Hills Graphics

ہمت کا پہاڑ

فوٹو : FreePik

(۱۳)

راوی: سیہان انعام اللہ خان مرحوم
تحریر:رشید احمد منیب

سنگا پور میں قیام کے دوران پیٹر چانگ سے میرا تعلق استاد و شاگرد سے آگے بڑھ کر دوستی میں تبدیل ہوگیا تھا۔ پاکستان واپس آنے کے بعد بھی کبھی کبھار میں سنگاپور جاتا رہا۔ جب پیٹر چانگ نے دیکھا کہ یہ بندہ ’’ڈوجو‘‘ کا خیال رکھتا ہے، صفائی کرتاہے، پوچا لگاتا ہے اور اپنا کام ٹھیک طریقے سے انجام دیتاہے تو اس نے میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور مجھے اپنے گھر میں ڈرائنگ روم کے ساتھ ایک کمرہ رہائش کے لیے دے دیا۔ میں نے سوچا کہ چلو ہوٹل سے استاد کا گھر بہتر رہے گا۔ اُس وقت معلوم نہیں تھا کہ استاد کے گھر میں تو ان کی بیٹیاں بھی ہوں گی تو وہاں یہ ہوتا کہ ناشتے یا رات کے کھانے میں ایک بڑی میز پر سب گھر والے جمع ہوجاتے۔

مجھے بھی ان ہی کے ساتھ بیٹھنا پڑتا۔

اب ہوتا یوں کہ استاد کی تینوں بیٹیاں مجھے دیکھ کر ہنسنے لگ جاتیں اور باتیں کرنے کی کوشش کرتیں۔ مجھے یہ سب بہت عجیب سا لگتا کہ سامنے ہی استاد موجود ہے، اس کی بیگم بھی بیٹھی ہے تو استاد کی بیٹیاں میرے ساتھ بات کیوں کررہی ہیں۔

میں خاموش رہتا یا ہاں ہوں کرتا رہتا۔ کچھ دن اسی طرح گزر گئے، ایک دن پیٹر چانگ نے ایسی بات کی کہ میں اچھل ہی پڑا۔

کہنے لگے: ’’یار! ویسے تو تم اچھے خاصے ہو لیکن میرے گھر میں تمھیں کیا ہوجاتاہے؟‘‘

میں نے حیران ہوکر پوچھا کہ کیا ہوجاتاہے؟
بولے: ’’تم میری بیٹیوں سے بات کیوں نہیں کرتے؟‘‘

میں کچھ فکرمند ہوگیا کہ یہ کیسی بات کررہے ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ آپ کی بیٹیاں ہیں، بہت قابل احترام ہیں، میں کیسے ان سے بات کرسکتا ہوں۔‘‘
یہ بات سن کر پیٹر چانگ نے ایک گہرا سانس لیا اور بولے:

’’اچھا تو یہ بات ہے، چلو کل سے میں اور میری بیگم اپنا ناشتہ الگ کرلیا کریں گے۔
پھر انھوں نے اچانک ایک اور دھماکا کردیا۔ مجھے دامادی میں لینے کی پیشکش کردی۔ میں تو ایک بار پھر اچھل پڑا کہ استاد کو اچانک یہ کیا سوجھی۔ دل ہی دل میں کہاکہ استاد آپ تو مجھے ابا کے ہاتھوں شہید کروانے کے موڈ میں لگتے ہیں۔

میں نے کہا: ’’سر! بہتر ہوگا کہ میں ہوٹل ہی میں واپس لوٹ جاؤں۔ میرے والد صاحب کو معلوم ہوگیا تو میری خوب پٹائی لگے گی بلکہ وہ مجھے گولی ہی نہ مار دیں۔
پیٹرچانگ نے برا سا منہ بنایا اور کہا کہ اب اس مسئلے میں تمھارے والد کا کیا کام ہے؟

میں نے کہا کہ ہمارے یہاں تو سارا اختیار ہی والد کا ہوتا ہے۔
پھر استاد بولے: ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم اتنے اچھے فائٹر ہوکر بھی اتنے وہمی ہوگے۔‘‘

اب میں انھیں کیسے بتاتا کہ آپ مجھے جانتے ہیں یا نہیں لیکن میرے ابا کو بالکل نہیں جانتے۔ انھیں ہوا بھی لگ گئی کہ ان کے لڑکے نے باہر جاکر کچھ غلط کیا ہے تو شامت آجائے گی!
سچ یہ ہے کہ میرے والد صاحب نے کبھی ایسا موقع ہی نہیں آنے دیا کہ میں کہیں بگڑتا یا الٹے سیدھے ماحول میں جاتا، میری زندگی تو مار کھاتے یا دوسروں کی پٹائی لگاتے، محنت کرتے اور مشقتیں اٹھاتے ہی گزر گئی۔ میں آج کل کے نازک نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ زمانے کی سختیوں کا سامنا کیسے کریں گے؟

جب میں مارشل آرٹ سے وابستہ ہوگیا تو دن بھر والد صاحب کے اسٹور پر کام کرتا تھا اور رات کو پانچ، پانچ گھنٹے اور کبھی اس سے بھی زیادہ دیر تک مارشل آرٹ کی ورزشیں کرتا تھا۔ عام طور پر میری ورزش شام سات بجے شروع ہوجاتی اور رات بارہ بجے تک جاری رہتی تھی۔ کبھی اس سے بھی دیر ہوجاتی۔

میں گھر جاتا تو میری والدہ نے میرے لیے ایک بڑے سے مٹی کے پیالے میں دودھ ابال کر رکھا ہوا ہوتا۔ ہمارے گھر میں بھینس ہوا کرتی تھی اور والدہ صاحبہ خود ہی اس کا خیال رکھتی تھیں۔ اس زمانے میں ڈبے کے دودھ کا استعمال غیرت کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ والدہ کو ڈبوں اور بوتلوں میں بندچیزوں پر اعتبار نہیں تھا۔ وہ گھر میں گندم خود پیستی تھیں۔ مسالے خود تیار کرتی تھیں اور دودھ سے گھی وغیرہ بھی خود بنایاکرتی تھیں۔ اس زمانے میں جو بازار کی چیزیں ہوتی تھیں وہ اتنی خراب نہیں ہوتی تھیں جیساکہ آج کل کی چیزیں ہیں، پھر بھی والدہ ان چیزوں کو گھر میں پسند نہیں کرتی تھیں۔ میں گھر کی بھینس کا نیم گرم دودھ پی کر بے ہوش سا ہوکر سوجاتا۔ کھانا کھانے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی تھی، پھر صبح نماز کے وقت ابا کی لاٹھی کی ٹھک ٹھک ہی مجھے جگایا کرتی تھی۔ میں نماز کی چھٹی کرنا بھی چاہتا تو نہیں کرسکتا تھا کیوں کہ اس صورت میں والد صاحب میری چھٹی کردیتے۔ ورزش پر پابندی لگ جاتی، پٹائی الگ لگتی۔ والد صاحب نے بہت ہی کم مجھے مارا ہوگا، وہ غصہ بھی نہیں کرتے تھے لیکن فائٹر، ماسٹر اور استاد بننے کے باوجود میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ میں والدصاحب کی چھڑی کی زد سے باہر نکل چکا ہوں۔ میرے والد صاحب کو علامہ اقبال کے بہت سے اشعار یاد تھے۔ وہ ایک مومن آدمی تھے۔ انہی کی تربیت نے مجھے انعام اللہ خان بنایا ورنہ میں کہیں خاک میں رُل رہا ہوتا۔

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

٭…٭

ایک مرتبہ میں استادِ محترم سے ملاقات کے لیے ان کے گھر پہنچا تو یہ صبح کا وقت تھا، ان دنوں استاد محترم کا معمول یہ تھا کہ وہ تہجد کے وقت اٹھ کر نماز، تسبیح اور اذکار میں مصروف ہوجاتے۔ فجر پڑھ کر پارک کا چکر لگاتے۔ اس کے بعد اشراق کی نماز پڑھ کر ناشتہ کرتے، پھر اخبار وغیرہ دیکھ کر سوجاتے تھے۔

میری خاطر انھوں نے اس دن فجر کے بعد اپنے معمول کا ناغہ کردیا اور مجھے ملاقات کے لیے مسجد ہی میں بلالیا۔ میں ان کے پاس پہنچا تو بیٹھے تسبیح پڑھ رہے تھے۔ معمول کے مطابق نہایت خندہ پیشانی سے ملے۔ میری خیرخیریت دریافت کی۔ ان دنوں افغانستان پر امریکی حملے کو زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ پورے ملک میں بے چینی تھی۔ کراچی شہر میں دہشت گردی کی مسلسل وارداتیں جاری تھیں۔ لوگوں کو خطرہ ہی لگا رہتا تھا کہ خدا جانے شام واپسی ہوگی یا نہیں۔

میں بھی فکرمند رہتا تھا۔ دینی حلقوں کے متعدد افراد شہید کردیے گئے تھے، فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی لوگ قتل کیے جارہے تھے لیکن دینی حلقوں پر سکوت طاری تھا۔ سب لوگ اپنے اپنے کاموں، پڑھنے پڑھانے، لکھنے لکھانے اور دعوت وارشاد کے کاموں میں مصروف رہا کرتے تھے۔ ان میں سے جو شہید کردیا جاتا اسے زندہ رہنے والے خاموشی سے کسی قبرستان پہنچا آتے، جیسے یہ سب کچھ عام زندگی کا معمول ہو۔ مجھے یوں لگتا کہ کوئی بھی اِن واقعات کو غیر معمولی نہیں سمجھ رہا، کوئی بھی نہیں سوچ رہا کہ ہمیں کچھ چیزوں، کچھ کاموں اور کچھ عادتوں کو تبدیل کرنا چاہیے یا نہیں؟

بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ملک میں خانہ جنگی ہوسکتی ہے۔ یہ خاموشی کسی دن طوفان بن جائے گی۔ اِن حالات میں مجھے اپنے استاذ انعام اللہ خان کا خیال آیا کہ کیوں نہ ان سے مشاورت کی جائے؟یہ بھی سوچا کہ خود سی ہان بھی تو حفاظتی انتظام کے بغیر رہتے ہیں، انھیں بھی تو خطرہ ہوسکتا ہے۔ آخر وہ ایک معروف شخصیت ہیں، ایس ایس جی کو تربیت دیتے رہے ہیں اور ان کے کلب میں ہر قسم کے لوگ سیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ میں ان سے مشورہ کرنا چاہتا تھا کہ دینی حلقوں کو ان حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ اور میں ان سے کہنا چاہتا تھا کہ آپ خود اپنی حفاظت کا انتظام کیوں نہیں کرتے؟

میری باتیں سن کر استاد محترم ہنس پڑے، لیکن یہ ہنسی شفقت والی تھی، تمسخر والی نہیں تھی۔ کہنے لگے: اگر آپ کے دشمن کو یہ معلوم ہو کہ آپ کس جگہ اور کس وقت پہنچیں گے اور کس راستے سے پہنچیں گے تو پھر ہدفی قتل سے بچنا بہت مشکل ہے۔ دشمن آسانی سے آپ کو نشانہ بنا لے گا، اگر یہ تینوں باتیں دشمن کو معلوم نہیں تو پھر وہ ہدف بنا کر قتل نہیں کرسکے گا، اتفاقیہ طورپر کوئی قتل ہوجائے تو الگ بات ہے۔

میں نے سوال کیا کہ دینی حلقوں کے لوگوں کو یہ باتیں کس طرح معلوم ہوسکتی ہیں اور آپ کے خیال میں انھیں کیا کرنا چاہیے؟

سی ہان نے جواب دیا،سب سے اہم بات یہ ہے کہ دینی لوگوں کو دفاع کے متعلق باتیں معلوم ہوں۔ دفاع کیسے ہوتاہے؟ مقابلہ کیسے کیا جاتاہے؟ دینی لوگوں کو دفاع کے بارے میں بنیادی معلومات بھی نہیں ہوتیں۔ اب یہ نکتہ بھی سن لو کہ دینی لوگ اگر دفاع کے بارے میں جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انھیں اپنی خوراک کا معمول درست کرنا ہوگا۔

میرے لیے یہ بات بہت حیران کن تھی کہ ٹارگٹ کلنگ سے بچنے کے لیے اپنی خوراک کے معمول کو ٹھیک کرنا ہوگا؟ اس کا کیا مطلب ہوسکتاہے؟(جاری ہے)

٭٭٭