Skin Color

رنگت

تصویربشکریہ : FreePik

رنگت
سونیا بلال۔ جرمنی

’’یہ جو جرمن ہوتے ہیں ناں اماں!؟‘‘
’’ہمم۔‘‘

ہاجرہ کی بات کو بے دھیانی سے سنا گیا۔
’’یہ اتنے وائٹ ہوتے ہیں۔‘‘

اِس بار میں نے پورے دھیان سے اسے دیکھا، کیونکہ ہمارے گھر میں کبھی کسی کی رنگت، قد، جسامت اور شکل و صورت پر بات نہیں ہوتی۔ ایسی باتیں شدت سے ممنوع اور ناپسندیدہ ہیں۔
’’ہاں جی، تو اس میںکیا ہوا؟‘‘

اس بار آواز کو شفقت سے مکمل عاری کر کے پوچھا گیا۔
’’تو میں نے کچھ پوچھنا ہے، جب اُن میں سے کچھ لوگ مسلم ہو جاتے ہیں تو اپنی رنگت کیسے چینج کرتے ہوں گے؟‘‘

’’مجھے سمجھ میں نہیں آئی آپ کی بات ہاجرہ؟‘‘
’’اماں! میں پوچھ رہی ہوں کہ یہ وائٹ ہوتے ہیں نا اِس لیے کہ یہ نان مسلم ہیںتو جب یہ مسلمان ہو جاتے ہیں تو مسلمانوں جیسا کلر کیسے چینج کرتے ہیں؟ مسلمان تو ایسے وائٹ نہیں ہو سکتے نا۔‘‘

’’اوہ اچھا، یہ مطلب تھا آپ کا۔‘‘ مجھے بے ساختہ ہنسی آگئی۔ ’’نہیں ہاجرہ! مسلمان ہونے نہ ہونے سے رنگت کا کوئی لینا دینا نہیں۔ قومیت اور علاقے کا فرق ہوتا ہے۔ ہر جگہ اور قوم کے لوگ مختلف رنگ اور شکل وصورت کے ہوتے ہیں، دنیا میں صرف ہم پاکستانی ہی مسلمان نہیں ہیں بیٹا! ترکی اور کئی عرب ممالک کے لوگ ایسے ہی سرخ وسفید ہوتے ہیں، جرمنز جیسے۔ ویسے بھی چہریکا کیا ہے، اچھا تو دل ہونا چاہیے ناں…!‘‘
میں نے رسان سے اسے سمجھایا۔

’’وہ تو مجھے پتا ہے اماں! بس مجھے لگا کہ شاید مسلمان ہونے کے لیے کلر کسی طرح چینج کرنا پڑتا ہو گا۔‘‘ وہ بولی اور مجھ سے لپٹ گئی۔
٭٭٭

اداسی اور خوشی
بنت نجم الدین۔ ڈیرہ اسماعیل خان

’’محمد احمد عصر کی نماز کے لیے گیا تو مجھ سے فرقان کے گھر جانے کی اجازت طلب کی۔ اسے ہوم ورک بتانا تھا۔‘‘
عائشہ عرفان کو بتا رہی تھی۔

’’لیکن جب وہاں سے آیا ہے تو اداس تھا۔ میں مہمانوں میں مصروف رہی۔ باجی بھی عشا تک ہی گئی تھیں۔ مجھے موقع نہ مل سکا پوچھنے کا!‘‘
’’کیا بات ہوسکتی ہے؟‘‘

عرفان صاحب نے پوچھا۔
’’پتا نہیں آپ مجھے صبح پوچھ لیجیے گا۔‘‘

٭…٭
’’بیٹا! کل فرقان کے گھر گئے تھے۔‘‘

’’جی بابا جانی!‘‘ وہ خاموش سا ہوا۔
نظروں نے یکدم امی اور بابا کا دیدار کیا۔

دونوں کی آنکھیں پیارے بیٹے پر جمی تھی۔
’’بابا! فرقان کے چچا گھر میں نماز پڑھ رہے تھے بلاعذر ہی، تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کتنا سخت ناراض ہوتے ہیں اس بات سے۔ میں نے فرقان سے وجہ جانی تو کہنے لگا: یہاں بھی دادو کے ڈر سے پڑھ رہے ہیں۔ صبح کی تو پڑھتے ہی نہیں۔ دادو کا غصہ بھی بے کار چلا جاتا ہے۔

بابا ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز، جنت کی کنجی نماز، پھر بھی منہ موڑا جا رہا ہے۔‘‘
ننھا احمد آبدیدہ ہوگیا۔

’’فرقان بتا رہا تھا کہ چاچو تو دادو سے لڑ بھی پڑتے ہیں۔ بس بابا جانی تب ہی سے بے چینی ہے۔‘‘
عرفان صاحب بیٹے کو ہی تک رہے تھے۔

’’بابا! آپ…‘‘
’’جی بیٹا! بابا سمجھ گئے ہیں آج ہی سے بابا کی محنت اُن پر شروع ہوگی۔ بس یہی کہنا چاہتے ہو ناں تم؟‘‘

’’ج… جی…‘‘ محمد احمد کی گہری اداسی خوشی میں بدل گئی۔
٭٭٭