Office Graphics

احمقوں کا دفتر

فوٹو:‌FreePiK

راز یوسفی

پرانے زمانے کی بات ہے، ایک عقل مند آدمی بدقسمتی کے ہاتھوں لاچار ہو کر بھوکوں مرنے لگا۔

اُس نے روزی کمانے کی سر توڑ کوشش کی مگر کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ اُس کے ساتھ اُس کے بیوی بچے بھی فاقے کرنے لگے۔ کئی کئی روز اُس کے ہاں چولھا نہیں جلتا تھا، جس کی وجہ سے وہ بے حد پریشان رہتا تھا اور روزی کمانے کی فکر اُسے گھن کی طرح کھائے جاتی تھی۔

دن رات کی سوچ بچار کے بعد آخر ایک ترکیب اُس کے ذہن میں آئی۔ اُس نے بادشاہ کو اس مضمون کی ایک درخواست بھیجی کہ آپ کی رعایا میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو نرے احمق ہیں اور آئے دن ایسی ایسی حماقتیں کرتے رہتے ہیں کہ سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے، مگر آپ کے ملک میں ایسا کوئی دفتر موجود نہیں جو ایسے احمقوں کے اعداد و شمار اکٹھے کرے تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ آپ کی سلطنت میں احمقوں کی صحیح تعداد کیا ہے۔ اگر آپ اس مقصد کے لیے ایک ’’دفترِ احمقاں شماری‘‘ قائم کردیں تو میں تنخواہ لیے بغیر یہ فرض ادا کرنے کو تیار ہوں۔ آپ کو میری طرف سے ہفتہ وار ایسی فہرستیں پہنچتی رہیں گی جن میں احمقوں کے نام اور پتوں کے ساتھ ساتھ اُن کی حماقتوں کی تفصیل بھی درج ہوگی جن کی وجہ سے میں انھیں احمق قرار دوں گا۔

بادشاہ کے دربار میں ایسی عجیب و غریب اور انوکھی درخواست پہلے کبھی نہیں پہنچی تھی۔ جب وزیر اعظم نے وہ درخواست بادشاہ کے سامنے پیش کی تو اُسے ہنسی آگئی اور اُس نے یہ فرمان جاری کر دیا کہ درخواست دینے والے شخص کے لیے حکومت کی طرف سے ایک دفتر قائم کر دیا جائے اور اس فرمان کی اطلاع اُس شخص کو بھی دے دی جائے تاکہ وہ دفتر میں حاضر ہو کر اپنا کام سنبھال لے اور ساتھ ہی اُسے یہ ہدایت بھی کر دی جائے کہ اگر اُس نے کسی شخص کے احمق ہونے کے بارے غلط سَلُط اِطلاع دی تو اُس کی گردن مار دی جائے گی۔

عقل مند آدمی کو یہ حکم نامہ ملا تو اُس نے فوراً دفتر میں آکر اپنا کام سنبھال لیا۔

دوسرے روز صبح ہی صبح اُس نے اپنی کتاب میں لکھا:

’’اس شہر کا کوتوال احمق ہے!‘‘
ہوتے ہوتے یہ خبر کوتوال کو پہنچی۔ وہ غصے سے لال پیلا ہو کر عقل مند آدمی کے پاس پہنچا اور لال لال آنکھیں نکال کر بولا:

’’آخر تم نے کیا سمجھ کر مجھے احمق لکھا ہے؟ تم شاید جانتے نہیں کہ میں اس شہر کا کوتوال ہوں؟ اس گستاخی کا ایسا مزہ چکھائوں گا کہ زندگی بھر یاد رکھو گے اور پھر کبھی بھول کر بھی کسی کو احمق نہیں لکھو گے۔‘‘
عقل مند آدمی چپ چاپ بیٹھا کوتوال کی کڑوی کسیلی باتیں سنتا رہا۔ جب وہ بک جھک کر خاموش ہو گیا تو اُس نے کہا:

’’کوتوال صاحب! آپ کو شاید معلوم نہیں کہ مجھے بادشاہ سلامت نے اس لیے ملازم رکھا ہے کہ میں اُنھیں یہ بتا سکوں کہ اُن کی رعایا میں کتنے احمق بستے ہیں۔ آپ نے کل ہی ایک ایسی حرکت کی ہے جس کی بنا پر آپ کو احمق کہا جا سکتا ہے۔ اب یہ ثابت کرنا میرا کام ہے کہ آپ احمق ہیں یا نہیں۔ سارا معاملہ اب بادشاہ سلامت کی خدمت میں پیش ہوگا۔ اگر وہاں میرا الزام غلط ثابت ہو گیا تو میری گردن مار دی جائے گی اور آپ پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔‘‘
کوتوال کی اس جواب سے کچھ تسلی ہوگئی لیکن پھر اُس نے سوچا کہ اگر یہ معاملہ بادشاہ سلامت کے دربار میں پہنچ گیا تو وہاں اُس کی بہت بےعزتی ہوگی۔ ہر شخص پہلے تو یہی سوچے گا کہ کوتوال احمق ہے۔ کافی دیر سوچنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ معاملہ بادشاہ کے دربار میں نہیں جانا چاہیے۔ چناں چہ اُس نے فوراً ہی اپنا رویہ تبدیل کیا اور بڑی منت خوشامد کے بعد عقل مند آدمی کو پانچ سو روپے کی تھیلی رشوت میں دی اور معاملہ رفع دفع کرا دیا۔

کچھ دنوں کے بعد عقل مند آدمی نے وزیراعظم کو احمق قرار دے دیا۔ جب وزیراعظم نے یہ خبر سُنی تو وہ بھی تلملایا اور اُس نے عقل مند آدمی کو مروا دینے کی دھمکی دی، مگر اُس پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اُس نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ جو کچھ کہنا ہو بادشاہ سلامت سے کہیے۔ آخری فیصلہ اُنھی کے ہاتھ ہے۔ میں نے تو اپنا کام کر دیا۔
وزیراعظم کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ اُس نے سوچا کہ اگر یہ بات بادشاہ سلامت تک پہنچ گئی تو اُس کی ملازمت خطر ے میں پڑ جائے گی کہ وہ احمق ہے، پھر وہ کہیں کا نہ رہے گا۔ آخر اُس نے بھی ایک ہزار روپےرشوت دے کر اپنا پیچھا چھڑایا۔

ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ایک دن عقل مند آدمی نے بادشاہ کو احمق لکھ دیا اور اس بات کی بھنک بادشاہ کے کانوں میں بھی پڑگئی۔ اُس کی آنکھوں میں تو خون اُتر آیا اور اُس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ اس آدمی کو اسی وقت دربار میں پیش کریں۔ فرمانِ شاہی کی تعمیل ہوئی اور عقل مند آدمی دربار میں پیش کر دیا گیا۔ بادشاہ نے اُسے دیکھتے ہی گرج کر پوچھا:
’’تجھے مابدولت نے اس لیے ملازم رکھا تھا کہ تُو سب سے پہلے ہمیں ہی احمق قرار دے؟ کیا سارے ملک میں ہمارے سوا تجھے اور کوئی احمق نہیں ملا تھا؟ جواب دے، اگر تیرا جواب معقول نہ ہوا تو جلاد ابھی تیری گردن دھڑے سے جدا کر دے گا۔‘‘

عقل مند آدمی نے ہاتھ جوڑ کر کہا:
’’جان کی امان پائوں تو کچھ عرض کروں۔‘‘

’’اجازت ہے۔‘‘ بادشاہ کی غصے میں ڈوبی ہوئی آواز سارے دربار میں گونج گئی۔
’’جہاں پناہ! کل حضور والا نے چند غیر ملکی سوداگروں سے 100 گھوڑے خریدے ہیں۔‘‘

’’تو پھر کیا ہوا؟‘‘
’’غلام کو اس پر کچھ اعتراض ہے۔‘‘

’’کیسا اعتراض؟‘‘
’’عالم پناہ! جو گھوڑے خریدے گئے ہیں اُن کی قیمت چکا دینے میں تو کوئی حرج نہیں لیکن جناب والا نے غیر ملکی سوداگروں کو اگلے سال مزید 100 گھوڑے لانے کا حکم دیا ہے اور اس کے لیے رقم ابھی سے دے دی ہے۔ اب اگر اگلے سال وہ تاجر گھوڑے لے کر نہ آئیں تو آپ اُن کا کیا بگاڑ لیں گے؟ وہ آپ کی رعایاتو نہیں ہیں۔‘‘

بادشاہ کچھ دیر خاموش رہا۔ وہ یہ سوچ رہا تھا کہ واقعی اُس سے حماقت ہوئی ہے۔ اُس نے دور اندیشی سے کام نہیں لیا لیکن فوراً ہی اُسے ایک خیال سوجھا اور اُس نے عقل مند آدمی سے سوال کیا۔
’’اور اگر وہ سوداگر گھوڑے لے کر آگئے تب کیا ہوگا؟‘‘

’’تب میں اپنے کاغذات سے عالم پناہ کے نام کے ساتھ ساتھ اُن سوداگروں کے نام بھی لکھ دوں گا، کیوں کہ یہ اُن کی حماقت ہو گی۔‘‘
اس نے فوراً جواب دیا تو بادشاہ کو ہنسی آگئی۔

پھر عقل مند آدمی نے اپنی کہانی سنائی کہ کیسے وہ مفلسی کے ہاتھوں فاقوں تک پہنچ گیا تھا اور اس نے ایسی حالت میں یہ آئیڈیا سوچا جس سے وہ رشوت خوری کرتا رہا ہے اور اب بادشاہ سے بھی معذرت چاہتا ہے اور رب تعالیٰ سے بھی توبہ کرتا ہے اور رشوت کے پیسے لوٹانا چاہتا ہے۔
بادشاہ اس سچ بیانی پر مزید خوش ہوا اور اسے انعام و اکرام دے کر اپنے دربار میں مشیر مقرر کردیا، لیکن ساتھ ہی یہ حکم نامہ جاری کرنا بھی نہ بھولا کہ ’’دفترِ احمقاں شماری‘‘ کو فورا بند کردیا جائے۔

٭٭٭