AirCraft Graphic

کیا کیوں اور کیسے؟

ہوائی جہاز اور آسمانی بجلی

عتیق الرحمٰن

زمین پر لگے ہوئے برقی آلات وغیرہ کو آسمانی بجلی سے بچانے کے لیے اونچی جگہ پر لائٹنگ اریسٹر لگائے جاتے ہیں جس سے ایک خاص مقدار تک لائٹنگ گراؤنڈ ہوجاتی ہے اور آلات خراب ہونے سے بچ جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آسمان پر جب ہوائی جہاز محو پرواز ہو اور اس پر ہائی وولٹیج کی آسمانی بجلی پڑ جائے تو اس لائٹنگ کو گراؤنڈ/ نیوٹرائلز کرنے کے لیے ایسا کیا کیا جاتا ہے جس سے جہاز کو نقصان نہ پہنچے؟

ہوائی جہازوں پر آسمانی بجلی گرنے کے بہت سے واقعات ریکارڈ ہیں۔ کہا جاتا ھے کہ اوسطاً ہر جہاز پر سال میں کم ازکم ایک سے دو بار بجلی ضرور گرتی ہے تاہم ہوائی جہاز کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

آسمانی بجلی سے ہٹ کے آپ کو پہلے بجلی کے بارے میں بتانا چاہوں گا۔

بجلی کارآامد اور خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ دلچسپ بھی ہے۔

قارئین میں سے شاید اکثر لوگ نہیں جانتے ہوں گے کہ ہائی اور ایکسٹرا ھائی وولٹیج ٹرانسمیشن لائینوں پر کئی کام انھیں بغیر بند کیے بھی سر انجام دیے جاتے ہیں۔

ایسے کام سر انجام دینے والی ٹیم جو آلات اور گاڑیاں استعمال کرتے ہیں وہ زمین سے مکمل الگ تھلگ (isolated) ہوتے ہیں اور ورکر خود بھی ایک مخصوص حفاظتی لباس پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔

جب ہائی اور ایکسٹرا ہائی وولٹیج یعنی 132 کے وی یا اس سے بھی اوپر 500 کے وی وغیرہ لائنوں پر کام کرنا ہوتا ہے تو کام کرنے والا انجینئر خود کو اسی سیم پوٹینشل پر کر لیتا ھے، یعنی اگر وہ بالفرض 500 کے وی (5 لاکھ وولٹ) لائن پر کام کررہا ہو تو چونکہ اس کا کوئی زمین سے رابطہ نہیں ہوتا اور اس کے تمام آلات اور لباس 500 کے وی سے اوپر پر ڈیزائن ہوئے ہوتے ہیں تو کام کے دوران میں وہ انجنئیر بھی گویا 500 کے وی پوٹینشل ہی کا حامل ہوتا ہے۔

اس لیے کرنٹ پاس نہیں ہوتا۔ کیونکہ کرنٹ پاس ہونے کے لیے اسے ارتھ سے یا دوسرے کسی کم پوٹینشل پوائنٹ سے رابطہ چاہیے ہوتا ہے۔

بس ایسا ہی دورانِ سفر ہوائی جہاز کے ساتھ ہوتا ہے۔

جہاز کی بیرونی سطح کو ایلومونیم سے بنایا جاتا ہے۔ ایلومونیم برقی رو کا ایک بہترین موصل سمجھی جانے والی دھات ہے۔ آسمانی بجلی جہاز پر گرے تب بھی یہ جہاز کی اندرونی چیزوں کو متاثر کیے بغیر اس کی باڈی میں سفر کرتی ہوئی فضا میں ڈسچارج ہو جاتی ہے۔

جہاز کو ڈیزائن بھی ایسا کیا جاتا ہے کہ جب اس ہر بجلی گرتی ہے تو برقی چارج جہاز کے اندرونی حصے میں داخل نہیں ہو پاتے۔ جہاز کی باڈی کے بیرونی حصے میں جو چارج ہوتے ہیں ان کی شدت کی وجہ سے آس پاس کی ہوا (ionize) ہوجاتی ہے، اس کے نتیجے میں جہاز میں موجود برقی چارج ایونائزڈ ہوا کے ذریعے فضا میں خارج ہوجاتے ہیں۔ اس مظہر کو (corona discharge) کہتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ انتہائی زیادہ چارج کے حامل بادلوں کر درمیان سے گزرتا ہوا جہاز اچھا موصل ہونے کے باعث آس پاس کے بادلوں پر موجود الیکٹرونوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی بجائے انہی کی قوت سے دفع کر دیتا ہے۔

اسی لیے سال بھر میں جہاز پر آسمانی بجلی گرنے کے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں، مگر اس سے نقصان شاذ ونادر ہی سامنے آتا ہے۔

البتہ جہازوں پر آسمانی بجلی گرنے سے سب سے زیادی خطرہ ایندھن کے ٹینکوں کو ہوتا ہے۔ اس لیے انھیں بہت زیادہ محفوظ بنایا جاتا ھے اور ان ک تنصیب ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں یہ براہ راست آسمانی بجلی کے اثر سے محفوظ رہیں۔

تاہم اس تمام نظام کے باوجود اب بھی آسمانی بجلی سے مکمل بچاؤ کا انحصار پائلٹ پر ہی ہوتا ہے کہ وہ ایسی ہوائی گزرگاہ سے اجتناب کرے جہاں گرج چمک کے ساتھ بارش کا عمل جاری ہو اور جہاں بادلوں میں طاقتور آسمانی بجلی موجود ہو۔

٭٭٭