Promise

اور میں اپنے وعدے پر پورا اتروں گا! (۶)

تصویر بشکریہ : FreePik

جبیں چیمہ

اور یہ اُس پہلی ملاقات سے کافی سال بعد کی بات ہے جب وہ ایک دفعہ پھر رمضان کے آخر میں اپنے پیاروں کے پاس تھی۔
قاسم کسی کسی رات ہی گھر آتا۔ وہ اکثر اپنے ابا سے قاسم کے بارے میں پوچھتی اور کہتی کہ ابا! اب آپ قاسم کی شادی کردیں۔ نجانے کہاں آوارہ گردی کرتا پھرتا ہے۔

ایک دن ابا نے جواب دیا:

’’بیٹی! غزہ کے جوانوں کے پاس آوارہ گردی کا کہاں وقت ہے۔ میرا بیٹا مختلف اسکولوں میں بچوں کو جسمانی تربیت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے اور بھی بہت سے کام ہیں جن میں وہ فی سبیل اللہ ہمہ وقت جٹا رہتا ہے۔‘‘

ابا کے لہجے میں بیٹے کے لیے پیار ہی پیار تھا۔

اماں بھی قاسم کی سرگرمیوں سے حد درجے مطمئن تھیں۔

فریال کا گھر بھی اسی عمارت کے ایک کمرے میں تھا، جس میں امی اور ابا رہتے تھے۔ وہ بھی اپنے گھر کا کام ختم کرکے اُن کے پاس آجاتی تھی اور اکثر وہ لوگ روزہ اکٹھے افطار کرتے تھے۔

عام طور پر پانی یا کھجور ہی سے افطار کیا جاتا۔ مغرب کی نماز کے بعد زیتون، پیاز اور ٹماٹر کے ساتھ روٹی کھا لی جاتی۔ کبھی کبھار کہیں سے اونٹ یا بھیڑ کا گوشت آجاتا تو وہ شوربے والا پکا کے ارد گر دکے گھروں میں بھی بھیجا جاتا۔

قاسم جب بھی گھر آتا، وہ لیلیٰ کے بیٹے ابراہیم جو اب چھے سات کا ہوگیا تھا اور محمد جو چار سال کا تھا، دونوں کو ساتھ ملا کر اپنا پرانا ترانہ ضرور گاتا ؎

اخی! انت حُر ورأ السدود

اے بھائی تم ان سلاخوں کے پیچھے آزاد ہو

جبکہ تم اللہ پر یقین رکھتے ہو

اے بھائی اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاؤ

’’اے بھائی! میں آج بھی مضبوط ہوں اور ناقابلِ شکست چٹانوں کی جڑوں کو کھود سکتا ہوں اور میں دنیا کے اِن سارے سانپوں کا سر کچل دوں گا۔

(حتیٰ کہ وہ ختم ہوجائیں گے)

تو اگر میں قتل ہوگیا تو شہید ٹھہرا
اور تم عظیم الشان فتح حاصل کرو گے

محمد جو اگرچہ صرف چار سال کا تھا مگر ماموں قاسم اور اپنے باپ عبدالرحمن کی گود میں کھیلتا بڑا ہورہا تھا سو اتنی چھوٹی سی عمر میں بھی اسے سارے جہادی ترانے یاد تھے، اب تو ابراہیم نے بھی یہ ترانہ بڑی جلدی سیکھ لیا تھا۔
ایک دن قاسم گھر آیا تو ابراہیم اسے دیکھتے ہی چلایا:

یاخال فان انا مت فانی شہید
اے ماموں! اگر میں مر گیا تو شہید ٹھہرا

وانت ستمحی بنصر مجید
اور تم عظیم الشان کامیابی حاصل کروگے!

’’اچھا جی تو یہ ارادے ہیں۔‘‘
قاسم نے خوش ہوکر اسے گود میں اٹھا لیا۔

’’مگر اس سے پہلے تمھیں تربیت حاصل کرنی ہے، خود کو مضبوط بنانا ہے اور وہ جو سانپوں کی طرح ہمیں ڈس رہے ہیں اُن کا سر کچلنا ہے۔‘‘
مگر ماموں! محمد بھی شہید ہونا چاہتا ہے جبکہ وہ مجھ سے چھوٹا ہے۔ میں نے رات کو بھی دعا کی تھی کہ میں اس سے پہلے شہید ہوجاؤں۔ کیا پتا میری دعا قبول ہوجائے۔‘‘

اُس کی آنکھوں میں ستارے سے چمک رہے تھے۔
’’تم ضرور شہید ہوگے میرے بیٹے! مگر پہلے دہشت گردوں کو جہنم واصل کرکے۔‘‘ اس کے ابا بولے تھے۔

٭…٭
رمضان کا آخری روزہ تھا۔ لوگ چاند دیکھنے کے لیے چھتوں پر اور باہر کھلی جگہ کھڑے تھے۔

اور پھر عید کا اعلان ہوگیا۔
لیلیٰ اس دفعہ بھی فریال، اس کے بیٹے محمد، اپنی امی ابا اور قاسم کے لیے نئے کپڑے بنا کر لائی تھی تاکہ وہ عید پر پہن سکیں۔

اس شام وہ سب اکٹھے بیٹھے عید کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ لیلیٰ نے سب کو اُن کے کپڑے لاکر دیے تو ابا چند لمحے کپڑوں کو ہاتھ میں لیے بیٹھے رہے۔
’’لیلیٰ! میرے یہ کپڑے جو میں نے پہنے ہوئے ہیں بالکل ٹھیک ہیں۔ تم فکر نہ کرو۔ یہ ابھی چند سال اور چلیں گے، یہ نئے کپڑے مجھ سے زیادہ جو مستحق ہیں انھیں دے دیتے ہیں۔‘‘

’’ابا! میں انھیں خاص طورسے آپ کے لیے لائی تھی۔‘‘ لیلیٰ روہانسی ہوکر بولی۔
’’بیٹی! نئے کپڑوں پر نوجوانوں کا حق زیادہ ہے۔ ہم آج ہیں کل نہیں ہوں گے، ہمیں اب اُن کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

وہ قطعیت سے بولے۔
’’ابا! آپ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں؟‘‘ فریال اور لیلیٰ بیک وقت بولیں۔

’’بیٹی! اللہ نے کافی مہلت دے دی، تم دونوں اپنے گھروں کی ہوگئیں، تمھارے بچے دیکھ لیے۔ قاسم اپنی راہ پر لگ چکا ہے۔ بس اب اللہ کی مرضی کہ وہ مجھے یہاں کب تک رکھتا ہے۔‘‘
ابا مسکراتے ہوئے بولے۔

امی نے نیا جوڑا اٹھا کر اندر رکھ دیا کہ قاسم کا کوئی دوست پہن لے گا۔
لیلیٰ نے رات کو قاسم کو پیسے دے کر کہا تھا کہ وہ تازہ گوشت اور دودھ لے آئے۔

’’اے لیلیٰ! اے میری پیاری بہن! تمھارے پاس اتنے پیسے تھے تو تم نے اب تک بتایا کیوں نہیں۔ اس سے بہتر بھی ان پیسوں کا استعمال ہوسکتا تھا۔‘‘
قاسم مسکراتے ہوئے بولا تو وہ ہنس دی۔

تھوڑی دیر بعد غادہ، محمد اور ابراہیم ابا کے ساتھ مسجد میں عشا پڑھنے جانے لگے۔
ابراہیم دروازے پر پہنچ کے اچانک واپس پلٹا۔

لیلیٰ اپنی بہن سے محو گفتگو تھی۔ اُس کی دروازے کی طرف پیٹھ تھی۔
ابراہیم باہر سے آکر اس کے کندھوں کے ساتھ جھول گیا اور سرگوشی کی:
’’امی! جب کوئی مرجائے یا شہید ہوجائے تو صبر کرتے ہیں اور کہتے ہیں: انا للہ وانا الیہ راجعون۔‘‘

’’اچھا استاد جی! جان چھوڑو، سوائے مرنے اور شہید ہونے کے اور کوئی بات ہی نہیں آتی تم بچوں کو تو۔‘‘
وہ مسکراتے ہوئے فریال سے بولی۔
’’ہمارے بچوں نے ماں کی آغوش کی بجائے موت کی آغوش میں آنکھیں کھولی ہیں۔ انھوں نے موت کو اتنی بار اور اتنا قریب سے دیکھا ہے کہ وہ موت سے مانوس ہوچکے ہیں، اب انھیں مرنے سے ڈر نہیں لگتا۔‘‘ فریال بولی۔

عید کی صبح چمکتے چہروں کے ساتھ ابراہیم، محمد اور غادہ نانا ابا، قاسم اور محمد کے ابا عبدالرحمن کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے نکلے۔
لوگ جوق در جوق مسجد کی طرف جا رہے تھے۔

لیلیٰ فریال اور امی نے بھی اپنے کپڑے بدلے اور عید سے واپسی کے لیے کھانے کی تیاری کرنے لگیں مگر نماز ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ اوپر آسمان پر جہازوں کی آمد شروع ہوگئی۔
اور پھر مسجدوں میں نہتے مسلمانوں پر گولیاں برسائی جانے لگیں۔ بے جرم و خطا صفوں کی صفیں خون میں نہلا دی گئیں۔ کیونکہ وہ ’’دہشت گرد‘‘ تھے، کیونکہ ان کی وجہ سے امریکی اور یہودی بے آرام تھے۔ جب تک وہ انھیں صفحہ ہستی سے مٹا نہ لیتے وہ ان کی دہشت سے باہر نہیں نکل سکتے تھے۔

کیسا تھا دنیا کا انصاف!
نہتے مسلمان عید کی نماز پڑھتے ہوئے مار دیے جائیں تو بالکل جائز، مارنے والا معصوم مگر مرنے والا دہشت گرد۔

لوگوں کو توپوں اور ٹینکوں تلے کچل دیا جائے تو کچلنے والا معصوم اور مرنے والا دہشت گرد!
ان کے اوپر تابڑ توڑ گولیاں برس رہی تھیں۔ غادہ اور محمد تو عبدالرحمن کے ساتھ تھے، وہ پھرتی سے انھیں لے کر اوٹ میں ہوگیا تھا مگر ابراہیم کو دو گولیاں لگ چک تھیں اور اب ابا اسے اپنے ساتھ چمٹائے بیٹھے تھے کہ ایک دفعہ پھر گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی اور اس دفعہ ابا نے ساری گولیاں اپنے اوپر جھیلیں۔
قاسم کا کچھ پتا نہیں تھا۔

مسجد شہیدوں کے خون سے مشک بار دلھن کی طرح ہوگئی تھی۔
عبدالرحمن غیظ و غضب کی تصویر بنا غادہ اور محمد کو لے کر گھر پہنچا تو اس کے کپڑے خون سے سرخ ہو رہے تھے۔
’’کیا بنا؟ کتنے شہید ہوئے؟‘‘

امی کی آنکھیں تو جھلملا رہی تھیں مگر آواز میں ذرا بھی لڑکھڑاہٹ نہ تھی۔ انھوں نے بڑی صبرواستقامت کے ساتھ مضبوط لہجے میں پوچھا۔(جاری ہے)
٭٭٭