Masjid e Aqsa

القدس کا درد

مریم قدسی

وہ مقدس سر زمین جس کا نام ہی اس کی تقدیس کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس کے مبارک ہونے کی گواہی خود ﷲ نے دی، جسے تمام انبیاء کرام علیہ السلام کی جبینوں کا بوسہ لینے کا شرف حاصل ہے جو سلیمان و داؤد علیہما الصلوٰۃ و السلام کی فراست، مریم علیہ السلام کی پاک دامنی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و فضیلت کی گواہ ہے، آج اس پر ان کا قبضہ ہے جو انبیاء کو شہید کرنے والے ہیں۔ آج اس سرزمین کے حقیقی وارثوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں مگر صد افسوس کہ آج مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے کی بجائے اپنے ازلی دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ان کی مصنوعات کی خریداری کرکے اپنے ہی بھائیوں کو مشکل اور اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالنے میں لگا ہوا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ظالم کی پشت پناہی پر دنیا بھر کے کفار موجود ہیں مگر اس کے باوجود، اس سرزمین کے بہادر بیٹے اپنی جان کی بازی لگا کر قرونِ اولیٰ کے جانبازوں کی یاد تازہ کررہے ہیں۔ اِن میں آٹھ سال کے بچے سے لے کر اسی سال کے بوڑھے تک اپنے نحیف ہاتھوں میں موجود داؤدی پتھروں سے ٹڈی دل اسرائیلیوں سے درانہ وار لڑرہے ہیں۔

اپنے لہو سے اِس مقدس سر زمین کو سینچتے یہ خوش نصیب اور ’’انااخذ تک‘‘ (میں نے آپ کو چنا) کی مثال بنے یہ مسلم پھول اپنے لہو سے رقم کررہے ہیں کہ ؎

خونِ دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگِ گلاب

ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

ان کی بہادر مائیں بچپن ہی سے بچوں کو لوری کے بجائے جہادی نغمے سنا کر ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے لبریز کرتی ہیں، انھیں آزادی کا شیدائی بناتی ہیں۔ اُن خنساء و خولہ جیسی ماؤں کی اولاد بھی عمر و خالد کی طرح جری و فراست مند ہوتی ہے۔ بہنیں سونے سے قبل چھوٹے بہن بھائیوں کو کہانیوں کے بجائے عمر و صلاح الدین ایوبی کے قصے سناتی ہیں۔ آزادی کی طلب تو ان کی مائیں اولاد کی گھٹی میں ڈال دیتی ہیں اور بہنیں، بھائی، والد اور بزرگ بھی اپنا ممکن حد تک فرض نبھا رہے ہیں، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری نسل کیوں اس فرض سے ناآشنا ہے!

نسل نو کی بات تو ایک طرف، ہمارے بزرگ بھی اِس امر کی اہمیت سے ناآشنا ہیں۔ ہمارے نوجوانوں سے تو فجر میں نہیں اٹھا جاتا، وہ میدانِ جہاد کی سخت راتیں کیسے برداشت کرسکتے ہیں؟ ہماری مائیں تو بیٹوں کو سینے سے لگا ئے رکھتی ہیں، وہ ان سپوتوں کی شہادت پر صبر کرکے شہید کی ماں ہونے کا اعزاز کیسے حاصل کر سکتی ہیں؟

ان سب سوالوں کا جواب اس دن ملے گا جب ہمارا ایمان مضبوط ہو گا، اور اس کے لیے سب سے پہلے ہم خواتین کا ایمان مضبوط ہونا چاہیے، جو آنے والی نسلوں کی تربیت کی ذمے دار ہیں۔ ہمیں بہنوں کی شکل میں بھائیوں کو، بیوی کی صورت میں شوہر کو اور ماں کی صورت میں اولاد کو اللہ تعالیٰ کے راستے کے لیے تیار کرنا ہے۔

ہمارا یہ قدم قدس کی آزادی کا سنگِ بنیاد ہو گا اور ان شاء ﷲ تعالیٰ ہم اس سر زمین کی آزادی کا نظارہ یا تو اپنی ان چشم تر سے کریں گے یا اس جدوجہد میں قربان ہوجائیں گے۔
٭٭٭