Eid Prayer

نیت کی درستی

حفصہ شکیل

بعض نیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو سدھارنے، سنوارنے، نکھارنے اور خالص بنانے میں برسوں بھی لگ سکتے ہیں اور شاید عمریں بھی!
اگر ایسا نہ ہوتا تو جہنم کو بھڑکانے کے لیے فاسقوں سے بھی پہلے عالم، سخی اور مجاہد کو ایندھن نہ بنایا جاتا جن کی نیت میں کھوٹ تھا۔

جی ہاں! سب نیتوں کے کھیل ہوتے ہیں۔

تعریف مقصد نہ ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔ کیونکہ اعمال میںوزن اخلاص کا ہوتا ہے مقدار کا نہیں۔ یہ مسلسل یاد دہانی ہر گزرتے لمحے میں ضروری ہے ہمارے لیے، کیونکہ کبھی ہم تعریف تو سمیٹ لیتے ہیں اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ تعریف تو اوپر مذکور لوگ بھی بٹور کر کے لے جائیں گے، جنھیں کہا جائے گا کہ تم نے اپنی واہ وا کے لیے کیا سو تعریف کردی گئی، اب تمھارے لیے جہنم ہے!

ایک دفعہ ایک شیخ صاحب کو فرماتے سنا کہ کہ اگر میری بات اخلاص نیت کے ساتھ محض اللہ رب العزت کی رضا کی خاطر صرف ایک انسان سنتا ہے تو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ نیت میں کمی پیشی کے ساتھ وہ بات ہزاروں کا مجمع سنے۔

سبحان اللہ!

اور ہم کیا چاہتے ہیں…؟

ہماری نیتیں کیا ہیں اپنے کام اور معاملات کو لے کر…؟

کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی نفس کی تسکین کا سامان کرتے رہیں اور شیطان ہمیں اصل یعنی اخلاص بھلا دے!

نیت کا اخلاص صرف ایک لمحے، ایک منٹ، یا ایک دن کی سوچ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ پوری زندگی کا سفر ہے۔ ہر ہر لمحے کی یاد دہانی ہے۔ اپنے ضمیر اور دل کے دروازے پر بار بار کی دستک ہے۔ یہ الرٹ سگنل ہے، تاکید ہے اور مشق ہے۔

نیتوں کے بھی درجات ہوا کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کسی ایک ہی کام کے پیچھے دو انسانوں کی نیتیں مختلف ہوں، اور یہ درجے انسان مشق ہی سے طے کرتا ہے۔

آغاز سے انتہا تک، نیت کی خوبصورتی اور اخلاص میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ بہرحال، ابتدا ہم نے خود کرنی ہوتی ہے۔ دھیان رکھ کر، یاد سے،اخلاص کے ساتھ، محض اللہ رب العزت کے لیے۔

راقمہ کا طریقہ یہ ہے کہ ہر کام سے پہلے کوشش ہوتی ہے کہ نیت کی درستی کرلوں، بلکہ کام میں جتنی بھی خیر کی نیتیں شامل ہوسکتی ہیں، کرلوں۔

نیت کو درست کرنا کبھی یاد رہتا ہے کبھی نہیں لیکن مسلسل کوشش سے یہ چیز آہستہ آہستہ عمل میں آرہی ہے الحمدللہ!

کام خواہ دین کے ہوں یا دنیا کے، ان میں ایسے کرتی ہوں کہ اسکیننگ کرنے کے بعد ذرا سا بھی نیت میں کہیں کمزوری نظر آئے کہ اس سے مقصود دنیا اور دنیا والے ہوں، کہیں چھوٹے لیول پر بھی، یا اللہ تعالیٰ کے لیے کرنے کے ساتھ لوگوں کی واہ وا کی چاہت بھی ہونے لگے یعنی ملاوٹ، نفس ہوا میں اڑنے کا سوچنے لگے، تو اسی وقت اُس کام کو چھوڑ دیتی ہوں۔

بعد میں کسی وقت دل و دماغ گواہی دینے لگیں کہ ہاں صرف اللہ، اللہ اور بس اللہ ہی مقصود ہے تو پھر کرلیتی ہوں۔

دوسرا یہ سوچتی ہوں کہ اگر میرے اردگرد سے سب لوگ محو ہو جائیں، کوئی دیکھنے والا نہ ہو سوائے اللہ کے۔ اس سوچ کے بعد اگر میرا مورال اور ذوق ویسا ہی رہے بلکہ شوق اور بڑھ جائے تو پھر وہ عمل کرلیتی ہوں۔

سوچ کا ایسا انداز بھی یکدم نہیں ہو جاتا۔ بہت کوشش، بہت توجہ اور بہت استقامت چاہیے ہوتی ہے لیکن جب روزانہ کے عمل میں آجائے تو آسان ہونے لگتا ہے۔ اللہ تعالی نے تو کوشش ہی مانگی ہے نا اپنے بندے سے؟ کاملیت تو نہیں مانگی لیکن ہم کاملیت تک جانے کی کوشش تو کرسکتے ہیں ناں!

٭٭٭