیا۔
’’ہاں ہاں عمر دین! کوئی بات نہیں، تمھارا تین مہینے کا کرایہ آگیا ہے تو اب معذرت کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس کوشش کرنا کہ آئندہ ہر ماہ باقاعدگی سے کرایہ دیتے رہو، ورنہ پھر جمع ہوجاتا ہے ٹھیک ہے ناں!‘‘

فیروز دین نے اس کی بات کاٹ کر بول۔
’’کک… کیا! کرایہ مل گیا؟ مگر کہاں سے۔ میں تو یہی کہنے آیا تھا کہ…‘‘

عمر دین بری طرح سے چونک گیا۔
’’کیا مطلب؟ تم گھر پر نہیں دے گئے تھے؟ ساتھ میں پرچے میں تمھارا نام لکھا تھا میں تو سمجھا کہ تم ہو گے اور اب دیر سے دینے کی معذرت کرنے آئے ہو۔‘‘

فیروز نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹتے ہوئے حیرت سے کہا۔
’’حیرت ہے، کون ہو سکتا ہے؟‘‘

عمر دین حیرانی سے بڑبڑایا۔
اُدھر فیروز دین گاہکوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اسے کچھ حیرت تو ہوئی تھی مگر زیادہ دلچسپی نہیں تھی کہ کرایہ کون دے گیا؟ اسے تو بس اپنے کرایے سے مطلب تھا۔

عمر دین نے ایک نظر اسے دیکھا اور واپس گھر چلا آیا۔
٭…٭

’’کیا!؟ کوئی فیروز دین کو ہمارا تین ماہ کا کرایہ دے آیا؟ یہ کیا کہہ رہے ہو عمر دین! ہوش میں تو ہو؟‘‘
بشیراں نے مشکوک نگاہوں سے عمر دین کو دیکھتے ہوئے کہا۔

’’پتا نہیں کون دے گیا؟ لیکن ہاں ہمارا کرایہ ادا ہوچکا ہے۔‘‘
’’کون ہو سکتا ہے؟ آج کے دور میں ایسا کون کر سکتا ہے؟ وہ بھی چپ چاپ۔‘‘

بشیراں نے حیرت سے کہا۔
’’ہو گا کوئی اللہ میاں کا نیک بندہ، دنیا ابھی اللہ کے نیک بندوں سے خالی نہیں ہوئی۔ حیرت بس یہ ہے کہ کسی کو کیا پتا کہ ہم نے تین ماہ کا کرایہ نہیں دیا۔‘‘

عمر دین نے بیوی سے کہا۔
’’آپ لوگوں کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ اللہ کا نیک بندہ آپ کے گھر ہی کا ایک فرد ہے۔‘‘

اسی وقت ایک آواز گونجی۔ دونوں نے چونک کر آواز کی طرف دیکھا۔ کمرے کے دروازے پر کھڑا احمد انھیں مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
’’کک… کیا مطلب؟ یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟‘‘

بشیراں کے منہ سے حیرت سے نکلا۔
’’جی امی جان! میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔ چچا فیروز کو مکان کا کرایہ میں نے ادا کیا ہے۔‘‘

’’مگر تمھارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے؟‘‘
میں نے اس دن آپ کی باتیں سن لی تھیں۔ آپ کو پریشان دیکھ کر میں بھی پریشان ہو گیا تھا۔ اگلے دن میں نے اپنے ایک ہم جماعت سے بات کی۔ وہ ایک امیر کبیر خاندان سے ہے۔ اس کے چچا کو اپنے بچوں کے لیے ایک ٹیوشن پڑھانے والے کی ضرورت تھی۔ انھوں نے مجھے بلا کر بات کی اور چیک کرنے کے بعد مجھے دس ہزار ماہانہ پر ٹیوٹر رکھ لیا۔ میرے دوست نے مجھے کرایے کے پیسے پیشگی لے کر دے دیے جو میں نے چچا فیروز کو دے دییے۔ اب میں اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ٹیوشن بھی پڑھاؤں گا۔‘‘

احمد نے ماں باپ کی حیرت دور کرتے ہوئے تفصیل بتائی۔
’’واہ! بیٹا ہو تو ایسا۔‘‘

دونوں کے منہ سے نکلا اور عمر دین نے آگے بڑھ کر بیٹے کو گلے سے لگا لیا۔‘‘
’’اسے کہتے ہیں ایک اکیلا دو گیارہ۔‘‘

عمر دین نے کہا اور سجدۂ شکر بجا لانے کے لیے کمرے سے نکل گیا جس نے اسے ایسی نیک اور درد مند دل رکھنے والی اولاد عطا فرمائی تھی۔
٭٭٭