Ladies Hair Style

جھڑوسن

عروبہ ساریہ

’’حلیمہ کو تو شیر بھی کھائے تو اسے مرچیں لگ جائیں۔‘‘

دادی ہنستے ہوئے بولیں اور میز کے گرد بیٹھے سب لوگ ہنس پڑے۔

حلیمہ نے ناسمجھی سے سب کو دیکھا اور اپنے کھیل میں مگن ہوگئی۔

حلیمہ صاحبہ ہمارے گھر کی نامور شخصیات میں سے ایک ہیں۔ بادامی رنگ آنکھیں، سنہری بکھرے بال (جنھیں وہ بہت کم ہی باندھنے کی زحمت کرتی ہیں)، گورا رنگ اور ڈھائی فٹ کے لگ بھگ قد۔

یوں تو چھے سال کی ہیں مگر اپنے چھوٹے قد کے باعث وہ چار سال کی لگتی ہیں۔ حد سے زیادہ نخریلی ہیں، شہزادیوں والے نخرے، نک چڑھی، ہر وقت تیوریاں چڑھی ہوئیں، بات بات پر جذباتی ہوجانے والی یہ شخصیت بہت کم ہی گھر والوں کے علاوہ کسی سے بات کرتی ہیں۔ اگر ایک دفعہ ان کا بین شروع ہوجائے تو بہت مشکل سے رکتا ہے۔

بہن بھائی حتی الامکان سب کوشش کرتے ہیں کہ انھیں کوئی بات بری نہ لگ جائے، ورنہ گھر میں وہ بھاں بھاں ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ!

ایک دن زینب نے حلیمہ صاحبہ کے بکھرے ہوئے بال ہاتھ میں لیتے ہوئے شرارت سے کہہ دیا: ’’حلیمہ کبھی بال بھی بنالیا کرو، جھڑوسن دکھائی دیتی ہو۔‘‘

حلیمہ صاحبہ کے تیور خطرناک ہونے لگے (جن کا مطلب تھا پارٹی شروع!)

زینب فوراً گھبرا کر بولی: ’’ارے میں تو مذاق کر رہی تھی!‘‘

’’نہیں میں جھڑوسن ہوں، ابھی اماں کو بتاتی ہوں۔‘‘

انھوں نے پاؤں پٹخا اور بھاں بھاں کے کوڈ سے اماں کو ’’بتانے‘‘ لگیں۔

اس کی چیخیں سن کر اماں کمرے میں آگئیں۔

’’کیا ہو رہا ہے؟‘‘ وہ جھلا کر بولیں۔

’’اماں! زینب آپا نے مجھے جھڑوسن کہا ہے۔‘‘وہ چیختے ہوئے بولیں۔

’’زینب باہر آؤ نا ذرا، مجال ہے جو چھوٹی بہن کو نہ چڑاؤ۔‘‘

اماں غصے سے بولیں اور زینب حلیمہ صاحبہ کو غصے سے دیکھنے لگی جس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔

ایک دن ہم حلیمہ سے مخاطب ہوئے: ’’حلیمہ! میں تم پر کہانی لکھوں گی!‘‘
’’کیا؟ نہیں! آپ بہت گندی ہیں۔‘‘

وہ یہ کہہ کر روتے ہوئے وہاں سے لاؤنج میں چلی گئیں اور ہم ہکا بکا رہ گئے کہ آخر ہم نے ایسا کیا کہہ دیا ہے؟
ہم بھی لاؤنج میں آئے تو وہ وہیں جلوہ افروز تھیں۔ ان کے ساتھ ابا حضور بھی تشریف فرما تھے اور فون پر کچھ دیکھ رہے تھے۔

’’بابا! یہ دیکھیں میں نے تو حلیمہ سے صرف یہ کہا تھا کہ میں آپ پر کہانی لکھوں گی؟ مگر یہ بھاں بھاں کرتے ہوئے باہر آگئیں، ہر ایک کو شوق ہوتا ہے مشہور ہونے کا تو…‘‘

’’ہاں جی تو میں کیوں اپنے منہ پر آپ کو کہانی لکھنے دوں؟‘‘
وہ شان بے نیازی سے ہماری بات کاٹتے ہوئے بولیں۔

’’کیا!‘‘ ہم ہکا بکا کہ یہ بات تھی جس پر یہ رو رہی تھیں؟ اور پھر ایک دم ہمیں ہنسی آگئی اور پھر ہنس ہنس کر ہمارے پیٹ میں بل پڑ گئے۔
بہر حال اس واقعے کے کچھ دیر بعد ہم نے حلیمہ صاحبہ سے کہا: ’’می می (ہم انھیں پیار سے می می (mi mi) کہتے ہیں) میں نے کہانی لکھ لی، اس میں، میں نے لکھا ہے کہ بادامی آنکھیں، بکھرے بال…‘‘

ابھی ہم حلیہ پورا بیان بھی نہ کر پائے تھے کہ حلیمہ صاحبہ بھرائی ہوئی آواز میں بولیں:
’’میرے بال بکھرے ہیں؟ (اتفاق سے انھوں نے اس وقت بال باندھے ہوئے تھے) آپ نے کیوں جھوٹ بولا!‘‘

اُن کی آواز رندھ گئی اور بھا﷽ں بھاں شروع۔
ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔

٭٭٭